تعلیم اور ترقی کا ایک باہمی رشتہ ہے‘ جس کی جھلک ہم اقوامِ عالم کی تاریخ میں دیکھتے ہیں۔ اس رشتے کی اہمیت اکیسویں صدی میں اور زیادہ ہو گئی ہے جب معیشت کا تصور علم سے وابستہ ہو گیا ہے اور یوں وہی قومیں ترقی کے زینے طے کر سکتی ہیں ‘جن کی نالج اکانومی( علمی معیشت ) مضبوط اور مستحکم ہو گی ۔ جس طرح معیشت کا تعلق علم سے وابستہ ہے ‘اسی طرح دورِ حاضر میں طاقت کا فرسودہ تصور مسترد ہو چکا ہے ‘جو توپ و تفنگ سے جڑا ہوا تھا ۔آج کل سافٹ پاور کی اصطلاح عام ہے ۔ یوں طاقت کا جدید تصور بھی علم سے وابستہ ہے‘ جس کے ذریعے ہم دوسروں کے ذہنوں کو اسیر کرتے ہیں۔
1947 ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو اسی سال پہلی ایجوکیشن کا نفرنس منعقد کی گئی ۔اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ قائداعظم کے مطابق تعلیم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ قائد کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر ہم نے بحیثیت ایک آزاد قوم ترقی کرنی ہے تو اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز کرنی ہو گی ۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ سیاستدان ہر دور میںبلندبانگ دعوے تو کرتے رہے ‘لیکن یہ سب سہانے خواب تھے‘ جن کی تعبیر پاکستان کے شہریوں کو کبھی نہیں ملی۔پہلی ایجوکیشن کانفرنس کے بعد 1959ء میںشریف کمیشن رپورٹ میں بہت سی اہم تجاویز پیش کی گئیں۔ شریف کمیشن رپورٹ کو تعلیم کے حوالے سے ایک جامع دستاویز تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن بد قسمتی سے اس میں دی گئی تجاویز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایجوکیشن پالیسیوں کا اعلان کیا گیا‘ لیکن ہر پالیسی میں ہدف کا سال آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کس درجے پر مقیم ہے ۔تعلیم میں بنیادی معیار کسی بھی ملک میں شرح تعلیم ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں خواندگی کی شرح 2018ء میں کچھ اس طرح سے تھی بنگلہ دیش(72.8فیصد)‘ انڈیا(71.2فیصد)‘ بھوٹان (64.9فیصد) نیپال(63.9فیصد) ‘پاکستان (57.9فیصد)اور افغانستان (38.2فیصد)۔یہ 2018ء کے اعدادوشمار ہیں جو اس لحاظ سے چشم کُشا ہیں کہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں تقریباً آخر میں ہے اور بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ مالدیپ‘ سری لنکا اور انڈیاہم سے کہیں آگے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہمیں بتا رہے ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے تعلیم پر توجہ نہ دی تو آنے والی صدی‘ جس کا مرکزی بیانیہ نالج اکانومی ہے‘ میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔مگر ایک نظر یہ بھی تو دیکھئے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک تعلیم کے حوالے سے کتنی رقم مختص کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار میں یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہو گی کہ یہ ممالک علم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
یہاں بھی پاکستان کا نمبر بالکل آخر میں آتا ہے۔پچھلے سال تک پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض 2.2فیصدتعلیم پر خرچ کرتا تھا۔ماضی میں سیاستدان اکثر بلند وبانگ دعوے کرتے رہے لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔ سابق وزیراعظم جناب شوکت عزیز نے اعلان کیا تھا کہ تعلیم کے لئے GDP کا 4 فیصد مختص کیا جائے۔اس اعلان کو قریب دو عشرے ہونے کو ہیں ‘لیکن آج بھی تعلیم کے لیے ہمارا فنڈ جی ڈی پی کا مختص 2.2فیصد ہے۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ کہاگیا تھاکہ حکومت2015ء تک جی ڈی پی کا7فیصدتعلیم کے لیے مختص کرے گی اوراس کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔اس دعوے کے مطابق2015ء تک جی ڈی پی کا7فیصدحصہ تعلیم کے لیے مختص ہوناچاہیے تھا‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔2013-14ء میں تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا2.1فیصدتھی۔2014-15ء میں2.2فیصد‘ 2015-16ء میں2.3فیصد‘2017-18ء میں یہ کم ہو کر 2.2فیصد رہ گئی۔پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں توتعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی‘ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے لیے مختص فنڈز ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔قیامِ پاکستان سے اب تک متعدد قومی تعلیمی پالیسیوں کااعلان کیاگیا‘ان پالیسیوں کا نتیجہ کیا نکلا یہ پاکستان کی تعلیمی تاریخ کی دردناک داستان ہے‘ جس کا احوال میں نے اپنی کتاب Education Policies in Pakistan: Politics, Projections, and Practicesمیں تفصیل سے کیاہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2014ء میں شائع کی تھی۔ ان تعلیمی پالیسیوںمیں بہت سے خوش کن اہداف مقرر کئے گئے اور ان کے حصول کے لیے بلند وبانگ دعوے بھی کئے گئے لیکن یہ دعوے کبھی حقیقت کاروپ نہ دھارسکے۔ ہرنئی قومی تعلیمی پالیسی میں اہداف کے حصول کی ایک نئی Deadline دی جاتی ہے ۔ ابھی تک تعلیم کے میدان میں کئے گئے بلند و بانگ دعوئوں کا حشر یہی ہوا ۔ اس کی بڑی وجہ اہداف کا غیر حقیقی ہونا اور ان کے لئے مؤثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ایک اور اہم وجہ ایک مؤثر احتساب کے نظام کی غیر موجودگی ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ 2019ء کے بجٹ میں تعلیم کے حوالے سے کتنی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کی تفصیل اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19ء کے صفحہ32 پر دی گئی ہے۔9 2018-1ء کے بجٹ میں ایجوکیشن افیئرز اور سروسز کے لیے 97420 ملین روپے مختص کئے گئے تھے‘ نظرثانی شدہ بجٹ میں یہ رقم 97155ملین روپے تھی۔ 2019-20ء کے بجٹ میں یہ رقم زیادہ ہونے کی بجائے کم ہو کر 77262 ملین روپے رہ گئی ہے۔
یوں تعلیم کے مد میں مختص کی گئی رقم پچھلے سال کے مقابلے میں 20فیصد کم ہو گئی ہے۔اب آئیے اس کی تفصیل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2018-2019 ء کے مطابق 2018-19ئم یںپری پرائمری اور پرائمری ایجوکیشن افیئرز کی مد میں 10120 ملین روپے مختص کئے گئے تھے‘ نظرثانی میں یہ رقم اتنی ہی رہی۔ 2019ء کے بجٹ میں یہ رقم زیادہ ہونے کے بجائے کم ہو کر صرف 2831 ملین روپے رہ گئی ہے یعنی اس مد میں72فیصد رقم کم کر دی گئی ہے ۔ سکینڈری ایجوکیشن افیئر ز اینڈ سروسز کے لیے2018-2019ء میں12365ملین روپے مختص کئے گئے‘ نظر ثانی شدہ بجٹ میں یہ رقم 12358 ملین تھی۔2019-20ء کے بجٹ میں یہ رقم کم ہو کر 6718 ملین روپے ہو گئی۔ یوں اس مد میں تقریباً نصف رقم کی کٹوتی کی گئی ہے۔ اسی طرح ٹریژی ایجوکیشن افیئرز اینڈ سروسز کے لیے 2018-19ء کے بجٹ میں 71824ملین روپے رکھے گئے تھے‘ نظر ثانی بجٹ میں یہ رقم 71743 ملین روپے تھی۔ 2019-20ء کے بجٹ میں یہ رقم کم ہو کر65233 ملین روپے رکھی گئی ہے‘ یوں اس مد میںبھی کمی ہوئی ہے۔
اکیسویں صدی علمی معیشت کی صدی ہے‘ جہاں وہی ممالک مقابلے کی دوڑ میں آگے ہوں گے جن کے شہری جدید علم و ہنر سے لیس ہوں گے ۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب تعلیم ہماری اولین ترجیح ہو اور ہم اس پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد خرچ کریں۔ ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا خواب اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں تک رسائی دینا ہے۔ دوسرا بڑاخواب امیروں اور غریبوں کے سکولوں میں معیار کے فرق کو کم کرنا ہے ۔ہمارا روشن مستقبل انہی خوابوں کی تعبیر سے منسلک ہے ‘لیکن 2019-20ء کے بجٹ میں تعلیم کی مد میں فنڈز کی کمی ان خوابوں کی تعبیر مشکل بنا سکتی ہے۔