تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-07-2019

سونے کی کان

صرف سونا ہی سونا ہوتا ہے۔ نیا دریافت شدہ ہو یا پُرانا۔ پلاٹینم، سلور اور ڈائمنڈ بہت چمکیلے اور ہوش رُبا ہونے کے باوجود بھی دُنیا کی کسی معیشت کی بنیاد ہیں نہ ہی کرنسی کا پاور پیک۔
''سونے کی کان‘‘ مشہور محاورہ ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے۔ پچھلے 100 سالوں میں ہیرے کی بڑی، بڑی کانیں افریقہ کے غریب ملکوں میں کھودی گئیں۔ لیکن ان کانوں کے اصلی مالک خواہ وہ افراد ہوں یا ممالک‘ دونوں کچھ بھی فیض نہ پا سکے بلکہ یہ کانیں ننگ دھڑنگ افریقی بچوں، جنگلی قبائل اور لُٹی، پُٹی معیشتوں کے لیے (Blood Diamonds) یعنی نا معلوم افراد کی اجتماعی قبریں ثابت ہوئیں۔ سونے کا ذکر اگلے روز تربیلا گائوں، عمرا میں بھی ہوا‘ جبکہ تربیلا والے عمرا گائوں کا تذکرہ سابق ایم پی اے سردار اقبال نے بڑی محبت سے چھیڑ دیا۔ سردار اقبال خان میرے سسرالی علاقے سے سابق رُکن پنجاب اسمبلی ہیں اور زمین دارہ کرتے ہیں۔
ملنے آئے تو ان کا حلیہ بہت زیادہ بدلا ہوا پایا۔ پوچھا: سب خیریت ہے؟ کہنے لگے: نئی زندگی ملی ہے، سوچا آپ سے مِل آئوں۔ تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ان کا بلڈ پریشر 190 تا 290 اوپر جا پہنچا تھا۔ ساتھ بولے: مجھے لنگر نے بچا لیا جس میں 270 دلدر اور بیماریوں کی شفاء پائی جاتی ہے۔ مزید بتایا کہ درویش خان حمید کمال شفقت سے آپ کا ذکر کر رہے تھے۔ اگلی صبح 2 جگہ وکالتی حاضری لگا کر رُخ تربیلا کی طر ف کر لیا۔ سٹاف کے علاوہ کچھ وکیل بھی ساتھ چل دیئے۔
ان دنوں ساون‘ برکھا رُت کی آمد، آمد ہے۔ ساتھ سبزے کی بہار بھی۔ گولڑہ موڑ سے چھچھ انٹر چینج تک بے شمار قیمتی زرعی زمین کو کمپیوٹر اور کاغذوں پر بننے والی ہائوسنگ سکیموں کی نظر کھا گئی۔ جہاں جہاں اس بیماری کا حملہ نہیں ہوا، وہاں شدید دھوپ میں کسان زمین تیار کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ساون کے سبزے پر پلنے والے دیسی لائیو سٹاک کے ریوڑ بھی ساتھ ساتھ۔ ان بے زبانوں کے لیے اگلے 90 دن موج میلے کے ہیں۔ نہ صرف ان جانوروں کے کھانے کے لیے بے پناہ چارہ ہر طرف ملے گا، بلکہ جن کی التجا مالک تک جا پہنچی وہ سنّتِ ابراہیمی پر قُربان ہو جائیں گے۔ جس لنگر کا ابھی ذکر ہوا ہے وہ پون صدی سے جاری ہے۔ وقت کی قید ہے نہ مہمانوں کی تعداد پر کوئی قدغن۔ تربیلا ڈیم سے بالا کوٹ، سری کوٹ جانے والی سڑک پر لنگر مہمانوں سے زیادہ اس روٹ کے غریب مسافروں کی خدمت گزاری کرتا ہے۔
نارتھ پاکستان کے اس علاقے میں لنچ ٹائم 11 سے ساڑھے 11 بجے شروع ہو کر 12:30 تا1 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ صرف گھروں میں نہیں بلکہ بر لبِ سڑک ڈھابے، کھابے اور ریسٹورنٹس کا وقت بھی یہی ہے۔ ہمارا قافلہ دن کے 2:50 بجے عمرا پہنچا۔ پہاڑی پودینے کی چٹنی، تازہ مکھن، پہاڑی گائے کے دودھ کی بنی لسی، تندور کی روٹیاں اور خوشبودار مونگ کی دال۔ سب آرگینک‘ قدرت کی گود میں پلے انسانی زندگی کے لیے سونے کی کان سے زیادہ قیمتی کھانے۔ یونیورسٹی کے گولڈن دنوں میں ''سونا‘‘ کے موضوع پر جو طبع آزمائی سرزد ہوئی، کچھ یوں ہے۔
صورت مورت ملتی جُلتی اور بناوٹ اک دوجے سی
پائوں، ہاتھ اور کان وہی ہیں جیون کے ارمان وہی ہیں
فرق نہیں تقویم میں کوئی انساں کی تکریم میں کوئی
پھر کس بات پہ اتراتی ہو‘ کیا تم سونا کھا سکتی ہو؟؟؟ 
مجھے جب بھی عمرا گائوں جانا ہوتا ہے راستے میں کئی سٹاپ لیتا ہوں۔ تربیلا ڈیم کے پانی پر پلی ہوئی مکئی کی چھلّی نظر آئے تو لازماً بریک لگتی ہے۔ آلوچہ، دیسی خوبانی، مقامی روایتی انگور جسے پوٹھوہاری اور ہندکو زبان میں ''داخ‘‘ کہتے ہیں، ہر طرف نظر آیا۔ کرنچی اور میٹھی پہاڑی ناشپاتی بھی جس کا مقامی نام ''ناکھ‘‘ ہے۔ لوڈ شیڈ نگ میں کام آنے والی دیسی ''پکھیاں‘‘ اِس کے علاوہ مقامی طور پر بنے ہوئے زرعی آلات زبردست اور پائیدار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی سستے دیسی انڈوں کے ٹوکرے اور بہت سی کم یاب سبزیاں اور پھل بھی۔ یہ سارا سُچّا سودا ہماری زرخیز سر زمین کا وہ سونا ہے جس پہ ہزاروں سالوں سے ہمارے اجداد فخر اور انحصار کرتے چلے آئے ہیں۔ پھر منزل انہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے لہٰذا اب ہماری لوکل مارکیٹوں میں بھارتی دھنیہ اور کیلا، نیدر لینڈ کی ناشپاتی، سوئٹزر لینڈ کا سیب بِکتا ہے۔ اپنی چَس اور چاشنی والے پھل، فروٹ، سبزیاں، دالیں عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ غازی بازار سے دائیں مُڑ کر منگلا ڈیم سے نکلنے والی غازی بروتھا نہر کے اوپر سے 15 منٹ کی ڈرائیو کے بعد عمرا گائوں آ جاتا ہے۔ شُکر ہے اس علاقے میں زمینوں کو ڈیلری نے ابھی تک نہیں دبوچا۔ اس لیے ہوا اور فضا سرور سے بھر پور ہے۔
100 کے پیٹے میں پہنچ کر بھی درویش نے اپنی آبائی زمینوں کے پتھر اور مٹی کی محبت نہیں چھوڑی۔ صبح 5 بجے سے 10 بجے تک زمیندارہ اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔ ایک بڑے آدمی نے بڑی غرض کے عوض دعا کے لیے ٹیوب ویل کی آفر کی جس پر خان صاحب نے کہا: جو مزہ میرے کٹھّے (قدرتی جھرنے والی ندی) کے پانی اور جندر (قدرتی پانی کے زور پر چلنے والی پَن چکی) کے آٹے میں ہے وہ مشینوں میں کہاں۔
میرے لیے اپنے وطن میں ایسی بہت سی ادب گاہیں بلا شبہ اور بھی ہیں۔ جہاں سے تیسری آنکھ کو روشنی، روح کو تازگی اور مزاج کو بالیدگی ملتی ہے۔ کسی اور کی گُستاخی کرنا مقصد نہیں۔ بات ذرا سخت ہے لیکن کہنا بنتی ہے۔ یہی کہ میں نے اس درویش کا واحد ڈیرہ دیکھا ہے جس میں صاحب سے ڈرائیور تک اور مرتبے سے فقیری تک سب کو ایک جیسا کھانا اور سالک کی ایک سی توجہ ملتی ہے۔ حفظِ مراتب کے نا م پر باقی اکثر جگہ بندہ اور آقا کی کچھ نہ کچھ تمیز، طبیعت کو مکدر کرتی رہتی ہے۔ یہاں مشکل ترین سوال کا رمزیہ جواب ملتا ہے، خالص ہندکو زبان میں۔
اس دفعہ ملکی حالات کے بارے میں کہنے لگے: ہمارے ملک پاکستان کو قدرت نے بہت امیری (وسائل) دی ہے۔ ایسا بادشاہ آیا ہے جس کے ہاتھ بھاری اور زبان سونے کی ہے۔ دیکھ لینا یہ ملک ہماری زندگی میں کدھر جا کھڑا ہو گا۔ ایک واقعہ سُنا کر کہنے لگے: دوسروں کا مال کھانے والا کبھی سرسبز نہیں رہ سکتا۔ مجھ سے پوچھنے لگے: یہ سونے کی کان والا کیا مقدمہ ہے؟ پھر میرا جواب سنے بغیر کہنے لگے: یہاں کوئی سونے کی ایک کان تھوڑی ہے۔ عمرا گائوں سے واپسی کے سفر میں، میں درویش کی گفتگو پر سوچتا رہا۔ مثلاً دعا یہ دیتے ہیں، یا مالک اس جہان میں عزت رکھنا اور اگلے جہان میں آبرو رکھ لینا۔
ذرا اور سوچا تو یاد آنے لگا کہ مِڈل ایسٹ اور ایفرو عرب ممالک لاطینی امریکہ اور برازیل میں تیل نکالنے والی سینکڑوں کمپنیاں بلیک گولڈ کی تلاش میں ہزاروں لاکھوں ڈرلنگ ہولز کرتی ہیں۔ یہ اپنی آئل اینڈ گیس کارپوریشن کو کس دجال کارٹیل کی نظر کھا گئی۔ نہ کوئی نئی کمپنی آنے دی جاتی ہے اور نہ ہی پُرانی کمپنیاں نئے آئل فیلڈ دریافت کرتی ہیں۔ پھر خیال آیا جس ملک کی ریاستی گارنٹی والا سونے کی کان کا ٹھیکہ سستی شہرت کے ایک کم ظرف تاجر کی ذاتی خواہشوں اور پوائنٹ سکورنگ پر قربان ہو سکتا ہے‘ وہاں دنیا بھر کے انویسٹر واپس کھینچ کر لانا مائونٹ ایورسٹ سر کرنے جیسا ہے۔ لیکن قدرت کا اٹل قانون ہے ؎
تغیرّات سے دنیا سِنگھار کرتی ہے
یہ چاند توڑ کے جُھمر میں رنگ بھرتی ہے
طلوعِ مہر ترے آستاں پہ ہوتا ہے
کرن کرن تری دہلیز پہ اترتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved