کیا حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والوں
کے خلاف بھی کارروائی ہوگی؟ مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کیا حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی؟‘‘ جو کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو لیک ہونے سے زیادہ اور بڑا جرم ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جج کی ویڈیو کو چھوڑے اور حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر کوئی انکوائری کمیشن بنائے ‘تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور دودھ ہمیں دے دے اور پانی کا پائپ اپنی طرف کر کے چلا دے‘ جبکہ میں نے فی الحال مختلف اضلاع میں تحریک کی خاطر باہر نکلنے سے انکار کر دیا ہے‘ کیونکہ میرا باہر نکلنا کوئی معمولی بات نہیں‘ کیونکہ میرے میک اپ پر ہی ہر بار ساٹھ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور ابھی میں نے جج ویڈیو والا مقدمہ بھی بھگتنا ہے اور وکیلوں کو فیسیں بھی ادا کرنی ہیں‘ جس کے لیے کفایت شعاری بیحد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز میاں طارق کی گرفتاری پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے اظہار ِخیال کر رہی تھیں۔
محرم کے بعد اسلام آباد لاک ڈائون ‘
حقیقی جمہوریت لائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''محرم کے بعد اسلام آباد لاک ڈائون‘ حقیقی جمہوریت لائیں گے‘‘ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکومت سمجھ جائے اور میرے ساتھ معاملات طے کر لے اور اس آسان راستے کو چھوڑ کر مشکل راستہ اختیار کرنے سے احتساب کرے ‘جس میں اس کا اپنا ہی فائدہ ہے‘ اور یہ میری آخری دھمکی ہے اور اگر اب بھی کچھ نہ کیا گیا‘ تو حکومت ہاتھ ملتی رہ جائے گی‘ جبکہ ہاتھ ملنے کے لیے نہیں‘ بلکہ ضرورتمندوں کی مدد کے لیے ہوتے ہیں اور ہاتھوں کے غلط استعمال سے بڑھ کر نا مناسب کارروائی اور کوئی نہیں ہو سکتی‘ نیز ان کے ذریعے ہاتھ کی صفائی کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے ‘جسے ہاتھ کرنا بھی کہتے ہیں‘ جبکہ ہاتھ کا میل بھی بڑے کام کی چیز ہے‘ جسے وہ میرے بارے استعمال کر کے مجھ سے سرخرو ہو سکتی ہے‘بجائے اس کے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے‘ جبکہ خیرات اس طرح کرنے کا حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے کی جائے تو دوسرے کو پتا نہ چلے۔ آپ ڈیرہ اسماعیل خان میں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
بے نامی جائیدادوں سے زرداری کا کوئی تعلق نہیں: مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''بے نامی جائیدادوں سے زرداری کا کوئی تعلق نہیں‘‘ اور یہ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے ‘جیسے فالودہ والوں اور پکوڑے وغیرہ بیچنے والوں کے اکائونٹ میں کروڑوں روپے جمع ہو گئے تھے اور انہیں اس کا علم ہی نہیں تھا اور جب زرداری صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا‘ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ یہ اللہ میاں کی دین ہے اور اللہ میاں نے اپنا ایک چھپّر آپ پر بھی پھاڑ دیا ہے تو ان کا غصہ رفع ہوا ۔ اس لیے اس پر اعتراض کرنا ‘اللہ میاں کے کاموں میں براہ راست مداخلت ہے ‘جس سے حکومت وغیرہ کو باز رہنا چاہیے اور میرا مشورہ ہے کہ اللہ میاں کے غیظ و غضب کو دعوت نہیں دینی چاہیے اور اس کی بجائے اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور ایسے ایک آدھ چھپّر کے پھٹنے کی اپنے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
عزیز و محترم حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں یہ شعر نقل کیا ہے ؎
زیر زمیں بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
اس کا پہلا مصرعہ محلِ نظر ہے‘ جس میں دوسرے مصرعے کے مقابلے میں ایک رُکن کم ہے‘ جس سے یہ بے وزن ہو گیا ہے۔ یہ ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے‘ کیونکہ حسن نثار خود ایک صاحب ِ کتاب شاعر ہیں اور ان کی زبان یا قلم سے کوئی بے وزن مصرعہ نکل ہی نہیں سکتا‘ اسے اگر اس طرح لکھا جائے تو مصرعہ رواں بھی ہو جاتا ہے اور اس کا وزن بھی پورا ہو جاتا ہے ع
کچھ زیر زمیں بھی روشنی ہو
اور‘ اب آخر میںاقتدارؔ جاوید کی یہ نظم پیش خدمت ہے:
کسی درد سے مٹی لبریز ہے
گڑے ہیں ہزاروں برس سے یہیں پر / نہ گھڑیال میں جادوئی ہند سے ہیں / نہ نورنگی صُبحوں / طلسماتی شاموں کا میلا نشاں ہے / اُفق کے کنارے /پھٹے اور سکڑتے ہوئے ایک بے رنگ کپڑے کی صورت / وہاں جھولتے ہیں / جہاں ہم نے مل کر / سُہانے زمانوں کے ہمراہ / ننھے پرندوں سے نغمے سنے تھے / ہوائوں کو اُڑنا سکھایا / سکھایا تھا شفاف پانی کو چلنا / نشیبوں کی جانب / ستاروں کو دیکھا / انہیں مستقر اُن کا پہلا دکھایا / وہ صورت دکھائی / جہاں روشنی کو بالآخر ٹھہرنا تھا / خیمہ فلک کا اٹھایا / زمیں کو بچھونے کی صورت بچھایا / ابھی وقت / آنکھوں کی روشن تہوں میں پڑا تھا / اگر ایک آنسو ٹپکتا زمیں پر / یہاں وقت آغاز کرتا سفر کا / ہوا اپنے دامن میں / آنسو کو لے کر نکلتی / کسی درد سے مٹی لبریز ہوتی / ہزاروں یگوں بعد / پھُوٹا ہے اک اور آنسو / نگاہوں کی تاریک تہہ سے / کسے یہ لرزتا ہوا ایک آنسو دکھائیں / دکھائیں / کہاں جا کے اس کو بہائیں!
آج کا مقطع
کاروبارِ شوق جب تک گرم ہے زیر فلک
باغ میں پریاں‘ ظفرؔ‘ جنگل میں آہو آئے گا