تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-07-2019

ذلت ہی ذلت

انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے ۔ اگر‘ یہ شکل خوبصورت ہے تو لوگ آپ کی تعریف کریں گے ‘ آپ کے قریب آنا چاہیں گے ۔ اسی طرح انسان کے دماغ کی اور اس کے علم کی بھی ایک شکل و صورت ہوتی ہے ۔ہمیں بظاہر تو دوسرے کی یہ علمی شکل نظرنہیں آتی ‘لیکن لا شعوری طور پر ہمارا دماغ ہر ملنے والے کی علمی /عقلی شکل و صورت کااندازہ لگاتا ہے ۔ انسان جتنی زیادہ عقلمندی کی بات کرتاہے ‘ اتنا ہی لوگ اس کی بات کو اہمیت دیں گے ۔ اگر‘ آپ کو اس بات پریقین نہیں تو آپ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کی شکلیں دیکھ لیں اورانہیں ملنے والی پذیرائی دیکھ لیں ۔ جہاں سب نظامِ انہضام کے مریض بیٹھے ہوں اور ان کے درمیان سے ایک Gastroenterologist( ماہر نظامِ انہضام ) گزرے تو عقیدت کی جس نظر سے یہ سب لوگ ڈاکٹر کی طرف دیکھیں گے‘ وہ قابلِ دید ہوتی ہے ‘ خواہ ڈاکٹر دیکھنے میں بدصورت ہو۔ اس عقیدت و احترام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سامنے موجود شخص مجھ سے بہت زیادہ جانتا ہے ۔ اس کے پاس بہت سی ایسی چیزوں کا علم ہے ‘ جو مجھے نہیں ۔جب ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میرا مخاطب مجھ سے بہت زیادہ جانتا ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ اس کا احترام کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح عقل اور علم کی غیر موجودگی بعض لوگوں کی بے انتہا ظاہری خوبصورتی کو بھی بے کار کر ڈالتی ہے‘ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘ جن کے بے انتہا حسین ہونے کے باوجود لوگ ان کے خاموش رہنے کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔دماغ کو خدا نے ایسے بنایا ہے کہ جیسے ہی وہ کوئی بے عقلی کی بات سنتا ہے‘ تو اسے غصہ آجاتا ہے ۔ 
یہی علم تھا‘ جس کے مقابلے میں شکست کے بعد خدا نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کریں ۔ اس علم کے علاوہ انسان کی باقی عادات زمین پر پائے جانے والے دوسرے جانورو ںجیسی ہی تھیں ۔ وہ دوسرے جانوروں کوذبح کر کے ان کا گوشت کھاتا تھا۔ اس کے جسم کے نظام بشمول دل ‘جگراور جلد وغیرہ سب انہی اصولوں پر کام کرتے ہیں ‘ جن پر دوسرے جانوروں کے ۔ بالکل جانوروں ہی کی طرح وہ افزائشِ نسل کرتا ہے ۔انسان کہتاہے کہ میں ایک بہت مہذب مخلوق ہوں ۔آپ اس سے پوچھیں کہ جب تم رفع ِ حاجت کر رہے ہوتے ہو ‘اور جب افزائشِ نسل کی کوشش کر رہے ہوتے ہو تو تم میں اور ایک جانور میں کیا فرق دیکھنے والے کو نظر آئے گا۔ سوائے اس علم کے جوخدا نے انسان کو دیا‘ ہماری جانوروں پر کوئی بھی برتری نہیں ہے ۔ علم کی وجہ سے انسان کو یہ مرتبہ ملا‘لیکن اسی کی وجہ سے انسان پر شریعت بھی اتری ۔ اسے بہت سی چیزوں سے روک دیا گیا ۔ اسے لباس پہننے کا حکم ملا‘ جو اس کے علاوہ اور کسی کو نہیں ملا۔ یہ اور بات کہ انسان کے دماغ کے اندر موجود خواہشات کا مجموعہ جسے نفس کہاجاتا ہے ‘ وہ اپنا اور دوسروں کا لباس اتار پھینکنا چاہتا ہے ۔وہ اس شریعت کا اتنا شدید دشمن ہے ‘ جتنا کہ ساری زندگی ایک جنگل میں زندگی گزارنے والے گھوڑا ‘خود پر کاٹھی ڈالنے والے سے ۔ 
خیر بات ہو رہی تھی علم کی۔ آدم علیہ السلام میں خدا نے ایک صلاحیت رکھی تھی ۔ یہ صلاحیت تھی ‘ ہر چیز کا جائزہ لے کر اس کی مثبت او رمنفی خصوصیات دیکھنے کے بعد اسے ایک نام دینا ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ساری اشیا کے نام یاد کر لیے تھے ۔ آج تک دنیا میں انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے ‘ وہ سب کی سب آدمؑ کی اسی صلاحیت کی مرہونِ منت ہے ۔ آدمی میں ایک اور بنیادی رجحان یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی چیز میں کوئی فائدہ یا نقصان دیکھتا ہے ‘ یا کوئی عجیب چیز تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے قبیلے والوں کو اس سے آگاہ کرے ۔ یہی وجہ اور یہی رجحان ہے ‘ جس کی وجہ سے لوگ کتابیں لکھتے ہیں ۔ ان کتابوں میں وہ انکشافات ہوتے ہیں ‘ جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتے ۔اسی وجہ سے خفیہ ویڈیوز بنتی ہیں ۔ پرنٹنگ پریس سے لے کر انٹرنیٹ تک کی ایجادات دوسروں کو بتانے کی اسی خواہش کا نتیجہ ہیں ۔یہ خواہش اتنی زیادہ ہے کہ آج آپ ہر بندے کو فیس بک اور واٹس ایپ پر روزانہ کی بنیاد پر پوسٹیںشیئر کرتے دیکھ سکتے ہیں ۔ 
دوسری طرف دنیا کے مختلف حصوں میں ‘ مختلف صلاحیتوں اور رجحانات کے لوگ پیدا ہورہے تھے۔ کوئی ساری زندگی مٹی پر تحقیق کرتا مر گیا تو کوئی اپنی ٹوٹی پھوٹی دوربین لے کر ساری زندگی ستاروں کو دیکھتا رہا ۔ کسی کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ سمندر سے زیادہ سے زیادہ مچھلیاںکس طرح پکڑی جا سکتی ہیں ۔ کوئی اس بات پہ حیران تھا کہ مٹی کے نیچے دبا بیج پھٹ کر کیسے برگ و بار لے آتا ہے ۔انسان جس طرح دنیا میں موجود چیزوں کو سمجھتا چلا گیا ‘ اسی طرح وہ ترقی یافتہ ہوتا چلا گیا۔ اس نے لہرو ں کی صورت میں آواز‘ تصویر اوردوسرے ڈیٹا کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کیا۔ جو بیجوں کا علم حاصل کرتا رہا‘ اس نے زیادہ اچھی فصلیں اگانا شروع کر دیں ۔ اسی طرح سے مکینیکل انجینئرز تھے‘ انہوں نے توانائی کو ایک سے دوسری شکل میں منتقل کرنا سیکھا ۔ اسی طرح ارتھ سائنسز والے زمین کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں ‘ وہ دوسرے نہیں جانتے ۔ نیوروفزیشن اور نیورو سرجن جو کچھ دماغ کے بارے میں جانتے ہیں ‘ وہ دوسرے نہیں جانتے ۔ اسی طرح ارتقا کے ماہرین ہیں ۔ فاسلز کو سمجھنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں ۔ جسم کے اندر کی سائنسز‘ اناٹومی کے ماہرین ۔ زندگی کے ماہر‘ ماہرینِ حیاتیات ۔ ان سب علوم کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کی وجہ سے مغرب آج ہم سے بہت آگے ہے ‘ لیکن ایک وقت تھا‘ جب مغرب جہالت میں ڈوبا ہوا تھا اور مسلمان ان سے کہیں بہتر تھے۔ فرق شاید یہ ہے کہ ان میں شاید مایوسی پھیلانے والے کم اور جدوجہد کا عزم کرنے والے زیادہ تھے ۔ 
خیر یہ مختلف علوم ہیں ‘ جنہیں سمجھ کر دنیا کو سمجھا جا سکتاہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک علم کا ماہر دوسرے علوم کو نہیںسمجھتا۔ اناٹومی کے ماہر کو ورکشاپ کا ایک لڑکا جتنا چاہے بے وقوف بنا سکتاہے ۔ کاسمالوجسٹ اور طبیعات دان کوجانور بیچنے والا آسانی سے بے وقوف بنا سکتاہے ۔جیسے ہی دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر اپنے شعبے سے پائوں باہر نکال کر کسی اور شعبے میں پہلا قدم رکھتاہے تو وہ دوسرے علم کے ماہر کے سامنے ایک دودھ پیتے بچّے کی طرح ہوتا ہے ۔ 
آپ اس کا مطلب سمجھ رہے ہیں ؟ اس بات کا مطلب بہت خوفناک ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی پوری تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ۔ پزل کا ایک ایک ٹکڑا سب کے پاس موجود ہے اور ہر کوئی اس ٹکڑے پر خوش ہے ‘ جو اس کے ہاتھ میں ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ حضرت علی ہجویریؒ نے ہی ارشادفرمایا تھا کہ ''ہر علم میں سے اتنا تو حاصل کرو‘ جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے‘‘ ۔
ان علوم کو سمجھے بغیر خدا کی شناخت ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے ۔ ہم پر فرض ہے کہ جس طرح ہم اپنی ظاہری شکل و صورت کو روزانہ سنوارتے ہیں ‘ اسی طرح کچھ وقت اپنی علمی شکل و صورت کو بھی سنوارنے کی کوشش کریں ‘ ورنہ خدا ہمیں ملے گا اور نہ ہی دنیا ہاتھ آئے گی‘ دونوں طرف سے فقط ذلت ہی ذلت ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved