کسی نے لکھا تھا‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تیسری دنیا کے ممالک میں لوٹ مار اور مل جل کر کھانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے کہ حاکموں کی مدد سے پہلے ایسے معاہدے کرو ‘جو وہاں کے لوگوں کو فوری طور پر سمجھ میں نہ آئیں ‘ پھراس معاہدے کو سخت شرائط کے ساتھ باہمی دستخطوں سے پابند کرنے کے بعد اس پر کام شروع کر دو ‘پھر اپنے ہی کسی مقرر کردہ کسی شخص سے اس کے خلاف ملک کے اندر سے ہی اس قدر سخت اور اونچی آوازیں اٹھوائو کہ حکومت وقت گھبرا جائے اور پھر قانونی شکنجہ کس دو کہ اسے وہ معاہدہ ہی ختم کرنا پڑ ے اور پھر اس معاہدے کو ورلڈ بینک کے عالمی مصالحتی ٹربیونل میں لے جا کر اس وقت تک خرچ ہونے والی رقم کا دس گنا بطورِ ہرجانہ مانگ لو۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ریکو ڈک کے حوالے سے کیا گیا ۔
قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے وطن ِ عزیز پر ریکوڈک معاہدے کے خلاف ٹیتھیان کے عالمی عدالت میں دائر کیس( ICSID)کے فیصلے کے نتیجے میں 6 ارب ڈالر جرمانے کا ایک اور پہاڑ لاد دیا گیا ۔ 6 ارب ڈالر کا یہ بوجھ کس کی ضد اور خود غرضی نے لادا۔ اس میں کون کون شامل رہا؟ وطن ِ عزیز کی معیشت پر کس کے کہنے پر 2011ء میں اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے کلہاڑا چلایا‘ ان سب کرداروں کو جنہوں نے ملکی معیشت میں نقب زنی کی‘ چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں‘ ایک ایک کر کے کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا‘ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ ان نقب زنوں سے ایک ایک پائی وصول کرنے کیلئے آتش نمرود میں کون چھلانگ لگائے گا؟ اگر کسی کو وہ چہرے نظر نہیں آتے تو ان کے چڑھائے گئے نقاب اتار نے کی ہمت میں کرتا ہوں۔
اب تک جتنے بھی میگا کرپشن کیسز سامنے لائے جا چکے ہیں‘ یہ ان سے زیا دہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ یہ اربوںڈالر کا کھیل ‘جس نے بھی کھیلا‘ وہ رتی برابر بھی رعایت اور رحم کا مستحق نہیں۔ نوکنڈی کے شمال مغرب میں واقع ریکوڈک ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے ‘جو ایران اور افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے‘ ریکو ڈک کے اس علاقے کو SANDY PEAK بھی کہا جاتا ہے ‘جہاں عالمی رپورٹ کے مطا بق دنیا کا پانچوں بڑا سونے اور کاپر کا ذخیرہ موجو دہے ۔سب سے پہلے چلتے ہیں‘نواز لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے انگریزی اخبارکے ایک سینئر رکن کی طرف‘ جس کے ایک ایک حرف کی میاں نواز شریف اور ان کی فیملی آج قصیدے گاتے نہیں تھکتے اور جو گزشتہ تین برسوں سے اپنے ہر مضمون میں عمران خان کے کڑاکے نکالنے کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتا۔ اس نے اپنے قلم سے6 دسمبر2014 ء کو اپنی فائل کی گئی خصوصی سٹوری میں لکھا تھا '' سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف حکومت کو کس قسم کی جلدی ہے کہ وہ اربوں ڈالرز ریکو ڈک گولڈ اینڈ کاپر مائنز کے حوالے سےDiscredited and ousted کینیڈین اور چلی کے مائننگ کنسورشم کو ادا کرنے جا رہی ہے؟‘‘آج میری قوم کا ایک ایک بچہ ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں‘ریلوں‘ بسوں اور سڑکوں پر انہی کی وجہ سے مصیبتیں اور تکلیفیں سہہ رہا ہے۔ ارسلان افتخار چوہدری کو2014ء میں نہ جانے کس کے کہنے پربورڈ آف انویسٹمنٹ بلوچستان کا وائس چیئر مین مقرر کرتے ہوئے سونے اور کاپر کی کانوں کے ذخیرے ریکو ڈک کے معاملات میں شامل کیا ۔اس تعیناتی پر جب اس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض اٹھایا تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے بلوچستان اسمبلی کو بتایا کہ ہم نے (مرکزی حکومت) نواز شریف کی سفارش پر ارسلان افتخار چوہدری کو ریکو ڈک کے معاملات سنبھلانے کیلئے بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ کا وائس چیئر مین مقرر کیا ہے‘ لیکن افسوس کہ اتنا کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ اپنی30 جون2014ء کی اشاعت میں صفحہ آخر پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ دے چکا تھا کہ''ارسلان افتخار چوہدری کو بلوچستان کے سونے کے ذخائر کی رکھوالی سونپ دی گئی ہے ‘‘اور یہ وہی سونے کی کانیں ہیں‘ جن کے مختلف کمپنیوں کو دیئے جانے والے کنٹریکٹ افتخار چوہدری نے بحیثیت چیف جسٹس سو موٹو لیتے ہوئے منسوخ کر دیئے تھے اور ارسلان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس سونے کی تلاش کیلئے بیرونی سرمایہ کار تلاش کرے۔اس بات کافیصلہ کون کرے گا کہ چھ ارب ڈالر کا یہ جرمانہ اور وہ اربوں ڈالر جو افتخار چوہدری کے فیصلے کی نذر ہو گئے‘ اب کس سے سے وصول کیے جائیں؟ ہماری دھرتی ماں جھولی پھیلائے اس سوال کا جواب مانگ رہی ہے کہ میرے بچوں کے آگے رکھا ہوا رزق کس نے چرایا؟انسانوں نے یاپھر کسی اور نے ؟
ریکوڈک میں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے 29 جولائی1993ء کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنیBHP کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ‘جس کے تحت ریکوڈک پراجیکٹ کی آمدنی کے25% کا حکومت بلوچستان اور75% کاBHPکو حق دار بنایا گیا۔کچھ لوگ آج اعتراض کر رہے ہیں کہ اس وقت منافع کی یہ شرح جان بوجھ کر کم رکھی گئی ہے اس پر کوئی رائے دینے سے پہلے 1999ء میں دنیا بھر میں مائننگ کے عالمی ریٹس پر نظر ڈالیں تو ترقی یافتہ ملک33%مشرقی ایشیاء 32%لاطینی امریکہ27% ‘مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ26%مشرقی یورپ اور سینٹرل ایشیائ10% اور مجموعی طور پر دوسرے ملکوں میں28%ہے ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے پاکستان میں یہ شرح اس وقت بہت ہی مناسب تھی‘ جس کا موازنہ ''profit Sharing between Government and Multinationals in Natural Resources Extraction: سے کیا جا سکتاہے۔ اس وقت بلوچستان کی نگران صوبائی حکومت کے بعد اکتوبر1993ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب نئی سیا سی حکومت آئی تو اس نے ریکو ڈک کے اس منصوبے میں عدم دلچسپی شروع کر دی ۔اس کا کہنا یہ تھا کہ ان کی حکومت کے پاس تو اس منصوبے کیلئے فنڈز ہی نہیں۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس پراجیکٹ پر کام بند ہو جائے گا‘ لیکن آسٹریلین کمپنی کے ساتھ نگران حکومت کے کئے گئے معاہدے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اگر فنڈز نہیں ہو ں گے تو آسٹریلین کمپنی یہ اخراجات خود برداشت کرے گی‘ لیکن اس کے عوض آسٹریلین کمپنی کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ حکومت بلوچستان سے یہ رقم مع سود لندن انٹر بینک ریٹ بمع دو فیصد وصول کرے۔ 1993ء میں بلوچستان مائننگ قوانین کے تحت کئے گئے اس معاہدے میں سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے چاغی کا تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا علا قہ شامل کیا گیا ۔ فروری2005ء میں اس معاہدے کی تجدید کی گئی اور تین سال بعدفروری2008 ء میں پھر اس کی تجدید کی گئی ‘جس کی میعاد19-2-2011 کو ختم ہو رہی تھی‘ لیکن کام کی رفتار ابھی تک وہیں تھی اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک بار پھر اس معاہدے کی تجدید ہو گی۔ BHP نے1994ء میں جب یہاں کام کا آغاز کیا تو اسے ایک ہزار کلومیٹر کا علاقہ دیا گیا‘ لیکن ٹی سی سی کی انتظامیہ صرف435مربع کلو میٹر میں کام کرنے کے بعد وہاں کے ہوشربا ذخائر سے اپنے حواس کھو بیٹھی ۔اس کمپنی کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق ‘یہاں سے22بلین پائونڈ کاپر اور13ملین اونس خالص سونے کے پچاس سال تک کے ذخائر موجود ہیں۔ 29جولائی1993ء کے معاہدے کے بعد تکنیکی آغاز کرتے ہوئے جیالوجیکل سروے اور ڈرلنگ پر آسٹریلین مائننگ کمپنی نے اپنا کام شروع کر دیا (جاری)