ایک دور تھا کہ انسان صرف قدرت کے آسرے پر زندگی گزارتا تھا۔ جو کچھ قدرتی طور پر اُگتا تھا وہی کھا پی لیا جاتا تھا۔ کچھ کسر رہ جاتی تھی تو جانوروں کے شکار کے ذریعے پوری کی جاتی تھی‘ پھر انسان نے کھیتی باڑی شروع کی۔ زمین تیار کرکے اپنی مرضی کی فصلیں اگانا ممکن ہوا تو انسان نے خوراک کا مسئلہ بہت عمدگی سے حل کرنا شروع کیا۔
کھیتی باڑی کی منزل سے گزر کر انسان صنعت و حرفت کی منزل تک آیا‘ یعنی ہاتھوں اور آلات کی مدد سے اشیاء بنانے کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل ذرا تیز ہوا تو پیداواری عمل میں آسانی پیدا کرنے والے آلات کی تیاری کا عمل تیز ہوا۔ یہ عمل مشینوں کے معرضِ وجود میں لائے جانے کا وسیلہ بنا۔ یورپ میں تین صدیوں پہلے صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ مشینوں کی مدد سے برپا ہونے والے اس انقلاب نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ بہت کچھ‘ بلکہ سبھی کچھ بدل گیا۔
کم و بیش ڈھائی صدیوں تک صنعتی انقلاب کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بعد انسان اب انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آن لائن کلچر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ صنعتی عمل پیچھے رہ گیا ہے۔ ذہن کے کمالات قیامت ڈھا رہے ہیں۔
افرادی قوت برآمد کرکے غیر معمولی تناسب سے زر مبادلہ کمانا کئی ممالک کی بنیادی حکمتِ عملی رہی ہے۔ بھارت‘ چین‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ تھائی لینڈ‘ ویتنام‘ مصر اور دوسرے بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی افرادی قوت کی برآمد کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی بیرون ملک کام کرکے ایک طرف تو اپنے اور اہل خانہ کے لیے بہتر زندگی کا اہتمام کر رہے ہیں اور دوسری طرف قومی خزانے کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہو رہے ہیں۔
چین اور بھارت نے افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے بہت محنت کی ہے۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ ہنر مند افرادی قوت برآمد کرکے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کیا جائے۔ اس معاملے پر بھارت نے خاص توجہ دی ہے۔ غیر تربیت یافتہ یا بے ہنر افرادی قوت کی برآمد سے کسی بھی ملک کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا۔ وہی ممالک زیادہ پاتے ہیں‘ جو ہنر مند افرادی قوت برآمد کرتے ہیں۔ اب معاملہ اس سے کئی قدم آگے جاچکا ہے۔ آج دنیا بھر میں وہی افرادی قوت زیادہ کماتی ہے‘ جو جدید ترین علوم و فنون سے مزین ہو۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیم اور متعلقہ تربیت کے ادارے بڑی تعداد میں ہیں اور اِن اداروں کا معیار خاصا بلند ہے۔ اِن اداروں سے تعلیم و تربیت پاکر نکلنے والے دنیا بھر میں کامیابی سے ہم کنار رہتے ہیں۔
ایک دور تھا کہ بھارت جسمانی کام کے حوالے سے مہارت رکھنے والے محنت کشوں کو باہر بھیجتا تھا۔ بھارت کے پلمبر‘ الیکٹریشین‘ ڈرائیور‘ پینٹر‘ کارپینٹر‘ مکینک اور دیگر ہنر مند دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اِن کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ یہ سَر جھکاکر‘ خوش دِلی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ آجروں کو ان سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک کے محنت کش مکمل فرماں برداری کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے۔ ان سے آجر زیادہ خوش نہیں رہتے تھے۔ یوں بھارت کی افرادی قوت کی کھپت تھی اور وہ مستقل بنیاد پر خطیر زر مبادلہ کماتا رہتا تھا۔
