عمران خان نے دنیائے کرکٹ میں بطور بلے باز، بائولر اور کپتان خوب جوہر دکھائے اور اپنے دور کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔ اپنے وطن کیلئے کرکٹ کا اکلوتا ورلڈ کپ جیت کر لائے اور پاکستانیوں کے دلوں میں خوب جگہ بنائی۔ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر متعارف کروانے کیلئے پہلی آواز بنے اور یوں پوری دنیا میں شہرت پائی۔ عمران خان ایک کھلنڈرے نوجوان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے یہ سوچا بھی نہ تھا‘ نہ ہی ان کے وہم و گمان میں یہ خیال کبھی خیال آیا ہو گا کہ وہ دنیائے سیاست میں قدم بھی رکھیں گے۔ نہ صرف قدم رکھیں گے بلکہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی پاور‘ پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ سوشل میڈیا پر وہ کلپ آج بھی موجود ہے جس میں نواز شریف عمران خان کا ایک گورے سے تعارف کراتے ہوئے مہمان کو بتاتے ہیں کہ میں نے ان کو سیاست میں آنے اور پارٹی (مسلم لیگ) جائن کرنے کی دعوت دی ہے‘ لیکن یہ مانتے ہی نہیں۔ اس موقع پر عمران خان کی شرماہٹ دیدنی تھی۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے پاکستان میں پہلا پرائیویٹ کینسر ہسپتال بنایا اور لوگوں نے ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے اپنی نقدی اور خواتین نے اپنے زیورات تک شوکت خانم ہسپتال کیلئے دیئے۔ یوں عوام میں اپنی مقبولیت دیکھتے ہوئے عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور دنیائے سیاست میں گمنام سولہویں کھلاڑی کے طور پر کھیل کا آغاز کیا۔ پاکستان اور عالمی کرکٹ میں عمران خان کو حاصل قدرومنزلت کے برعکس سیاست کے پاکستانی پنڈتوں اور سیاست کے عالمی گروئوں نے طویل عرصے تک عمران خان کو ''سیاسی کلب‘‘ میں شامل نہیں ہونے دیا۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ انیس سو ستانوے کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف نے انہیں اپنا اتحادی بننے کی شرط پر بیس سے بائیس سیٹوں کی پیشکش کی تھی‘ لیکن خان نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور الیکشن میں ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ دو ہزار دو میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی نبھا نہ ہو سکا اور عام انتخابات مسلم لیگ ق لے آڑی۔ دو ہزارآٹھ میں عمران خان صرف اپنی ذاتی ایک سیٹ ہی حاصل کر سکے، جبکہ دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ ان کی جماعت قومی اسمبلی میں معقول نشستیں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یہاں سے وہ باقاعدہ طور پر سیاسی کلب میں تو داخل ہو گئے لیکن پنجاب، سندھ، بلوچستان، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کا کردار بارہویں کھلاڑی کے طور پر ہی رہا۔ عام انتخابات دو ہزار تیرہ میں دھاندلی کا الزام لگایا اور طویل دھرنا دیا‘ لیکن مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یوآئی (ف) کی پارٹنرشپ توڑنے میں ناکام رہے۔ پانامہ لیکس خان کے سیاسی کیریئر میں امیدِ بہار لے کرآئیں۔ پہلے انھوں نے نواز، زرداری پارٹنرشپ توڑی اور پھر عام انتخابات دو ہزار اٹھارہ میں ایک ہی بال سے اپنے مخالفین زرداری، نواز شریف، فضل الرحمان، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی کی کئی وکٹیں اڑا کر اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی این پی مینگل کے تعاون سے مخلوط حکومت تشکیل دی اور وزیر اعظم بنے‘ جبکہ پنجاب کا قلعہ بھی فتح کر لیا۔
عمران خان کو وزیر اعظم کا منصب سنبھالے ایک سال ہونے کو ہے۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود سیاست کے میدان میں وہ اپنے مخالفین کو جم کر کھیلنے کا موقع نہیں دے رہے۔ اناڑی سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ وہ میدان میں اترے ہیں اور بہترین بائولنگ اور بیٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدترین معاشی صورتحال، قرضوں کے بوجھ تلے دبی اکانومی کے باوجود اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تاجروں سے بھی نبردآزما ہیں اور کسی قسم کاکمپرومائز کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد خان الیون نے مزید جارحانہ کھیل شروع کر دیا ہے۔
وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے پہلے ہوم گرائونڈ میں پوزیشن مستحکم کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے‘ خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ فرینڈلی تعلقات بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جن کے بارے میں تاثر تھا کہ ان ممالک کے تعلقات شریف خاندان اور زرداری خاندان سے ہیں۔
یہ خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات یکساں طور پر نہ صرف دوستانہ ہیں بلکہ سوائے ایران کے دیگر ممالک نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کیلئے خطیر رقم بیل آئوٹ پیکیج کے طور پر بھی دی۔ دوسری جانب پلوامہ واقعہ کے موقع پر بھارت کو کھلے عام نہ صرف للکارا بلکہ بالا کوٹ پر بھارتی جارحیت کا دو بھارتی طیارے گرا کر جواب بھی دیا۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرکے دنیا بھر سے دادِ تحسین وصول کی۔
انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹویٹ پر دو، دو ہاتھ کئے اور امریکہ کو اسی کی زبان میں جواب دیا۔ عام تاثر یہ تھا کہ اب امریکہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہیں گے۔ عمران خان ہوم گرائونڈ اور فرینڈلی ممالک کے ساتھ کھیلنے کا تو کچھ نہ کچھ تجربہ حاصل کر چکے ہیں‘ جہاں انہیں ہوم کرائوڈ اور قدرے بیٹنگ وکٹ ملی‘ لیکن واشنگٹن کی وکٹ تیز ترین ہے اور Unpredictable بھی۔ واشنگٹن کا سیاسی موسم کب کتنا بگڑ جائے کوئی عام کھلاڑی اندازہ نہیں کر سکتا۔ واشنگٹن کے ساتھ طویل ترین اننگز کھیلنے والے بھی پلک جھپکنے میں یوں آئوٹ ہو جاتے ہیں کہ جیسے وہ کبھی میدان میں اترے ہی نہ تھے۔ واشنگٹن کی سوچ، نظریہ، سیاست‘ سب صرف اور صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہیں اور بعض اوقات تو اپنے ہم خیال اور طویل ترین شراکت داروں کو بھی یوں اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ واشنگٹن دوست مستقل رکھتا ہے اور نہ ہی دشمن۔ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاالحق، شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی، حسنی مبارک، صدام حسین، شاہ فیصل، انور سادات، اسامہ بن لادن، افغان مجاہدین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کے باعث ہمارے حکمرانوں کے امریکہ کے دورے اکثر ان کی حکومتوں کے خاتمے اور سیاسی زوال کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔ کارگل کے پس منظر میں نواز شریف دورہ امریکہ سے واپس آئے تو اپنی حکومت نہ بچا سکے اور جنرل پرویز مشرف کو کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر بش سے ون آن ون ملاقات بہت مہنگی پڑی۔ بعد ازاں امریکی ثالثی کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پاور شیئرنگ فارمولا‘ جسے عرف عام میں این آر او کہتے ہیں‘ بھی ان کے اقتدار کو دوام نہ بخش سکا۔ میر ظفراللہ خان جمالی بھی بطور وزیر اعظم امریکہ کی تیز ترین وکٹ پر کھیلنے گئے۔ واپس وطن پہنچے تو جنرل پرویز مشرف نے ان کی وکٹ گرا دی۔ اب وزیر اعظم عمران خان واشنگٹن کی وکٹ پر کھیلنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ وہ امریکی ان سوئنگ،آئوٹ سوئنگ اور گگلی کو بھی کھیلنے کے ماہر نہیں ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے چند صحافیوں سے اپنے آفس میں ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ایک صحافی نے پوچھا کہ وہ ستمبر میں ہونے والے یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں؟ وزیر اعظم نے فوراً جواب دیا ''بالکل بھی نہیں‘‘۔ صحافی نے اصرار کیا کہ آپ کو جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے جواب دیا ''میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟ پاکستان کو میرے جانے سے کیا فائدہ ہو گا‘ وہاں صرف ایک تقریر ہی تو کرنا ہوتی ہے‘ اس کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کافی ہیں‘ محض ایک تقریر کے لیے اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ وزیر اعظم کو امریکہ جانے کے فوائد بتاتے ہوئے صحافی نے پھر کہا کہ وہاں آپ کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی تو ہو سکتی ہے‘ آپ کو جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے مسکرا کر کہا: بہتر ہے میں نہ جائوں‘ اگر ٹرمپ نے کچھ ایسا ویسا کہہ دیا تو پھر مجھ سے بھی چپ نہیں رہا جائے گا اور میں بھی کچھ کہہ دوں گا‘ وہاں کچھ نہ کچھ بن جائے گا‘ اس لیے رہنے ہی دیں۔ اس پر زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ اس موضوع پر مزید گفتگو نہ ہوئی۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اب ایک سال میں عمران خان ہوم گرائونڈ میں کچھ تجربہ حاصل کر چکے ہیں اور امریکی سینیٹرز سمیت زلمے خلیل زاد بھی عمران خان سے ملاقات کر کے اپنی رپورٹ وائٹ ہائوس اور امریکی پالیسی سازوں کو دے چکے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان مشترکہ مفادات کے موضوعات بھی میز پر آ چکے ہیں اور عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور جنرل ضیاالحق کی جہادی پالیسی کے برعکس غیر جہادی پالیسی، سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ، ایران امریکہ تنازع، روس کا پاکستان سے قریب ہونا اور افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور بعد ازاں افغانستان میں نئے سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل‘ ایسے موضوعات ہیں جن کے باعث امریکی پالیسی سازوں کو پاکستان کی یاد اور بالخصوص عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یاد ستا رہی ہے۔ ماضی کے برعکس عمران خان کا یہ دورہ امریکہ مختلف نوعیت کا ہو گا۔ ایسے وقت میں جب پاکستان میں سول ملٹری تعلقات انتہائی سازگار ہیں اور داخلہ و خارجہ پالیسی مل کر آگے بڑھائی جا رہی ہے‘ واشنگٹن میں وکٹ کے ایک اینڈ پر عمران خان کھیلیں گے تو دوسرے اینڈ پر جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود ہوں گے۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف تمام نوعیت کی کارروائیوں کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے امریکہ اور پاکستان مل کر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان واشنگٹن سے کیا لے کر آتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک معمولی غلطی کا نتیجہ ماضی سے مختلف نہیں ہو گا کیونکہ ان کے مخالفین کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے سول ملٹری پارٹنرشپ کو توڑا جائے۔ اس مقصد کے لیے بلاول بھٹو خود امریکہ میں موجود ہیں جبکہ نواز شریف فیملی نے بھی اپنے ہم خیالوں اور لابسٹوں کو متحرک کر دیا ہے۔