اتوار کی دوپہر پاکستانی نیوز چینلز پر لندن کے ڈیلی میل کی سٹوری سیاسی وصحافتی حلقوں میں سنسنی کا باعث بن گئی۔ ڈیلی میل کی2500الفاظ کی یہ سٹوری ‘ پاکستان میں2005ء کے زلزلہ زدگان کے لیے برطانیہ سے آنے والی امداد میں خورد برد سے متعلق تھی‘ شہبازشریف کی فیملی (مبینہ طور پر)جس کی مرتکب ہوئی تھی۔ وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان اتوار کی چھٹی کے باعث اپنے ہوم ٹائون سیالکوٹ میں تھیں اور وہیں سے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ سٹوری بریک کی تھی۔سٹوری کے ''مصنف ‘‘ڈیوڈ روز کے مطابق اس نے اس سٹوری کے لیے پاکستانی ''تفتیش کاروں‘‘ کے علاوہ‘ شہبازشریف فیملی کے لیے منی لانڈرنگ کرنے والوں سے بھی جیل میں ملاقات کی (جس کے لیے اپنے خصوصی ذرائع استعمال کئے)۔
فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی طرف سے یہ ''خبر ‘‘ بریک ہونے کے ساتھ ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہنگامے کی سی کیفیت برپا ہوگئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنی حکومت (اور پارٹی) کے ترجمانوں کی میٹنگ میں اپوزیشن کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی تلقین کی تھی (وہ اس سے پہلے بھی اپوزیشن کے خلاف جارحانہ رویے اختیار کرنے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ہدایت کرچکے تھے) انہیں ایک بار پھر اس حوالے سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل گیا تھا تو وہ اسے ضائع کیوں کرتے؟ شفقت محمود کا شمار پارٹی کے دانشوررہنمائوں میں ہوتا ہے اور وہ عموماً اس طرح کی مناظرہ بازی سے گریز کرتے ہیں (ٹاک شو ز میں بھی وہ مراد سعید اور فیاض الحسن چوہان وغیرہ سے مختلف نظر آتے اوریوں اپنی دانشوری کا بھرم رکھتے ہیں) لیکن ڈیلی میل کی اس سٹوری کے تنازعے میں انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
یہ سٹوری ڈیلی میل میں شائع ہوئی اور لندن میں مقیم ہمارے بعض دوستوں کے مطابق ‘لندن کے سنجیدہ حلقے بھی ڈیلی میل کوسنجیدگی سے نہیں لیتے۔ خود ہماری بھی کبھی کبھار اس پر نظر پڑی تو یہ اپنے ہاں کے ''شام کے اخبارات‘‘ کی طرح لگا(لاہور میں تو شام کے اخبارات رواج نہ پاسکے البتہ کراچی میں برسوں ان کی مارکیٹ رہی۔ نیوز چینلز آنے کے بعد وہاں بھی یہ رفتہ رفتہ اپنی مقبولیت کھونے لگے کہ نیوز چینلز پر کوئی عام سی خبر بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے)
مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال بھی ‘ ہمارے لندن والے دوستوں کی تائید کرتے ہیں‘ ان کے بقول وکی پیڈیا بھی ڈیلی میل کو ''ٹیبلائڈز‘‘ میں شمار کرتا ہے اور اس کی خبروں کو ریفرنس نہیں بناتا۔
مریم اورنگ زیب ‘ ڈیلی میل کی اس سٹوری کو ''پلانٹڈ‘‘ اور''فیبری کیٹڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان اور شہزاد اکبر (اثاثہ جات کی ریکوری کے لیے وزیراعظم کے مشیر )پر عائد کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں بنی گالہ میں وزیر اعظم کے ساتھ ڈیوڈ روز کی ملاقات کی تصویر بھی دکھائی( لیکن ڈیوڈ روز اسے عمران خان صاحب کے ساتھ اپنے ایک گزشتہ انٹرویو کی تصویر قرار دیتے ہیں)مریم اورنگ زیب کا کہناتھا کہ مسلم لیگ (ن) ڈیلی میل (اور ڈیوڈروز)کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان اور شہزاد اکبر کے خلاف بھی عدالتی چارہ جوئی کرے گی۔ مریم اورنگ زیب یہاں ایک اوردلیل بھی لائیں۔ان کا کہناتھا کہ یہ زلزلہ(جس کے متاثرین کے لیے برطانوی ادارےDFID کی طرف سے 50ملین پونڈ کی امداد آئی)2005ء میں آیا تھا۔ تب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف (اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی ) کی حکومت تھی جبکہ شہباز شریف تو باقی شریف فیملی کے ساتھ جلا وطن تھے۔ مزید یہ کہ اس زلزلے میں زیادہ ترمتاثرہ علاقے خیبر پختوانخوا اور آزاد کشمیر کے تھے ۔شہباز شریف نومبر 2007ء میں جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے اور 2008ء سے 2013ء تک (دس سال )وزیر اعلیٰ رہے۔ شہباز شریف کی صفائی میں مریم اورنگ زیب یہ دلیل بھی لائیں کہ زلزلہ زدگان کے لیے بیرونی امداد''ایرا‘‘ کے ذریعے خرچ ہوئی جو وفاقی حکومت کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں تھا ‘ اور 2008ء سے 2013ء تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بھی ڈیلی میل(اور ڈیوڈروز) کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان اور شہزاد اکبر کے خلاف بھی عدالتی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔ یہاں انہوں نے یہ یاد دہانی بھی ضروری سمجھی کہ جناب وزیر اعظم کو ان کی جانب سے دائر کئے گئے ہتکِ عزت کے گزشتہ تین دعوؤں کا جواب بھی دینا ہے۔ (ان میں ایک دعویٰ خان صاحب کے اس الزام پر تھا کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران شہباز شریف نے انہیں (کسی مشترکہ دوست کے ذریعے) 10ارب روپے کی پیشکش کی تھی)
ڈیلی میل کی اس سٹوری کے جواب میں سب سے اہم چیز خود برطانوی ادارے DFIDکی تردید ہے۔DFIDکے ترجمان کے مطابق‘ ''ایرا‘‘ کو ادائیگی کام کی تکمیل‘ اس کے آڈٹ اور تصدیق کے بعد کی جاتی تھی اور DFIDمطمئن ہے کہ برطانوی ٹیکس دہندگان کا ایک ایک پیسہ درست جگہ پر استعمال ہوا اور اس میں کہیں فراڈ نہیں ہوا۔شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ ان کے حق میں گواہی خود اس ادارے کی طرف سے آجاتی ہے‘ جس کی رقم میں خورد برد کا اِ ن پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اِن پر ملتان میٹرو میں اربوں کی کرپشن کاالزام آیا ‘ تو خود متعلقہ چینی فرم نے اس کی تردید کر دی۔
ڈیلی میل کی اس سٹوری میں شہباز شریف صاحب کے دامادعلی عمران اور صاحبزادے سلمان شہباز کا نام بھی آتا ہے (جنہیں شہزاد اکبر ''مفرور‘‘ قرار دیتے ہیں) اور دلچسپ بات یہ کہ وہ کئی مہینوں سے لندن میں موجود ہیں۔نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ویڈیو سکینڈل کے بعد‘ ڈیلی میل کی اس سٹوری نے پاکستانی سیاست اور صحافت ہی کو نہیں‘ گلی محلے کی ''تھڑا پالٹکس‘‘ کو بھی بحث مباحثے کا نیا موضوع دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن ) کی قیادت نے اس پر عدالتی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔ انگلستان میں ہتکِ عزت کے قوانین بہت سخت ہیں اورپاکستان کے بر عکس وہاں یہ مقدمات برسوں زیر التوا بھی نہیں رہتے۔ اپنے ہاں کی ایک مثال تو شہباز شریف نے عمران خان صاحب کے خلاف اپنے تین دعوؤں کے حوالے سے دی ہے‘ جن میں ''مدعا علیہ‘‘ کا وکیل بھی عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے۔ 35پنکچرز کے حوالے سے ایک مقدمہ نجم سیٹھی نے بھی جناب عمران خان کے خلاف کیا تھا اور ایک دعویٰ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے بھی تھا اور شاید یہ مقدمات بھی زیر التوا ہیں۔ لندن کے حوالے سے ہمیں چودھری ظہور الٰہی (مرحوم) کا ہتک عزت کا ایک مقدمہ یاد آتا ہے جو چودھری صاحب نے جیت لیا تھا اور برطانوی پونڈز میں خاصی بھاری رقم وصول کی تھی۔
ایک دنیا کی نظریں اس ہفتے کی ہڑتال پر لگی ہوئی تھیں۔دل کے بہلانے کو اسے ''جزوی‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ بھر پور ہڑتال تھی۔ اپوزیشن کی ہمدردیاں فطری طور پر ہڑتال والوں کے ساتھ تھیں لیکن عملاََ اس میںاپوزیشن کا کوئی کردا ر نہیں تھا۔ یہ خالصتاََ کاروباری لوگوں کی ہڑتال تھی جس میں بڑے بڑے پلازوں سے لے کر گلی محلے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی شامل تھیں۔ ایک خبر کے مطابق جناب وزیر اعظم کے گھر کے پہلو میں ‘ بنی گالہ میں بھی ہڑتال تھی۔ پی این اے کی 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے بعد یہ بے نظیر صاحبہ کا دوسرا دور تھا جب قائد حزب اختلاف میاں محمد نوا ز شریف جب چاہتے ہڑتال کی کال دے دیتے اور ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہو جاتا۔ ایک بار تو ان کی اپیل پر پہیہ جام بھی ہو گیا تھا۔ ہڑتال کو ناکام بنانے (اور کامیاب ہڑتال کو ناکام ثابت کرنے )کے لیے حکومت کو کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟ اُن دنوں صرف پی ٹی وی ہوتا تھا۔ میاں صاحب نے منگل کے لیے ہڑتال کی کال دی تھی‘ اسے ناکام ثابت کرنے کے لیے پی ٹی وی نے ایک دن قبل کھلی دکانوں کی فلم بنا لی اور منگل کی شام خبر نامہ میں نشر کر دی۔ لطیفہ یہ ہوا کہ فلم میں گوشت کی دکانیں بھی کھلی ہوئی تھیں؛ حالانکہ منگل کو گوشت کا ہفتہ وار ناغہ تھا۔