تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     19-07-2019

’’خادمِ پنجاب پلس‘‘

منگل کے روز لاہور کو، کیا اس لیے ڈوبنے دیا گیا کہ خادمِ پنجاب کی دس سالہ کارکردگی کا پول کھل جائے، ان کی کرپشن پانی پر تیرتی نظر آئے اور شہر کی تعمیر و ترقی کے دعووں کی حقیقت بے نقاب ہو؟ شدید بارش کے بعد، لاہور کے شہریوں کو جس طرح حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، اگر یہ اربابِ اختیار کی نا اہلی کی بجائے، خادم پنجاب کو بد نام کرنے کی حکمت عملی تھی، تو معاف کیجئے، یہ بیک فائر کر گئی، اور لاہور والوں کو خادمِ پنجاب ایک بار پھر یاد آئے اور بے حساب آئے۔
لاہور میں مون سون کا سلسلہ ہفتے کے روز سے شروع ہوا تھا۔ منگل کا دن اس حوالے سے بد ترین تھا۔ رات کے آخری پہر شروع ہونے والی بارش، وقفے وقفے سے دن بھر جاری رہی۔ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ تھا ، جو متاثر نہ ہوا ہو۔ گلیاں اور بازار جھیل بن گئے تھے۔ بیشتر لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ جنہیں گھروں سے نکلنے کی مجبوری تھی، انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے دریا کا سامنا تھا۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند ہونے سے میلوں لمبی قطاریں لگ گئیں۔ بعض علاقوں میں پانی گھٹنوں سے بھی اوپر تھا۔ چنانچہ پیدل چلنا بھی آسان نہ تھا۔ خواتین اور بچوں کے لیے صورتِ حال اور بھی بد تر تھی۔ شہر میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بجلی کے فیڈر ٹرپ ہو جانے سے صورتِ حال گھمبیر تر ہو گئی تھی۔ 
دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں بھی، غیر معمولی بارش مسائل کا سبب بنتی ہے۔ ہم نے کئی بار ٹی وی پر دیکھا کہ پیرس یا لندن جیسے شہروں میں بھی، غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو پانی سب وے میں داخل ہو گیا اور سروس معطل ہو گئی۔ ایسے میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس غیر معمولی صورتِ حال میں، متعلقہ سرکاری اداروں کی کارکردگی کیا رہی اور انہوں نے عوام کو اس عذاب سے نکالنے کے لیے کتنا وقت لیا؟
ہمارے بہت سے دانشوروں کو خادمِ پنجاب کے طرز حکمرانی سے اختلاف رہا ہے (ہمیں بھی ان میں شامل کر لیں) جن کے خیال میں خادمِ پنجاب کو ہر کام اپنے ذمے لینے کی بجائے، ''تقسیم اختیارات‘‘ کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اس حوالے سے خادمِ پنجاب کا اپنا موقف ہے۔ وہ کسی منصوبے کی بر وقت (بلکہ برق رفتار) تکمیل کے لیے اس میں ذاتی دلچسپی اور ذاتی نگرانی ضروری سمجھتے ہیں۔ لاہور میں گجو متہ سے شاہدرہ تک 30 کلو میٹر طویل میٹرو بس کے منصوبے کی صرف گیارہ ماہ میں تکمیل ان کی ذاتی نگرانی اور ذاتی دلچسپی ہی سے ممکن ہو پائی تھی۔ اس منصوبے میں شریک، ہمارے ترک دوستوں کے لیے بھی یہ حیرت کی بات تھی۔ ان کے بقول یہ انسانوں کا نہیں جِنّوں کا کام تھا۔ اور ہمارے چینی دوستوں نے تو پنجاب میں اپنے منصوبوں کی برق رفتار تکمیل پر ''پنجاب سپیڈ‘‘ کی اصطلاح وضع کر لی تھی۔
مون سون کوئی ناگہانی آفت نہیں کہ زلزلے کی طرح اچانک آ لے۔ خادمِ پنجاب اس کے لیے، ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی سرگرم ہو جاتے تھے۔ واسا سمیت متعلقہ اداروں کی خصوصی میٹنگز ہوتیں۔ مون سون سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی۔ سیوریج ، برساتی نالے اور نالیوں کی صفائی کا اہتمام ہوتا۔ نکاسیٔ آب کے لیے واٹر پمپوں اور پائپوں کا جائزہ لیا جاتا۔ اس کے لیے خصوصی گرانٹ درکار ہوتی تو اس کی فراہمی کا انتظام ہوتا۔ اس سب کچھ کے باوجود غیر معمولی صورتِ حال در پیش ہو جاتی، تو اس کے لیے فوری انتظامات کئے جاتے۔
خادم پنجاب لمبے بوٹ اور ہیٹ پہن کر، سنگین صورتحال والے علاقوں کا رخ کرتے، واسا حکام کو بھی بلا تاخیر پہنچنے کا حکم دیتے۔ خادم پنجاب کے پہنچنے سے پہلے ہی واسا کے پمپ نکاسیٔ آب کا کام شروع کر چکے ہوتے تھے۔
یہ ''تبدیلی سرکار‘‘ کا پہلا مون سون تھا۔ شاید اس بار بھی مون سون سے پہلے ضروری تیاریوں کا اہتمام ہوا ہو، لیکن ایسی کوئی خبر، کوئی پریس ریلیز ہماری نظر سے تو نہیں گزری۔ البتہ یہ خبر ضرور ایک اخبار میں تھی کہ واسا نے مون سون کی تیاریوں کے لیے صوبائی حکومت کو مئی میں گرانٹ کے لیے درخواست دی تھی جو کہیں فائلوں ہی میں دبی رہی۔ یہاں تک کہ 30 جون کو گزشتہ مالی سال ختم ہو گیا اور نیا مالی سال شروع ہونے کے دو ہفتے بعد بھی معاملہ جوں کا توں تھا۔
خادمِ پنجاب بارش زدہ علاقوں کے دورے پر نکلتے تھے، تو ایوان وزیر اعلیٰ میں ان کے جانشین بھی بارش زدگان سے لا تعلق نہیں رہے؛ البتہ ان کا انداز مختلف تھا کہ ان پر خادمِ پنجاب کی نقالی کا الزام نہ آئے۔ یاد آیا، انہیں وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ ایک دیہی علاقے میں پہنچے۔ کسی بزرگ خاتون سے ملاقات بھی ایسے پروگرام کا لازمی ایونٹ ہوتی ہے۔ یہاں بھی یہ اہتمام موجود تھا۔ ان کے ساتھی نے یہ کہہ کر بزرگ خاتون سے بزدار صاحب کا تعارف کرایا: ماں جی! وہ شہباز شریف ہوتے تھے ناں! اب یہ ان کی جگہ لگ گئے ہیں۔ سادا سے اس فقرے پر ہمارے ستم ظریف دوستوں نے طنز و مزاح کے کیا کیا مضامین نہیں باندھے تھے۔
لاہور میں بارش زدگان کی مدد کے لیے بزدار صاحب بھی نکلے‘ لیکن خادمِ پنجاب کی طرح واسا کے لائو لشکر کو ساتھ لینے کی بجائے وہ تنہا تھے اور اپنی گاڑی کو خود ڈرائیور کر رہے تھے۔ انہوں نے بارش میں پھنسے ہوئے بچوں اور خواتین کو اپنی گاڑی میں ان کی منزل تک پہنچایا۔ ایسے ہزاروں مصیبت زدگان میں سے وہ کتنوں کی دستگیری کر پائے، اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ میڈیا میں ایسی ایک ہی تصویر تھی۔ 
خادم پنجاب کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک اور موقع بھی زیادہ دور نہیں۔ برسوں پہلے عید قربان پر شہر میں وہ گند ہوتا کہ خدا کی پناہ۔ قربان ہونے والے جانوروں کی اوجڑیاں اور دیگر ''باقیات‘‘ سڑکوں اور گلیوں میں پڑے رہتے اور اِدھر سے گزرنا محال ہوتا۔ خادمِ پنجاب نے صفائی کا ایسا اہتمام کیا کہ شہر میں کسی جگہ بھی یہ ناگوار صورتِ حال درپیش نہ ہوتی۔ سنا ہے، سرکار کی کفایت شعاری مہم کے باعث لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بھی اچھے حال میں نہیں رہی، جس کے اثرات عید قربان پر بھی نظر آئیں گے۔ شہر میں صفائی کی بد تر صورتِ حال بھی خادمِ پنجاب کی کرپشن کا ایک اور ثبوت ہو گی۔
جناب بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کو گیارہ ماہ ہو چکے لیکن ہم نے شاید ہی کبھی انہیں اپنے تبصرے یا تجزیے کا موضوع بنایا ہو۔ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں لیکن اس میں ان کی کسی کوشش یا خواہش کا کوئی دخل نہ تھا۔ انہوں نے تو کبھی اس کا سوچا بھی نہ تھا۔ وہ ایم پی اے بھی پہلی بار بنے تھے، اور ان کی خواہشوں میں ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ ایم پی اے ہاسٹل میں انہیں ایک کمرہ الاٹ ہو جائے۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ''جتنے منہ، اتنی باتیں‘‘ والا معاملہ تھا۔ کسی نے کہا، ایک پہنچے ہوئے بزرگ نے ان کے دادا کو ان کی آل اولاد میں کسی بڑے منصب کی خوش خبری دی تھی۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسے کسی روحانی اشارے کا نتیجہ قرار دیا۔ لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جناب بزدار اس منصب کے لیے جناب وزیر اعظم کا انتخاب تھے، جو انہیں اپنا وسیم اکرم پلس قرار دیتے ہیں۔ 
پھر بزدار صاحب کی بے اختیاری کے قصے شروع ہوئے۔ کچھ احباب اسے ایک عارضی انتظام قرار دیتے۔ لیکن بزدار صاحب موجود ہیں۔ وزیر اعظم نے فرمایا تھا: جب تک وہ اپنے منصب پر فائز ہیں ، بزدار صاحب بھی اپنے منصب پر فائز رہیں گے۔
آج (جمعرات کو جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے) وزیر اعظم صاحب کی لاہور آمد کی خبر بھی ہے۔ ''دنیا‘‘ کے مطابق، ایوانِ وزیر اعلیٰ میں جناب وزیر اعظم کے خیر مقدم کے لیے، گلاب، موتیا اور گل دائودی سمیت مختلف اقسام کے 50 ہزار پھولوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ جناب وزیر اعظم انہیں وسیم اکرم پلس کہتے ہیں، ہمارے خیال میں انہیں خادمِ پنجاب پلس کہنا بھی بے جا نہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved