وزیر اعظم عمران خان کے دورئہ امریکہ سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا عمل شروع ہو گا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دورے سے خارجہ پالیسی کے ایجنڈے اور حکمت عملی کے اختلافات کم ہو جائیں گے۔اس دورے سے دونوںممالک اپنے باہمی مفادات کے مخصوص شعبوں میں مل کر کام کرنے کے لئے مشترکہ امکانات تلاش کر سکیں گے۔
جنوری 2017ء میں صدرٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات تنزلی کا شکار رہے ہیں۔صدرٹرمپ کے غیر محتاط ٹویٹس اور وزارت خارجہ کی طرف سے سرکاری سطح پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی‘ دونوں ہی باہمی تعلقات میںکشیدگی کا باعث بنتے رہے ہیں ۔ ٹرمپ حکومت کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالرز امداد دی مگر اس نے انسداد دہشت گردی کی امریکی پالیسی میں کوئی کردار ادا نہیںکیا۔ نیز یہ کہ اس نے ان گروپوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھے جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔امریکہ نے معاشی تال میل میں کمی کر دی جب کہ عسکری وفود کے تبادلے اور ٹریننگ پروگرامز کا سلسلہ معطل کر دیا گیا؛ اگرچہ دوحہ میں قائم امریکہ کی سنٹرل کمانڈ نے افغانستان میں اپنے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے پاکستانی افواج کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز قائم رکھے۔
پاکستان اور امریکہ دونوں کا مشترکہ ہدف تھا کہ پاک افغان سرحدی علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔دونوں نے اس مشترکہ مقصد کے حصول کیلئے مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان اس کی طے کردہ انسداد دہشت گردی کی ترجیحات پر عمل کرے جبکہ امریکہ کے سکیورٹی خدشات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کے پالیسی ساز وںکے پیش نظرعلاقائی ،سیاسی خصوصاً افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی حرکیات Dynamicsکے طویل مدتی تقاضے تھے۔ پاکستان کے طویل مدتی علاقائی سکیورٹی اور استحکام کے خدشات کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے جس عدم حساسیت کامظاہرہ کیا گیا اس کی بدولت افغان مسئلے کے حل کی اپروچ میں دونوں ممالک میںایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی تھی۔ امریکہ نے کوشش کی کہ پاکستان کو سائڈ لائن کر کے بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان کا من پسند حل نکالے ۔
یہ وہ پس منظر تھا جس کی بدولت امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان سے مطالبہ کرتا تھا کہ وہ ان گروپوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرے جو مبینہر پر پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ٹرمپ حکومت اور پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغانستان پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا۔ امریکہ کو ادراک ہو گیا کہ پاکستان کو بائی پاس کیا جا سکتا ہے نہ اسے امریکہ کی وضع کردہ انسداد دہشت گردی ترجیحات کے آگے سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان نے بھی دو حوالوں سے اپنی ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اول: غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ امریکہ کیساتھ مذاکرات کریں۔پاکستان نے مذاکرات سے الگ تھلگ رہتے ہوئے دوحہ بات چیت میں سہولت کار کا کردار بھی ادا کیا ۔اسی طرح اس نے افغانستان کے داخلی بحران کے حل کیلئے روس اور چین کی کوششوں میں دست تعاون بڑھایا ؛ تاہم روس اور چین کی طرف سے شروع کئے گئے مذاکراتی عمل میں پاکستان نے بات چیت کی تفصیلات سے فاصلہ بنائے رکھا۔ دوم: پاکستان نے ان عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے خلاف بیباک پالیسی اختیار کی جو ماضی میں یہاں متحرک رہ چکے تھے ۔پاکستان کی اس پالیسی میں حساس تبدیلیوں اور امریکہ کی پاکستان کو افغان مسئلے کے حل کے عمل سے باہر کرنے میں ناکامی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ پاکستان اور امریکہ باہمی مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہو گئے ہیںتا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور اسکے بعد وہاں دیر پا امن کے قیام کیلئے تعاون پر مبنی حکمت عملی وضع کی جائے۔
اس وقت پاکستان ایک علاقائی اپروچ کا حامی ہے جس میں افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے امریکہ ،روس ،چین کواہم ضمانتی کے طور پر شامل کیا جائے۔اس سلسلے میں پاکستان افغانستان اور امریکہ کو ایک واضح اشارہ دے چکا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ بہتر تجارتی اور معاشی تعلقات کیلئے کام کرے گا۔اس وقت پاکستان افغانستان کے ساتھ ایسے انتظامات کرنے کیلئے مصروف عمل ہے کہ طورخم کے پاک افغان بارڈر کو تجارتی مقاصد کیلئے چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے ۔پاکستان نے افغانستا ن کی معاشی تعمیر نو کیلئے اپنی پالیسی کا بھی اعادہ کیا ہے ۔پاکستان نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت میں ایک سال یعنی 30جون 2020ء تک توسیع کر دی ہے ۔
پاکستان کی فارن اور سکیورٹی پالیسی میںربط اور سنجیدگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت فارن اور عسکری امور میں سویلین اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ وہ باقاعدگی سے ایک دوسرے سے مشاور ت کرتے ہیں جس کی بدولت ہمارا فارن آفس اپنی خارجہ پالیسی پر موثر طریقے سے عمل کر سکتا ہے ۔ چونکہ پاکستان کے داخلی اقتصادی مسائل سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں جو ہماری داخلی اور خارجی سلامتی کیلئے شدید مضمرات رکھتے ہیں اس لئے پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لئے سویلین حکومت اور عسکری قیادت دونوں ملکی وسائل کی تقسیم میں باہمی تعاون کر رہے ہیں ۔
عمران خان زیادہ مستحکم پوزیشن میںامریکہ جا رہے ہیں کیونکہ حکومت نے اپنی ایک نئی افغان پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جو امریکہ، روس اور چین کے مستقبل کے ایجنڈے سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ امریکہ افغان طالبان کے ضمن میں پاکستان سے ایساتعاون چاہتاہے جس سے کسی طرح افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا بندو بست ہو جائے ۔وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں داخلی امن و استحکام کیلئے افغان طالبان اور کابل حکومت میں بات چیت شروع ہو جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے کوئی امن معاہدہ ہو جائے۔ وہ اپنی زیادہ تر فوج 2020ء کے آغاز میں نکالنے کا خواہشمند ہے۔ اس طرح صدرٹرمپ کو 2020ء کی صدارتی الیکشن کی مہم میں یہ نعرہ لگانے کا موقع مل جائے گا کہ وہ امریکی افواج کو واپس لے آئے ہیں۔
پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی ،ملٹری اور معاشی تعلقات کی بحالی چاہتا ہے ۔پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ عسکری سپلائیز اور ٹریننگ پروگرامز کا سلسلہ بحال ہو جائے ۔امریکہ کے عسکری حلقے بھی اس حق میں ہیں۔اس وقت پاکستان چین اور روس سے اسلحہ خرید رہا ہے۔ امریکہ چاہے گا کہ پاکستان کے روس کے ساتھ کبھی ایسے گہرے تعلقات نہ استوار ہوں کہ وہ اسلحہ سپلائیز کا اہم ذریعہ بن جائے۔
اس دورے میں پاکستان کی ایک اور دلچسپی بھی مضمر ہے ۔پاکستان چاہے گا کہ امریکہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کرے۔اب تک امریکہ نے بھارت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھانے سے گریز کیا ہے ۔اس کا زیادہ تر فوکس بھارت کے ساتھ معاشی اور سکیورٹی تعاون بڑھانے پر ہی رہا ہے ۔وہ چین سے نمٹنے کیلئے بھی بھارتی تعاون کا خواست گار ہے ۔اگر امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے امن و استحکام میںزیادہ متحرک سہولت کاری کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کے لئے اقدامات کرے۔ اس کے بعد پاکستان افغان مسئلے کے پر امن حل میںکہیں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کے قابل ہو گا۔
اگرچہ امریکی وزارت خارجہ عمران خان صاحب کے اس دورے کی وجہ سے ایک ناخوشگوار صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ وہ محسوس کرتی ہے کہ وائٹ ہائوس نے اس سلسلے میں اسے اعتماد میں نہیں لیا ؛ تاہم اس دورے سے نہ صرف یہ کہ پاک امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین ہو گا بلکہ اس سے افغانستان میں امن و استحکام کے امکانات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے ۔پاکستان ایک غیر جانب دار پیس میکرPeace Maker کا کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے ۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ افغانستان میں امن کے قیام کے اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو پاکستان اور امریکہ دونوںکے لئے مساوی فائدہ مند ہوگا۔