اب ‘نالج ورکرز کا زمانہ ہے۔ دنیا بھر میں ایسے تربیت یافتہ افراد کی غیر معمولی اور روز افزوں طلب ہے ‘جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر متعلقہ شعبوں میں غیر معمولی مہارت کے حامل ہوں۔ اسی طور ڈاکٹرز‘ پیرا میڈکز‘ فارماسسٹ‘ ٹیوٹرز‘ ٹیچرز‘ جنرل کونٹینٹ رائٹرز‘ ٹیکنیکل رائٹرز‘ ایڈیٹرز‘ ٹرانسلیٹرز‘ ٹانسکرپشنسٹ‘ ریسرچرز‘ ڈیٹا مائنرز‘ کمپائلرز‘ آڈیٹرز‘ معاشی اور مالیاتی تجزیہ کار‘ میڈیا پرسنز‘ تجزیہ کار‘ اینکرز اور دیگر اعلیٰ ہنر مند دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ سب نالج ورکرز ہیں‘ یعنی ان کی صلاحیت‘ مہارت اور کارکردگی کی بنیاد علم ہے۔ علم کے میدان میں آگے بڑھ کر یہ لوگ اپنی تربیت کا معیار بلند کرتے ہیں اور یوں دنیا کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ بھارت نے اس حوالے سے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی بھرپور اور بہت حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔
پاکستان اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے ممالک نالج ورکرز تیار کرنے کے معاملے میں اب تک خوابِ غفلت کا جھولا جھول رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث نالج ورکرز تیار کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان نے اب تک اس حوالے سے خصوصی ادارے قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا دھیان اب تک اس طرف گیا ہی نہیں۔ نالج ورکرز عام ہنر مند محنت کش سے اوسطاً سات آٹھ گنا کماتے ہیں۔ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا‘ جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ میں نالج ورکرز کی غیر معمولی طلب ہے۔ جو ترقی پذیر معاشرے نالج ورکرز کی تیاری پر توجہ دیتے ہیں‘ وہ ترسیلاتِ زر کی مد میں بھرپور کامیابی کا منہ دیکھتے ہیں۔ چین اور بھارت اس معاملے میں بہت واضح مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے ‘جن کے محنت کش دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ''غیر مقیم پاکستانی‘‘ ایک طویل مدت سے بیرون ملک مقیم ہونے کی بدولت غیر معمولی روابط بھی رکھتے ہیں۔ اِن کے روابط سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نالج ورکرز کی کھپت یقینی بنا سکتا ہے۔ اگر‘ ریاستی سطح پر سوچا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ حکومت اس حوالے سے ٹاسک فورس بناکر حقائق کا جائزہ لے‘ تاکہ حکمتِ عملی ترتیب دینے میں مدد ملے۔ ہماری جامعات میں آج بھی روایتی نوعیت کی تعلیم و تربیت کی جارہی ہے۔ نئی نسل کو ایسے علوم سکھانے کی ضرورت ہے جو عملی زندگی میں زیادہ کارگر ثابت ہوں ‘یعنی جن کی کمرشل ویلیو زیادہ ہو۔ کلاسیکی علوم و فنون کی پاسداری بھی ضروری ہے‘ مگر عصری تقاضوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں جدید ترین علوم و فنون کی ترویج کا ماحول پنپتا جارہا ہے۔ جن علوم و فنون کی کمرشل ویلیو زیادہ نہ ہو‘ اُن پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔
نئی نسل کی کاؤنسلنگ بھی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو نئے دور اور نئی زندگی کے لیے تیار کرے۔ آج کی دنیا میں جن چیزوں کی طلب ہے ‘وہی ہمارے پاس ہونی چاہئیں۔ افرادی قوت کی برآمدی منڈی میں اس وقت نالج ورکرز گرم کیک کے مانند فروخت ہو رہے ہیں۔ ہمیں بھی نالج ورکرز تیار کرنے پر جنگی حکمت ِ عملی کے تحت کام کرنا ہے۔
ہمارے ہاں نالج ورکرز کا شعبہ؛ چونکہ اب تک uncharted ہے‘ اس لیے بھرپور کامیابی کے لیے توجہ بھی غیر معمولی درکار ہے اور محنت بھی اچھی خاصی کرنی ہے۔ جامعات میں اس حوالے سے خصوصی شعبے قائم کیے جانے چاہئیں‘ تاکہ نوجوان بڑی تعداد میں اس طرف مائل ہوں۔ نالج ورکرز کو گھر بیٹھے بھی اچھا خاصا کام مل جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے ذریعے دنیا بھر کے ہزاروں بڑے ادارے اپنا کام دنیا کے دوسرے سِرے پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے کراتے ہیں اور یوں ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کے لوگوں کو گھر بیٹھے خاصی معقول آمدنی یقینی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔
نالج انڈسٹری ہماری منتظر ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بدل جانے ہی میں دانش مندی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو فوری طور پر متوجہ ہونا چاہیے‘ تاکہ معیشت کو مستحکم کرنے والی ایک مد سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔ نالج انڈسٹری کا متحرک حصہ بننے سے قومی معیشت ہی کا نہیں‘ نئی نسل کا بھی مفاد وابستہ ہے۔