ایسے ایک دو یا چند نہیں ‘بلکہ بہت سے پہلو ہیں ‘جن میں سے ہر ایک کے اعتبار سے زندگی کو پرکھا اور اپنایا جاسکتا ہے۔ ہم زندگی بھر مختلف حوالوں سے اپنے آپ کو پرکھتے رہتے ہیں‘ اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہماری زندگی میں رونما ہوتا رہتا ہے‘ وہ ہمیں جائزے کے ساتھ ساتھ تجزیے کی بھی دعوت دیتا ہے۔ جب بھی کوئی الجھن نمودار ہوتی ہے تب لازم ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے وجود اور حالات کا جائزہ لیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں معاملات کو سلجھانے کی راہ ملتی ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے ‘وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگ آس کے سہارے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ آس اُن کی سانس کی ڈوری سے بندھی رہتی ہے کہ کبھی اچھا زمانہ بھی آئے گا۔ اور کبھی کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے‘ مگر بیشتر معاملات میں تو اچھا زمانہ محض خواب ہی رہتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ محض آس لگانے سے بھی کبھی زندگی سنورتی ہے؟ اگر‘ ایسا ہوا کرتا تو دنیا میں کوئی بھی دُکھی نہ ہوتا‘ پریشانی کے عالم میں زندگی بسر نہ کر رہا ہوتا۔
کچھ لوگوں کے نزدیک زندگی منصوبہ سازی کا نام ہے ‘یعنی ہر معاملے میں معقول سطح تک منصوبہ سازی کیے بغیر بات بنتی نہیں۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے ایک خاص سوچ چاہتا ہے۔ جب تک ہم وہ سوچ نہیں اپناتے‘ خرابیاں ہمارے تعاقب میں رہتی ہیں‘ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی محض منصوبہ سازی کے بل پر نہیں گزاری جاسکتی۔ منصوبے کے نام پر جو کچھ سوچا جائے ‘اُسے عملی شکل دینے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
ہم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا کہ زندگی متوازن‘ مستحکم اور خوش حال ہو؟ ہم زندگی بھر خوش حالی اور توازن ہی کے لیے تو کوشاں رہتے ہیں؟ اس پر بھی ہمیں مطلوبہ معیار کی کامیابی نہیں ملتی۔ کیوں؟ کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ جب کسی حوالے سے کمی رہ جائے‘ تو کبھی کبھی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔
ویسے تو ہم اور بھی بہت کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں ‘مگر ایک تلاش ایسی ہے‘ جو زندگی پر محیط ہے۔ یہ ہے اچھے دنوں کی تلاش۔ ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ زندگی میں اچھے دن آئیں اور ہم بھرپور مسرّت کے ساتھ زندگی بسر کریں؟ اچھے دنوں کی تلاش زندگی بھر جاری رہتی ہے۔ اب ‘سوال یہ ہے کہ اچھے دنوں کی تلاش معقول طرزِ فکر و عمل ہے یا نہیں۔ عام آدمی سے پوچھئے تو وہ یہی کہے گا کہ انسان کو اچھے دنوں کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ یہ جواب قرینِ عقل دکھائی دیتا ہے ‘مگر یہ قرینِ عقل ہے نہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ اچھے دن کہیں رکھے ہوئے نہیں ہوتے کہ ہم تلاش کریں اور وہ مل جائیں۔ یہ معاملہ دریافت سے کہیں بڑھ کر ایجاد کا ہے۔ اچھے دن دریافت کرنے کی نہیں‘ ایجاد کرنے کی چیز ہیں۔ ہم سب زندگی بھر اپنی اور اپنے تمام متعلقین کی خوشیوں کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ جب خوشیوں کا اہتمام ہوتا دکھائی دے تب ہم سمجھتے ہیں کہ اچھے دن آگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھے دن ہم تک کبھی نہیں پہنچتے۔ ہم اچھے دنوں تک پہنچتے ہیں۔ جو کچھ ہم سوچتے اور کرتے ہیں ‘ اُسی کی بنیاد پر ہماری زندگی کا کوئی رخ متعین ہوتا ہے‘ ہمیں کوئی راہ ملتی ہے۔ اور اِس راہ پر گامزن رہنے سے ہم کہیں پہنچ پاتے ہیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہم اچھے دنوں کو دریافت نہیں کرتے ‘بلکہ اچھے دن ایجاد کرنا پڑتے ہیں۔ ہم کبھی اچھے دنوں تک نہیں پہنچتے ‘بلکہ اُنہیں عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔
ہردور کا انسان زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی تگ و دَو ہی طے کرتی ہے کہ ہمیں کیا مل سکے گا۔ کوئی محض خواہش کرنے سے کچھ نہیں پاتا۔ اور‘ محض آس لگائے رہنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی حالات ہمیں کچھ دے جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حالات کے رحم و کرم پر بیٹھے رہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُسے کچھ دینے والے حالات کب پیدا ہوں گے۔ ہاں‘ منصوبہ سازی‘ حکمتِ عملی اور بھرپور محنت کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنے لیے اچھے دنوں کو یقینی بنانے میں معقول حد تک ضرور کامیاب ہوسکتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشرے اِس امر کی زندہ مثال ہیں کہ زندگی میں اچھے معاملات واقع نہیں ہوتے ‘بلکہ اُنہیں یقینی بنانے کے لیے تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ بہت کچھ سیکھنے کے بعد جب کچھ کیا جاتا ہے‘ تب مطلوب نتائج یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرے کی یہی کہانی ہے۔ ایسے معاشروں میں کوئی بھی اچھے دنوں کا منتظر نہیں رہتا اور نہ اُنہیں تلاش کرتا ہے ‘بلکہ پوری ذہن سازی کے اچھے دنوں کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرتاہے اور ثمر پاتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے ‘جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر آگے بڑھنے کی ذہنیت ترک نہ کی گئی تو ہم کوئی غلط راہ بھی منتخب کرسکتے ہیں۔ اکیسویں کا دوسرا عشرہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ وقت بہت کچھ بتا رہا ہے‘ سکھا رہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمیں منصوبہ سازی اور حکمتِ عملی کے نام پر کرنا ہے۔ اچھے دنوں کی تلاش میں رہنا وہ رجحان ہے ‘جو فی زمانہ کسی کام کا نہیں رہا۔ اب تو آگے بڑھ کر اچھے دنوں کو عدم سے وجود میں لانا ہے‘ یقینی بنانا ہے۔ اِس کے لیے مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ جب تک سوچ کا سانچہ تبدیل نہیں ہوگا ‘تب تک ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کی سوچ کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زمانہ تو ہر آن تبدیل ہو رہا ہے اور بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ بدلنے کی صورت ہی میں ہم اچھے دنوں کو یقینی بناسکیں گے۔
یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اگر‘ ہمیں اقوام کی برادری میں اپنے کے لیے کوئی مقام متعین کرنا ہے تو اُس کے لیے ذہن سازی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد بھرپور محنت بھی کرنا پڑے گی۔ معاملات کو درست کرنے کا بہترین راستہ سعیٔ مسلسل کے سوا کچھ نہیں۔ اس دنیا میں وہی اقوام اور معاشرے کامیاب رہے ہیں‘ جنہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچا ہے اور سوچے ہوئے پر عمل بھی کیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اچھے دنوں کو یقینی بنانے کے حوالے سے فکری ساخت تبدیل کریں‘ نئے انداز سے سوچنا سیکھیں اور وہ کریں جو کرنا ہے۔ اپنی خواہشات کے دائرے میں گھومتے ہوئے رسمی نوعیت کے فکر و عمل سے کوئی بھی مطلوب یا مثبت نتیجہ یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ دنیا کے بازار میں جو سکہ رائج ہو‘ وہی ہمیں بھی چلانا پڑتا ہے۔ ہم زندگی کا کوئی بھی سَودا اپنی مرضی کے سِکّوں میں نہیں کرسکتے۔ جو کچھ ناگزیر ہو وہی ہمیں بھی اپنانا ہی پڑے گا۔ اچھے دنوں کو یقینی بنانے کا بہترین طریق یہی ہے کہ دنیا کے بازار میں کامیاب لین دین کے لیے جو کچھ ضروری ہو ‘وہی کیا جائے۔ اسی صورت اچھے دن یقینی بنائے جاسکتے ہیں۔