تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-07-2019

مودی سرکار کرتارپور راہداری سے پریشان کیوں؟

انگلینڈ میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران گرو نانک جی کے سکھ جب بھی میچ دیکھنے کے لئے پاکستان سے آنے والوں سے ملتے تو ایک بہت بڑی جپھی ڈال کر شکریہ ادا کرتے کہ عمران خان اور سدھو جی کی دوستی نے خالصوں کو اپنے گرو جی کی جنم بھومی کے درشن کرنے کی کھلی اجازت دلا کر دل خوش کر دیا۔ گرو نانک جی کے ہر خالصے کا کہنا تھا کہ ہمارے جیسے لوگوں کے لئے کوئی مشکل نہیں اگر ہمیں کرتار پور کے درشن کے لئے پاکستان میں کسی اچھے ہوٹل میں دو چار دن رہنا پڑے‘ لیکن بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے سکھ بھی ہیں جو یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘ ان کے لئے گرو نانک جی نے سدھو بھا جی کی شکل میں ایک گرو سمان بھیج دیا ہے‘ جس نے غریب سکھوں کے لئے ایک ہی دن میں کرتار پور جا کر وہاں گرنتھ پڑھنے‘ سننے اور دربار صاحب کے درشن کرنے کے بعد اسی شام گھروں کو واپس آنے کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ تاہم ورلڈ کپ کے میچ دیکھنے کے لئے آئے ہوئے مختلف جگہوں پر ملنے والے 80 فیصد کے قریب سکھوں کا کہنا تھا کہ ہمیں مودی سرکار سے کسی قسم کی بھلائی کی امید نہیں‘ وہ کرتار پور راہداری کے عمل کو روکنے کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ شرارت کرے گا۔ وہاں کے ایک سکھ سردار جسبیر سنگھ کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کے اس منصوبے‘ جو ان کی کمیونٹی کی جانب سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اگلے دو ماہ میں مکمل ہونے والا ہے‘ کی کامیابی کو روکنے کے لئے مودی سرکار سرحدوں پر یا بھارت کے اندر کسی اہم جگہ پر ممکنہ طور پر بہت بڑی دہشت گردی کرائے گا‘ اور پھر اپنے جھوٹ اور پروپیگنڈا سے سکھوں کو فریب دینے کے حربے استعمال کرتے ہوئے کرتار پور راہداری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کے تمام الزامات پاکستان کے سر تھونپ دے گا۔ ان سکھوں کا یہ بھی خیال ہے کہ راشٹریہ سیوک اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو اسی دن سے آگ لگی ہوئی ہے‘ جب نوجوت سنگھ سدھو اور آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتار پور راہداری کا نام لیا تھا اور پاکستان کی حکومت نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سمیت وشوا ہندو پریشد کو ہر وقت یہ فکر ستائے رکھتی ہے کہ کرتار پور راہداری سے کہیں گرو نانک جی اور حضرت میاں میر صاحب کی روحانی دوستی اور ایک دوسرے سے ان کی عقیدت کہیں ان دو قوموں کو پھر سے ایک دوسرے کے لئے محترم نہ بنا دے۔ بھارت اور دنیا بھر میں موجود سکھوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کرتار پور راہداری سے جس قدر خوش ہے دنیا کے ہر کونے میں پھیلا ہوا انتہا پسند ہندو اس سے اتنا ہی خوف زدہ اور پریشان ہے۔ 
کرتار پور راہداری کیلئے حکومت پاکستان جس خلوص‘ محنت اور بھاری سرمائے کو استعمال میں لا رہی ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لندن سمیت برمنگھم‘ لیڈز اور مانچسٹر میں ملنے والے سکھوں کا خیال تھا کہ شاید مودی سرکار یا بھارتی پنجاب کی کانگریس سرکار بھی اس منصوبے کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے‘ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ یہ سب بھارت کا مکارانہ اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور کرتار پور راہداری سے متعلق ایک ایک پراجیکٹ کی ایک ایک اینٹ پر خرچ ہونے والی بھاری رقم صرف اور صرف حکومتِ پاکستان اپنی جیب سے ادا کر رہی ہے تو یہ سن کر وہاں کھڑے کچھ بوڑھے سکھ بول اٹھے کہ ہم بھی حیران تھے کہ مودی سرکار کو تو سکھوں پر ایک دھیلا خرچ کرتے ہوئے غش پڑ جاتا ہے‘ وہ اس پروجیکٹ میں کیسے سرمایہ کاری کر رہی ہو گی؟ لیکن اب پتہ چلا کہ یہ سارا خرچہ پاکستان اکیلے ہی کر رہا ہے‘ دَھن بھاگ پاکستان دے۔
میری معلومات کے مطابق بھارت کی آئی بی کے کرتار پور راہداری پر خفیہ طور پر کرائے گئے سروے اور بھارت کی ہی خفیہ ایجنسی 'را‘ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی جانب سے دی گئی سہولیات کے تحت اگر ایک دن میں پانچ ہزار سکھ یاتریوں کو کرتار پور میں ویزہ فری آنے جانے کی سہولت مل گئی تو اس کا مطلب ہو گا کہ ایک ماہ میں ڈیڑھ لاکھ سکھ پاکستان جائیں گے اور اگر ایک سال کا حساب لگایا جائے تو یہ تعداد کئی لاکھ بن جائے گی اور ان یاتریوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں گے۔ یہ نوجوان‘ بوڑھے اور بچے جب اپنے گرو بابا نانک جی کی جنم بھومی کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کا اپنے ساتھ پیار و محبت دیکھیں گے‘ تو ان کے ذہنوں سے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کا مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کے خلاف بھرے گئے زہر کا اثر زائل ہونا شروع ہو جائے گا‘ جس سے بھارت کے پاکستان کے خلاف سکھوں کو استعمال کرنے کے حربے کمزور پڑنا شروع ہو جائیں گے اور اگر ان سکھ یاتریوں میں بھارت کی سکیورٹی فورسز کے لوگ بھی چھٹیاں لے کر جانا شروع ہو گئے تو اپنی مہمانداری سے پاکستانی انہیں بھی 'شیشے میں اتار سکتے ہیں‘۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ نئی دہلی سرکار میں بیٹھی ہوئی بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ‘ دونوں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم سکھوں کو کرتار پور جانے کی اجا زت دی جائے‘ ماسوائے گرو نانک کے 550 ویں جنم دن کی سکھوں کے حوالے سے مذہبی تقریبات کے۔
اس حقیقت سے کون نا واقف ہو گا کہ پاکستان پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں پاکستان کے عوام اور اس کی سکیورٹی فورسز کے بھی ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے۔ پاکستان میں رہنے والے سکھ بھی ایسی کارروائیوں کا نشانہ بنے تھے۔ ان دنوں میں کے پی کے میں سوائے بھارت کے خریدے اور سدھائے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے کسی نے بھی سکھوں پر حملے نہیں کئے تھے۔ ان حملوں کے حوالے سے جو حیران کن اطلاعات ملیں‘ ان سے سبھی کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگی کہ یہ سب کچھ بھارتی ایجنٹوں پر مشتمل ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ ان سکھوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے ہوئے پاکستان کے خلاف کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس قدر پیار‘ محبت اور انسیت پاکستانیوں کو اپنے مسلم بھائیوں کے بعد سکھوں سے ہے‘ کسی اور سے شاید نہیں ہے۔ ان میں سے کبھی کسی نے انہیں بری نظر سے نہیں دیکھا‘ لیکن بھارتی سدھائے ہوئے دہشت گردوں نے انہیں نشانے پر رکھ لیا۔ کئی برسوں سے پاکستان آنے والے سکھ یاتری لاہور‘ ننکانہ یا حسن ابدال میں گھومتے ہوئے یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ جاتے کہ انہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستانی گرو نانک کے خالصوں سے اس قدر پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ محض لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ پنجاب اور ہریانہ واپس جانے والے سکھ ابھی تک اس محبت اور اچھے سلوک کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ یہاں آنے کے لئے آہیں بھرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں سکھوں کے گروئوں کی اس قدر مقدس نشانیاں ہیں کہ ایک سچے خالصے کا دل ہر وقت ان کی یاد اور دیدار کیلئے مچلتا رہتا ہے۔ لیکن جس قدر ان سکھوں کا اپنے گروئوں کے متبرک مقامات دیکھنے کے لئے دل مچلتا ہے‘ اتنا ہی بھارت سرکار ان کے پاکستانی ویزے کے لئے اپلائی کرنے کے ارادوں کو کمزور کرتے ہوئے یاتریوں کی تعداد کم سے کم کرتی چلی جا رہی ہے۔
کرتار پور راہداری کیلئے حکومت پاکستان نے 15 ارب روپے ادا کرتے ہوئے 1500 ایکڑ زمین خریدی ہے جس پر 70 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے اور آنے والے سکھ یاتریوں کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے کیلئے اس راہداری کا باقی ماندہ کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ ان ترقیاتی کاموں کی جانب دیکھیں تو پاکستانی انجینئرز اور راج مزدوروں کی مہارت کی داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا فیز‘ جس میں کمرشل پروجیکٹس شامل نہیں‘ ستمبر کے وسط تک مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دے گا۔ انتہائی ماہر کاریگروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کرتار پور گردوارہ دربار صاحب کے اندر اور باہر تزئین و آرائش کا کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان تو اپنا کام مکمل کر ہی لے گا‘ کیونکہ یہ مخلص ہے‘ لیکن کیا اس حوالے سے مودی سرکار کے مذموم ارادوں کے سدباب کے لئے بھی سکھ برادری کچھ کر رہی ہے یا نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved