تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-07-2019

جنریشن گیپ

دو نسلوں کے درمیان فرق ہر معاشرے کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اور معاملہ دو نسلوں کے فرق کا نہیں‘ بلکہ نئی اور پرانی نسل کی سوچ کے درمیان پائے جانے والے فرق کا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے لازم ہے کہ نئی اور پرانی نسل کے درمیان تعلق متوازن ہو‘ ڈھلتی ہوئی نسل ابھرتی ہوئی نسل کو کچھ نہ کچھ سکھانے پر مائل ہو اور ابھرتی ہوئی نسل بھی کچھ حاصل کرنے پر آمادہ ہو۔ نئی نسل پرجوش اور جذباتی ہوتی ہے۔ اس کے لیے سب کچھ نیا نیا ہوتا ہے‘ اس لیے وہ بہت سے معاملات میں اس قدر دلچسپی لیتی ہے کہ اُن میں گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ جن کی رگوں میں گرم خون رواں ہو وہ بیشتر معاملات میں جذباتیت اور عجلت پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور اچھے برے میں تمیز کا شعور کم ہی رکھتے ہیں۔ 
پرانی یا ڈھلتی ہوئی عمر کی نسل بہت سے معاملات میں غیر معمولی حد تک تجربہ کار ہوتی ہے اور اچھی طرح جانتی ہے کہ کس وقت کیا کرنا چاہیے۔ یہ نسل دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی‘ برتنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ اُس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھا جانا چاہیے مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل عجلت پسند ہوتی ہے اور خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں ہو پاتی۔ یہ بات پرانی نسل کے لیے خاصی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ پرانی نسل چاہتی ہے کہ نئی نسل کچھ سیکھنے کے حوالے سے ذہن بنائے‘ سنجیدہ ہو۔ جب دونوں نسلیں اس حوالے سے ایک پیج پر آنے میں ناکام رہتی ہیں تب بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ نئی نسل نے بہت کچھ دیکھا اور جھیلا ہوتا ہے۔ زمانے کے سرد و گرم کا سامنا کرنے کے بعد جب وہ کسی مقام تک پہنچتی ہے تب چاہتی ہے کہ اُس کی حیثیت تسلیم کی جائے اور اُس سے کچھ پانے کے لیے ویسی ہی سنجیدگی دکھائی جائے جیسی اُس میں پائی جاتی ہے۔ وقت کے ہاتھوں جو کچھ سہنا پڑتا ہے اُس سے نبرد آزما ہونے کے بعد پرانی نسل چاہتی ہے کہ نئی نسل کو اگر کچھ سیکھنا ہے تو مطلوب نوعیت کی لگن کا مظاہرہ کرے‘ چند ایک معاملات میں ایثار کا مظاہرہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو۔ 
دو نسلوں کا فرق دور کرنے کے لیے جس نوعیت کی سوچ درکار ہوتی ہے وہ کسی بھی معاشرے میں خاطر خواہ حد تک نہیں پائی جاتی۔ دونوں نسلوں کی طرزِ فکر کسی بھی اعتبار سے یکساں ہو ہی نہیں سکتی۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ پرانی نسل کے لوگ اُس کی طرح تیزی اور شوخی اپنائیں‘ بیشتر معاملات میں بھرپور توانائی اور زندہ دلی کا مظاہرہ کریں۔ دوسری طرف پرانی نسل اس بات پر بضد رہتی ہے کہ نئی نسل زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہنر سیکھنے میں فکر کی غیر معمولی پختگی کا مظاہرہ کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ دو نسلوں کے درمیان پائے جانے والے سوچ کے فرق کو کم کیسے کیا جائے؟ یہ فرق ختم کرنا تو خیر ممکن ہی نہیں‘ اب کم کرنا بھی بہت دشوار ہوگیا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ ہر دور میں دو نسلوں کے درمیان خلیج کو وسیع اور مزید گہرا کرنے میں متعدد عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سوچ کا فرق محض نسل کے فرق سے پیدا نہیں ہوتا۔ یہ فرق پیدا کرنے میں علوم و فنون کی ترقی‘ عملی زندگی کے حوالے سے پائے جانے والے متعدد میلانات اور بہت سے معاشرتی رجحانات بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پرانی نسل بہت سے معاملات میں جامد سوچ کی حامل ہوتی جاتی ہے۔ وہ بیشتر امور میں اپنی بات منوانے پر یقین رکھتی ہے۔ اُس کی ضد ہوتی ہے کہ اُس کی رائے درست تسلیم کرلی جائے۔ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر غیر معمولی درجہ یا حیثیت چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی سوچ کا ہے۔ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد چاہتے ہیں کہ جب وہ کوئی بات کہیں تو بلا چُوں چَرا بالکل درست تسلیم کرلی جائے‘ اُن کے تجربے کو کسی بھی سطح پر اور کسی بھی حوالے سے چیلنج نہ کیا جائے۔ نئی نسل کے مزاج میں لاپروائی بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ ابھرتی ہوئی عمر میں شعور کی پختگی ممکن نہیں۔ قویٰ چونکہ توانا ہوتے ہیں اس لیے بیشتر معاملات میں بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ نہ صرف یہ کہ ممکن ہوتا ہے بلکہ باعثِ افتخار بھی سمجھا جاتا ہے۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی کرے بھرپور جوش و خروش کے ساتھ کرے اور اس حوالے سے اس پر کوئی پابندی عائد نہ کی جائے۔ یہ نسل اپنے بیشتر معاملات میں لگی بندھی سوچ کو اپناتی ہے نہ ہی نظم و ضبط کو خاطر میں لاتی ہے۔ یہ عمومی طرزِ فکر و عمل جوانی کے پورے دور پر محیط ہوتی ہے۔ 
کامیاب وہی معاشرے رہتے ہیں جو دو نسلوں کی طرزِ فکر و عمل میں پائے جانے والے فرق کو سمجھنے اور اُس کے مطابق معقول حکمتِ عملی مرتب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے اگر منظم اور مضبوط ہوں تو نئی اور پرانی نسل کے فرق میں پائے جانے والے منفی پہلوؤں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ نئی نسل کو جس نوعیت کی آزادی درکار ہوتی ہے وہ اُسے دی جاتی ہے مگر چند حدود میں رہتے ہوئے۔ پرانی نسل اپنی ذمہ داری کو بہتر سمجھتی ہے اور اس حوالے سے جو کچھ بھی کرنا چاہیے وہ بہ رضا و رغبت اور بحسن و خوبی کرتی ہے۔ 
آج کا پاکستانی معاشرہ جنریشن گیپ کے حوالے سے غیر معمولی مشکلات کا شکار ہے۔ سب سے بڑا یا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دونوں ہی نسلوں کو اپنے وجود‘ دائرۂ کار اور ذمہ داریوں کا بھرپور احساس نہیں۔ پرانی نسل غیر معمولی تجربہ رکھتی ہے‘ اس کا مشاہدہ بھی خوب ہے مگر وہ نئی نسل کو کچھ سکھانے میں خاطر خواہ دلچسپی لیتی ہے نہ معاشرے کو مضبوط بنانے کے حوالے سے اپنے کردار کی اہمیت ہی محسوس کرتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری پرانی نسل انفرادی اور اجتماعی سطح پر اُس برد باری کی حامل نہیں جس کی اُس سے توقع رکھی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں پرانی نسل اپنی ذمہ داریوں کو شدت سے محسوس کرتی ہے اور اُسی کے مطابق موزوں طرزِ فکر و عمل بھی اپناتی ہے۔ ہمارے ہاں مجموعی طور پر ایسا نہیں ہے۔ بڑی عمر کے فرد کو اپنے اہلِ خانہ‘ خاندان‘ اہلِ علاقہ اور اس سے آگے بڑھ کر پورے معاشرے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ اس میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ معاملات کو نمٹانے کے حوالے سے اسے جس قدر ثابت قدمی دکھانی چاہیے وہ بھی نہیں دکھائی جارہی۔ نئی نسل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی لایعنی باتوں میں الجھ کر‘ غرق ہوکر رہ گئی ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر میں ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے ہماری نئی نسل کو مست و غافل کر رکھا ہے۔ سارا کا سارا وقت بے مصرف ویڈیوز دیکھنے اور غیر ضروری طویل کالز کرنے میں ضائع ہو رہا ہے۔ ایسے میں اُس کے سنجیدہ ہونے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ 
نئی اور پرانی نسل کے فرق کو قابلِ قبول بنانے کے حوالے سے جن اقوام کو بہت زیادہ محنت کرنی ہے اُن میں پاکستان بھی نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں نئی نسل کو مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہونا ہے اور پرانی نسل کو بہت سے معاملات میں حقیقی برد باری اپنانی ہے تاکہ معاملات کی درستی یقینی بنائی جاسکے۔ اس مقصد کا حصول غیر معمولی توجہ اور بھرپور محنت کا طالب ہے۔ نئی نسل کو سیکھنے پر مائل ہونا ہے اور پرانی نسل کو جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کیے بغیر سکھانے پر آمادہ ہونا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved