تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-07-2019

سرخیاں‘متن اور شہزادؔ عادل کا مجموعہ ’’زندگی ‘زندگی‘‘

پاکستان کو ترقی ‘ عوام کو آسان ہو‘ یہی میری دعا ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو ترقی ملے‘ عوام کی زندگی آسان ہو‘ یہی میری دعا ہے‘‘ جہاں تک ترقی کا سوال ہے تو میں نے اس کی ترقی اس حد تک کر دی تھی کہ اس کا اندازہ اس کام سے ہی لگایا جا سکتا ہے‘ جس کے بارے میں‘ میں نے کہا تھا کہ اس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی اور اب ترقی کا وہ عمل اس لیے رک گیا ہے کہ اب اس کے ساتھ ساتھ وہ کام نہیں ہو رہا‘ جو اس کے لیے بیحد ضروری ہے‘ اور جہاں تک عوام کی زندگی آسان ہونے کا تعلق ہے تو میں نے اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے کہ زن‘ زر اور زمین فساد کی جڑ ہوتے ہیں‘ میں نے فساد کی ایک جڑ‘ یعنی زر کو بیرون ملک رفع دفع کر دیا تھا‘ تا کہ عوام امن و امان سے زندگی بسر کر سکیں اور ان کی زندگی آسان ہو جائے اور اب تو میں اس کی دعا ہی کر سکتا ہوں۔ ہیں جی؟ آپ اگلے روز ملتان سکھر موٹر ویز کی تکمیل پر قوم کو مبارکباد دے رہے تھے۔
سمجھ میں نہیں آتا شہباز کے پاس بیرونی امداد کیسے آ گئی: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''سمجھ میں نہیں آتا شہباز شریف کے پاس بیرونی امداد کیسے آ گئی‘‘ کیونکہ بیرونی امداد تو سٹیٹ بینک کے ذریعے ہی آتی ہے اور میں ان کے فن کا معترف ہو گیا ہوں کہ یہ سٹیٹ بینک کو بھی جُل دے گئے اور ادھر ہم ہیں کہ جعلی اکائونٹس کے گھسے پٹے طریقے پر ہی گزر اوقات کرنے پر مجبور ہیں؛ چنانچہ ہم نے سٹیٹ بینک والا مشکل راستہ استعمال نہیں کیا ‘کیونکہ ہم آسان اور رواں راستوں پر یقین رکھتے ہیں‘ جبکہ گیلانی صاحب تو عوام کا علاج بھی بڑے خشوع و خضوع سے کیا کرتے تھے ‘جو اب میں نے بھی شروع کر دیا ہے‘ کیونکہ اب فریال اور برخوردار بلاول بھی اس ہنر میں طاق ہو گئے ہیں اور میرے ہمراہ اس کام میں لگے رہتے ہیں اور چھوٹا موٹا آپریشن بھی کر لیتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ اللہ میاں نے اُن کے ہاتھ میں شفا بھی بہت دی ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
ملتان سکھر موٹر ویز نواز شریف کا پاکستان کیلئے تحفہ ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ملتان سکھر موٹر ویز نواز شریف کا پاکستان کے لیے تحفہ ہے‘‘ ویسے تو نواز شریف کے تحفوں کا کوئی شمار ہی نہیں‘ مثلاً :انہوں نے غریب عوام کے کپڑے اس لیے اتروا دیئے تھے کہ وہ میلے بہت تھے‘ جنہیں وہ دھلانا اور صاف کروانا چاہتے تھے ‘لیکن اس سے پہلے ہی انہیں ہٹا دیا گیا‘ بلکہ اندر بھی کر دیا گیا؛ حالانکہ ننگ دھڑنک عوام کی اس بارے کوئی شکایت نہیں تھی‘ اس طرح ان کے لیے میرے تحائف بھی شمار و قطار سے باہر ہیں اور کپڑے تو اُن کے بدن پر چونکہ تھے ہی نہیں‘ اس لیے میں نے ان کی کھال پر ہی اکتفا کیا‘ کیونکہ ان کی کھال بھی خارش زدہ پھوڑوں‘ پھنسیوں سے بھری ہوئی تھی اور اب وہ بغیر کھال کے زیادہ اچھے لگتے ہیں‘ لیکن اب مریم بی بی نے اپنے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ ساتھ ویڈیو کے معاملے پر مجھے بھی کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
ضمیر پر بوجھ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا: شیخ رشید احمد 
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ضمیر پر بوجھ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا‘‘ کیونکہ ابھی تو میرا اپنا بوجھ ہی اتنا زیادہ ہے کہ ضمیر کے بوجھ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے‘ جبکہ ٹرین حادثے ویسے بھی منجانب قدرت ہوتے ہیں ‘کیونکہ جو انسان زیادہ قدرت رکھنے کی بات کرتے ہیں اور قدرت اُن سے ناراض ہوجاتی ہے اور وہ انہیں ایسے حادثوں کی نذر کر دیتی ہے۔ اس لیے جو میری طرح پاک صاف لوگ ہیں‘ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ میں نے تو قدرت رکھنے کی کبھی بات ہی نہیں کی‘ نیز میں اس انتظار میں ہوں کہ ان حادثوں کی تعداد جلد از جلد اتنی ہو جائے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں میرا بھی نام آ سکے‘ جبکہ میں یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹی وی شوز میں ہی اتنا شامل اور مصروف رہتا ہوں‘ اس لیے امید ہے کہ کسی نہ کسی طرف سے میرا نام آ ہی جائے گا۔ آپ اگلے روز نالہ لئی ایکسپریس کے دورے پر میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
''زندگی‘ زندگی‘‘
یہ شہزادؔ عادل کا مجموعۂ غزل ہے‘ جسے ''آواز‘‘ پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ انتساب ''زندگی! ہم نے کی زندگی تیرے نام‘‘ ہے‘ جس کے نیچے شاعر کا اپنا یہ شعر درج ہے ؎
عمر بھر جانے کیوں مجھ سے دامن وہ اپنا بچاتی رہی
آخری بار مل جائے آ کر مجھے زندگی سے کہو
پیش لفظ انہوں نے خود لکھا ہے ‘جبکہ دیباچے محمد یعقوب آسی اور سرور جاوید کے قلم سے ہیں۔ ان دونوں معتبرین نے حسب ِ توقع شاعر کی توفیق بھر تعریف کی ہے۔ اس شاعری کا زندگی کے ساتھ اتنا ہی تعلق ہے ‘جتنا ذکر اس میں بار بار آتا ہے اور یہ کتاب ان شعری مجموعوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے ‘جو آئے روز دھڑا دھڑ شائع ہو رہے ہیں اور جس سے ظاہر‘ بلکہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں اور کچھ ہو نہ ہو ‘ شاعری منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہو رہی ہے‘ جبکہ تازگی اور تاثیر کے بغیر شاعری بجائے خود ایک طرح کی عیاشی ہے۔سو‘ یہ اس قسم کی شاعری ہے ‘جو فائدہ نہیں تو کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتی کہ یہ روٹین کی شاعری ہے اور اسے آدمی روٹین میں ہی پڑھ جاتا ہے‘ تاہم کوئی خراب کام کرنے سے بہتر ہے کہ شاعری ہی کر لی جائے‘ اگر بارِ خاطر نہ ہو تو موصوف کو تھوڑا مطالعہ‘ جدید غزل کا بھی کر لینا چاہیے‘ اس سے کوئی فائدہ نہ بھی ہوا تو نقصان ہرگز نہیں ہوگا۔
آج کا مطلع
کھولیے آنکھ تو منظر ہے نیا اور بہت
تُو بھی کیا کچھ ہے ‘مگر تیرے سوا اور بہت

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved