تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-07-2019

کلبھوشن کا فیصلہ

17 جولائی کو عالمی عدالتِ انصاف پاکستان میں'' راء ‘‘کے زیر انتظام دہشت گردی کا نیٹ ورک آپریٹ کرنے والے انڈین نیوی کمانڈر کلبھوشن یا دیو کے کیس کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے ۔ کلبھوشن یادیو کو بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں‘ پاکستان کی قومی ا ور فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے‘ کراچی میں نسلی اور مذہبی فسادات کی آگ لگانے اور پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے دہشت گردی کی کارروائیوں کی نگرانی کرنے جیسے جرائم کا سامنا ہے‘ جن کا وہ عدالت کے سامنے اعتراف بھی کر چکا ہے اور اس کے اعتراف پر مبنی ثبوتوں اور دوسرے کئی شواہد کی روشنی میں فوجی عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم سنارکھا ہے ‘ جس کے خلاف گزشتہ حکومت کی ملی بھگت سے بھارت عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے اس کی سزا پر عمل در آمد نہ کرنے کا حکم امتناعی حاصل کر چکا ہے۔ بھارت جو کل تک کلبھوشن کو اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کر تا تھا‘ بالآخر اس نے نہ اسے صرف اپنا شہری تسلیم کیا ‘بلکہ فوجی تنظیم کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اس کو دی جانے والی سزا کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں اپیل کر دی‘ جس نے کلبھوشن یادیو کے مقدمے کے فیصلے تک پاکستان کو اس کے خلاف سنائی گئی سزا پر عمل در آمد کے لیے عارضی حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کلبھوشن کی سزا کے خلاف یہ اپیل میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران سجن جندال کی مداخلت سے کی گئی۔
عالمی عدالت انصاف یا بھارت سے پوچھ لیا جاتا تو بہتر ہوتا کہ پاکستان میں اس وقت تک بھارت کے18 سے زائد ایسے سویلین اور فوجی جاسوسی اور دہشت گردی میں گرفتار کئے جا چکے ہیں جنہیں سول اور فوجی عدالتوں سے موت کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں‘ کیا کسی ایک بھی سزا کے خلاف بھارت نے اب تک عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے؟ جواب نفی میں ہو گا۔ہمارے وکلا کی ٹیم کو بھی چاہئے تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے یہ نکتہ رکھتی کہ بھارت جب اس سے پہلے اپنے جاسوسوں اور بھیجے گئے دہشت گردوں کو ان کی دہشت گردی پر ملنے والی سزائوں کو چیلنج نہیں کر سکا تو اب کلبھوشن کی شکل میں ایسا کیوں کیا گیا؟ کہیںاس کی وجہ یہ تو نہیں کہ کلبھوشن یادیو چونکہ بھارتی نیوی کا کمانڈر(کرنل) ہے جبکہ اس سے قبل سزائیں پانے والے نچلے رینک کے لوگ تھے‘ کسی کا عہدہ حوالدار تو کوئی سپاہی تھا جبکہ سربجیت سنگھ کے متعلق پتہ چلا کہ وہ اے ایس آئی تھا ۔کہاں سپاہی حوالدار اور کہاں کمانڈر کرنل؟
اس وقت کلبھوشن پر عالمی سٹے بازی عروج پر ہے‘ لندن اور پیرس جیسے شہروں سے خبریں آ رہی ہیں کہ بھارت کا اثر و رسوخ اور سرمایہ کام کر رہا ہے‘ جس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی کورٹ بڑے ٹیکنیکل طریقوں سے اس کی حمایت کرے گی ۔اس سلسلے میں تین قیا س آرائیاں زوروں پر ہیں۔یہ کہا جا رہا ہے کہ عدالت حکم سنا سکتی ہے کہ کلبھوشن کو Consular Accessدی جائے ‘ لیکن یہاں پر پوچھا جا سکتا ہے کہ کلبھوشن کوئی سمگلر یا معمولی جاسوس نہیں تھا‘ بلکہ وہ ایک بڑا دہشت گرد اور دہشت گردی کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا ماسٹر مائنڈ ہے ‘جو اب تک تین سو سے بھی زائد انسانی جانوں کو کھا چکا ہے ‘ کلبھوشن ایک ایسا دہشت گرد ہے جس کی ہدایات پر مفاد عامہ کے استعمال میں آنے والے متعدد منصوبوں مثلاً پائپ لائنوں‘ بجلی کے پولز اور پاور ہائوسز تباہ کئے گئے۔جس نے پاکستان کے فوجی قافلوں اور ان کی تنصیبات پر حملے کرائے ۔دنیا میں کسی بھی ایسے شخص کوجو دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہو قونصلر رسائی کیسے دی جا سکتی ہے؟کیا امریکیوں نے اب تک گوانتانا موبے میں کسی ایک دہشت گرد کو یہ رسائی دی ہے؟اس سلسلے میں عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے والے وکلا نے بڑی تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں دنیا میںکوئی بھی مثال نہیں کہ سینکڑوں لوگوں کو دہشت گردی کے ذریعے اور بم دھماکوں کے ذریعے قتل کرنے والے سے عام جاسوس یا معمولی تخریب کار سمجھتے ہوئے سلوک کیا گیا ہو۔
ویانا کنونشن کی منظور کردہ قرار دادیں سر آنکھوں پر‘ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ عالمی عدالتِ انصاف کی تشکیل سے اب تک60 برسوں میں بھارت نے پہلی مرتبہ ویانا کنونشن کا سہارا لیتے ہوئے کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ کی مدد کے لیے عالمی عدالت کا سہارا لیا ہو؟ایک لمحے کے لیے فرض کر لیجئے کہ پاکستان کسی وجہ سے عالمی عدالت انصاف کے دیئے گئے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کی اجازت دے بھی دیتا ہے کہ ویانا کنونشن کے مطا بق یہ رسائی دی جا سکتی ہے‘ تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہ ہو گا کہ پاکستان پر کسی قسم کی پابندی یا شرط لاگوہو گئی ہے کہ کلبھوشن کو دی جانے والی سزا ختم کی جائے اور اسے رہا کر دیا جائے۔ ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ایسا کسی صورت نہ ہو سکے گا۔یہ قیاس آرائی بھی موجود ہے کہ عالمی عدالت انصاف پر چونکہ بھارت اثر انداز ہو چکا ہے‘ اس لئے یہ فیصلہ اس کے حق میں آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں کہ بھارت کی جانب سے یہ شرط عائد کرا دی جائے گی کہ جب تک کلبھوشن کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا اس کو دی گئی سزائے موت پر عمل در آمد بھی روک دیا جائے اور یہ اس وقت تک ہو جب تک کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہیں مل جاتی۔
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ بھارت نے تو کلبھوشن یادیو کو اپنا شہری مانا ہی نہیں تھا اور اسے اپنا شہری 2017ء میں جا کر کہیں تسلیم کیا تھا۔ اگر کلبھوشن کے لیے بھارت عالمی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے بھی لیتا ہے تو پاکستان کو چاہئے کہ اس وقت تک اسے قونصلر رسائی دینے سے اجتناب کرے‘ جب تک کہ بھارت اس کے بھارتی شہری ہونے کے مکمل ثبوت فراہم نہیں کر دیتا اور پاکستان یہ ثبوت لیتے وقت اس کی گرفتاری سے پیدائش تک کے تمام ثبوت حاصل کرے تاکہ پتا چل سکے کہ کلبھوشن کہاں کہاں رہا اور وہ کہاں کام کرتا رہا؟ ابھی تک تو اس کی شخصیت سے بھارت نے وہ پردہ ہی نہیں اٹھایا جس سے معلوم ہو سکے کہ وہ بقول بھارت حسین مبارک پٹیل ہے یا کلبھوشن یادیو؟تیسری قیاس آرائی جو سامنے آرہی ہے اس کے مطا بق بھارت عالمی عدالت انصاف سے بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کی طرح اس قسم کا فیصلہ بھی کرا سکتا ہے کہ کلبھوشن کا مقدمہ ملٹری کورٹ کی بجائے پاکستان کی سول کورٹ میں چلایا جائے۔بھارت لاکھ چھپائے‘ لیکن پاکستان کے پاس کلبھوشن یادیو کے متعلق مکمل ثبوت موجود ہیں‘ اس کی فوجی ٹریننگ مختلف فوجی دفاتر میں کام کرتے ہوئے تصویریں ‘اس کی پریڈ اور اس کے متعلق کچھ ایسے ثبوت جنہیں منظر عام پر لانا فی الحال منا سب نہیں سمجھاجاتا۔ اس لئے ایک پکے فوجی کا مقدمہ سول عدالت میں بھیجا ہی نہیں جا سکتا ‘جس نے دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہو۔ جس نے324 سے زائد سول ‘ پولیس‘ ایف سی اور فوجی افسروں اور جوانوں کو شہید کیا ہو۔ جس نے کوئٹہ اور کراچی میں وکلاء‘ علماء کرام اور ڈاکٹروں کو ہلاک کروایا ہو۔ 
اگر کلبھوشن کے لیے بھارت عالمی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے بھی لیتا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ اس وقت تک اسے قونصلر رسائی دینے سے اجتناب کرے‘ جب تک کہ بھارت اس کے بھارتی شہری ہونے کے مکمل ثبوت فراہم نہیں کر دیتا اور پاکستان یہ ثبوت لیتے وقت اس کی گرفتاری سے پیدائش تک کے تمام ثبوت حاصل کرلے۔
تاکہ پتہ چل سکے کہ کلبھوشن کہاں کہاں رہا اور وہ کہاں کام کرتا رہا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved