تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-07-2019

اللہ خیر کرے!

شیخ رشید صاحب کی ساری شخصیت اور ذات صرف اور صرف ان کی زبان پر مشتمل ہے۔ ان کی ذات میں سے ان کی زبان کا کرشمہ یعنی جملے بازی اور حاضر جوابی نکال دیں تو باقی جو بچتا ہے وہ صفر بٹا صفر۔ بقول چوہدری بھکن اگر یہ والی دو خوبیاں نہ ہوں تو انہیں جمعہ بازار میں بھی کوئی گاہک نصیب نہ ہو۔ یہ بات تو ہے کہ وہ میڈیا فیورٹ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کے وقت شاید آج کے دور کے میڈیا کو مد نظر رکھ کر ہی ان کی شخصیت کی تکمیل کی ہو گی۔ وہ ''ون مین آرمی‘‘ ہیں اور اکیلے ہی مخالفین کے دو چار برگیڈ ''پھڑکانے‘‘ اور چار چھ بٹالین رگیدنے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ لیکن وہ زبانی توپ چلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے۔ جن باتوں پر وہ دشمنوں اور مخالفوں کو چاروں شانے چت کرتے ہیں ان باتوں کا وہ خود رتی برابر نہ تو اثر لیتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہیں۔ ماضی کو چھوڑیں، حالیہ ٹرین حادثے کو ہی سامنے رکھ لیں تو صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔ ان کی وزارت کی بنیادی ذمہ داری ریلوے کا آپریشن ہے۔ اس کو نفع بخش بنیادوں پر، مسافروں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے محفوظ طریقے سے چلانا ہی ان کی واحد ذمہ داری ہے اور وہ اس ذمہ داری کے تینوں حصوں کو تقریباً تقریباً بد ترین طریقے سے چلا رہے ہیں۔ ریلوے گھاٹے میں ہے، مسافر خوار ہو رہے ہیں اور حادثے حسبِ معمول جاری و ساری ہیں۔ لیکن شیخ رشید صاحب کی پھلجھڑیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ اب اس پر رویا جائے یا ہنسا جائے‘ یہ آپ پر منحصر ہے۔ سو ہر طرف کی خراب صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے، دل نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو انجوائے کر لیا جائے تو کیا حرج ہے؟ قوم کے پاس اب انجوائے کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور بچا ہی کیا ہے؟
عمران خان صاحب کے دورۂ امریکہ اور وہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے طے شدہ ملاقات کے حوالے سے شیخ رشید نے فرمایا کہ ''عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج ایک جیسا ہے، اللہ خیر کرے‘‘۔ اس پر ایک بہت پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ اپر پنجاب کے ایک چھوٹے سے گائوں سے صرف ایک لڑکا فوج میں تھا۔ ویسے فوج میں ہونا بھی خالی خولی چودھراہٹ ہی تھی کیونکہ وہ فوج میں ''لانگری‘‘ تھا۔ لانگری دراصل فوج کے ''دارالمطبخ‘‘ سے متعلقہ فرد کو کہتے ہیں۔ دارالمطبخ سے مراد فوج کا شعبہ خور و نوش یا باورچی خانہ سمجھ لیں۔ وہ وہاں روٹیاں لگاتا تھا۔ اس کا نام آپ کچھ بھی فرض کر لیں مثلاً غلام محمد۔ غلام محمد کی ماں اماں رحمتے کا بھی گائوں میں روٹیوں والا تنور ہی تھا۔ حجام کی دوکان کی طرح کبھی ہمارے تنور بھی باہمی گفتگو اور تبادلہ خیالات کے بڑے مرکز ہوتے تھے۔ نابغہ شاعر انور مسعود صاحب نے ایک مشہور پنجابی مزاحیہ نظم بھی اسی تنور پر ہونے والی گفتگو کے تناظر میں لکھی ہے۔
اماں رحمتے کا تنور بھی سیاسی، سماجی معاملات اور گائوں کے سکینڈلز پر گفتگو کا مرکز تھا؛ تاہم متوقع جنگ سے متعلق گفتگو بھی اب لسٹ میں شامل ہو چکی تھی۔ ایک روز کسی خاتون کو خیال آیا کہ اس جنگ کی وجوہات کے بارے میں کسی سے پوچھا جائے اور اس ''کسی‘‘ کا قرعہ فال بھلا اماں رحمتے کے علاوہ بھلا اور کس کا نکل سکتا تھا کہ اماں رحمتے ازخود اب فوج سے وابستہ گائوں ہذا کا واحد فرد تھی کہ اس کا بیٹا غلام محمد فوج میں تھا۔ اب اس سے کسی کو کیا غرض کہ وہاں لڑنے والا سپاہی ہے یا لانگری؟ گائوں والوں کے نزدیک تو وہ بس فوجی تھا اور برطانوی فوج کی طرف سے متوقع جنگ کے خطرے کے پیش نظر اسے اس کی رجمنٹ کے ہمراہ محاذ کی طرف بھیجا جا چکا تھا۔ اس خاتون نے روٹیاں لگوانے کے دوران اماں رحمتے سے پوچھا کہ اماں یہ برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگ ہو گی یا نہیں ہو گی؟ اور ان دونوں کا آپس میں جھگڑا کیا ہے؟ اماں رحمتے جو آٹے کا پیڑہ دونوں ہاتھوں میں گول سا بنا رہی تھی ایک لمحے کے لیے رکی اور کہنے لگی: شیداں تجھے تو پتا ہی ہے کہ میرا غلام محمد بڑا ہی ''کپتا‘‘ (کپتے سے مراد ایسا مغلوب الغضب شخص جو ہمہ وقت لڑنے مرنے پر تیار ہو) ہے اور دوسری طرف سنا ہے جرمنی والوں کی فوج کا کمانڈر کوئی ہٹلر ہے اور وہ بھی رج کے لڑاکا اور ظالم ہے۔ اب ان دونوں کا مزاج بڑا ہی گرم ہے میں تو ہر وقت بس دعا ہی کرتی رہتی ہوں کہ اللہ خیر کرے۔
امریکہ میں شفیق، اعجاز بھائی، خالد منیر اور ان کے علاوہ بھی جس دوست سے اس متوقع ملاقات کے بارے میں بات ہوئی تو سب کا خیال وہی تھا جو شیخ رشید نے فرمایا ہے اور جیسا کہ اماں رحمتے نے ہٹلر اور غلام محمد کی طبیعتوں کے بارے میں انکشاف کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان صاحب کے درمیان مزاج کی سب سے اہم قدرِ مشترک تو یہ ہے کہ دونوں کا خیال ہے کہ ان کو ہر چیز کا پتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر بات کو سب سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں اور ان کو کسی چیز کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کی مزید کوئی ضرورت نہیں۔ اسی لا محدود علم کے باعث عمران خان جرمنی اور جاپان کو ہمسایہ ملک سمجھتے ہیں اور ان کی سرحدوں پر لگنے والی انڈسٹری کو ان کے درمیان دوستی کی وجہ گردانتے ہیں۔ اسی تبحر علمی کے باعث رابندر ناتھ ٹیگور کا قول خلیل جبران کے سر تھوپ دیتے ہیں لیکن ان شا اللہ وہ اسی ''سہولت‘‘ کے طفیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نہ صرف دل جیت لیں گے بلکہ گمان ہے کہ وہ انہیں اسی طرح اپنا مرید بنا لیں گے جیسے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ نے ان کو اپنا ایسا مرید کیا ہے کہ کہاں تو پہلے وہ اس سے ملنے پر راضی نہ تھے اور کہاں اب وہ اسے ٹویٹ پر ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔
تاہم میری رب العزت سے دعا ہے کہ ہر دو حضرات اپنے اپنے علم کا خزانہ جب ایک دوسرے پر نچھاور کریں تو موضوعات الگ الگ ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملاقات یقینی طور پر ایک نہایت خوشگوار انجام سے مزین ہو گی اور دونوں صاحبان کے درمیان ایک پکی دوستی کی ابتدا ہو گی لیکن اگر بد قسمتی سے دونوں حضرات کا کسی ایک ہی موضوع پر علمی ملاکھڑا ہو گیا تو پھر شیخ رشید سے لے کر اماں رحمتے تک کے خیال کے مطابق بس یہی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ خیر کرے۔
اس 'اللہ خیر کرے‘ کے درمیان ایسے ہی خیال آ گیا کہ آخر ہمارے فیصلوں کی ٹائمنگ کیوں میرے بیڈ روم کی گھڑی کی طرح سدا خراب رہتی ہے؟ ایف اے ٹی ایف کے دبائو کے بعد ہونے والے فوری اقدامات۔ اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کے بارے میں ہونے والی رائے شماری سے چار چھ دن پہلے کافی عرصہ پہلے سے پابندی یافتہ تنظیموں پر ایک بار پھر پابندی عائد کرنے کی کارروائی اور اب وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے دو چار روز قبل حافظ سعید صاحب کی گرفتاری جیسے واقعات نہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ حکومتی وضاحتیں اس کا مزید مذاق بنوا رہی ہیں۔ ایسے ہر اقدام پر ہمارا حکومتی مؤقف آتا ہے کہ یہ کسی دبائو یا ہدایت کا نتیجہ نہیں بلکہ ہماری روٹین کی کارروائی ہے؛ تاہم دوسری طرف عالمی میڈیا بالکل دوسری بات کر رہا ہوتا ہے۔ اب بھی یہی صورتحال ہے۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ حافظ سعید کی گرفتاری کا وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ جو ٹویٹ کرنے کے بے انتہا شوقین ہیں‘ نے ٹویٹ کیا ہے کہ میرے مسلسل دو سالہ دبائو کے نتیجے میں بالآخر حافظ سعید کو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں اس گرفتاری کو دس سالہ تلاش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مبارک دی۔ اس دس سالہ تلاش کا جملہ استعمال کرنے پر صدر ٹرمپ کی امریکی میڈیا نے جو طبیعت صاف کی وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر فی الوقت میری بھی دعا ہے کہ معاملات بہتر انداز میں چلیں۔ پاکستان پر بڑھتا ہوا عالمی اور امریکی دبائو ختم ہو اور سب سے بڑھ کر ''اللہ خیر کرے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved