ڈیل کیلئے رابطہ کیا گیا‘ میں اور نواز شریف نہیں مانے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی نے کہا ہے کہ ''ڈیل کیلئے رابطہ کیا گیا‘ میں اور نواز شریف نہیں مانے‘‘ کیونکہ ہمیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اتنی خاموشیوں اور جدوجہد کے بعد بھی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی‘ یہ یکا یک اسے کیسے خیال آ گیا؟ ضرور اس میں کوئی گڑ بڑ ہے؛ چنانچہ پیغام لانے والے کو اپنی شناخت بتانے کو کہا گیا ‘جس نے کافی لیت و لعل کرنے کے بعد اپنی شناخت بتائی‘ لیکن ذیل میں ؛چونکہ پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ بھی سارے کے سارے پیسے‘ جس پر ہم نے صاف انکار کر دیا کہ سارے پیسے واپس کر کے ہم کھائیں گے کہاں سے؟ ۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
مریم نواز کی پیشی پر حکومت تھر تھر کانپ رہی تھی: مریم اورنگزیب
سابق وزیر اطلاعات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کی پیشی پر حکومت تھر تھر کانپ رہی تھی‘‘ اور یہ بات مجھے مریم نواز نے خود بتائی تھی کہ حکومت کو تھر تھر کانپتے اس نے خود دیکھا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم جو بات بھی کہیں‘ ہمیں اس کا یقین کرنا پڑتا ہے‘ تاہم میں نے جب حکومت پر نظر ڈالی تو وہ بالکل نارمل تھی۔ شاید اس نے تھر تھر کانپنا چھوڑ دیا تھا ‘کیونکہ آدمی تھوڑے عرصے کیلئے تو تھر تھر کانپ سکتا ہے‘ مستقل طور پر نہیں؛ البتہ ایسا لگ ضرور رہا تھا کہ وہ کانپتی ضرور رہی ہے؛ چنانچہ میں نے اُسے تسلی دلائی کہ حکومت حوصلہ کرے‘ مریم نواز فی الحال اُسے گرانے وغیرہ کا ارادہ نہیں رکھتیں‘ کیونکہ وہ ویڈیو کیس میں بیحد مصروف ہیں اور بیک وقت دو کام نہیں کر سکتیں کہ مقدمہ بھی بھگتیں اور حکومت کو بھی گرائیں ‘جس پر حکومت نے سُکھ کا سانس لیا اور میرا شکریہ بھی ادا کیا۔ بس اتنی سی بات تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کارکنوں کی گرفتاری پر مذمتی بیان دے رہی تھیں۔
عمران خان پر بلاول بھٹو زرداری کا خوف طاری ہے: مولا بخش چانڈیو
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''عمران خان پر بلاول بھٹو زرداری کا خوف طاری ہے‘‘ کہ وہ جیل میں والد صاحب کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک نہ چلا دیں‘ کیونکہ جیل میں زرداری صاحب کی قیدیوں سے راہ و رسم کافی پرانی ہے اور وہ صاحب موصوف سے ایک طرح کی عقیدت بھی رکھتے ہیں‘ جو کہ قیدیوں کو وقتاً فوقتاً واردات کے کافی ہنر بھی سکھاتے رہے ہیں کہ کام ڈالنے کے بعد پکڑے جانے سے بچا کس طرح جاتا ہے اور مقدمات سے متعلقہ ریکارڈ کو کس طرح نذرِ آتش کروایا جاتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ ۔اور اسی لیے تمام تر ثبوت اور شہادتوں کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کو پکڑانہیں جا رہا کہ دونوں باپ بیٹا مل کر ایک دو آتشہ کی صورت اختیار کر جائیں گے اور حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کوئی غلط فہمی میں نہ رہے‘ لٹیروں کو حساب دینا ہوگا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کوئی غلط فہمی میں نہ رہے‘ لٹیروں کو پائی پائی کا حساب دینا ہوگا‘‘ اسی لیے سارے لٹیرے بہت مطمئن پھرتے ہی ‘کیونکہ عدالت نے کہا ہے کہ پہلے وہ سابق حکمرانوں سے حساب لیں گے‘ اس کے بعد موجودہ لوگوں کی باری آئے گی‘ اور چونکہ سابقوں کا حساب ہی روزِ قیامت تک جاری رہنا ہے‘ اس لیے ہماری باری آنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘ اس لیے ہماری تو موجیں ہی موجیں ہیں اور اسی لیے ہم کوئی کام بھی نہیں کر رہے‘ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ ہم صرف احتساب کرنے آئے ہیں‘ اور وہ ہو رہا ہے‘ جبکہ ہم جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہیں اور ہر روز ‘روزِ عید ہے اور ہر شب ‘شب ِ برأت۔ ماشا اللہ‘ چشم بد دُور اور اس لیے چشم ِ بد ہمیں کافی فاصلے پر نظر آتی ہے‘ بلکہ بعض اوقات تو نظر بھی نہیں آتی۔ آپ اگلے روز میانوالی ایکسپریس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب‘آخر میںمحبی ڈاکٹر تحسین فراقی ؔنے ہماری فرمائش پر اپنی شاعری مرحمت فرمائی ہے۔ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
لحظۂ حال سے نظروں کو بچائے ہوئے ہم
شہرِ آئندہ تصوّر میں بسائے ہوئے ہم
پھر بھی سر بستہ پہیلی کی طرح راز رہے
سب کے بوجھے ہوئے ہم‘ سب کے بتائے ہوئے ہم
جب درختوں پہ گری برق تو ہم پاس ہی تھے
اپنی نم آنکھوں کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے ہم
خام تھے‘ خانۂ آتش نے صلابت ہمیں دی
اے خوشا اس کی حرارت سے پکائے ہوئے ہم
کس دہکتے ہوئے سورج نے یہ احسان کیا
ایک دم آ گئے نظروں میں‘ نہ آئے ہوئے ہم
.........
غم کے مارے ہوئے‘ دنیا کے رلائے ہوئے ہم
آ گئے پھر ترے کوچے میں ستائے ہوئے ہم
شاید اک روز اُجڑ جائیں ترے ہی ہاتھوں
باغباں! تیرے ہی ہاتھوں کے لگائے ہوئے ہم
نگہِ گرم! تری طرفہ کرامت کے نثار
آ گئے آپ میں پھر‘ کب کے نہ آئے ہوئے ہم
یوں ہی پل بھر میں کسی گھاٹ اتر جائیں گے
معجزے کی کوئی امید لگائے ہوئے ہم
گھر کا گھر بیچ دیا مُفت کے پاگل پن میں
آنکھ اِدھر جھپکی‘ اُدھر خود سے پرائے ہوئے ہم
جل بُجھا تُو تو ترے ساتھ ہی ہو جائیں گے راکھ
تیرے سنگ‘ اے شجر! اک عمر بتائے ہوئے ہم
آج کا مقطع
آنکھوں میں سرخیوں کا سفر رک گیا‘ ظفرؔ
دیکھا تو ہم اسیر تھے نیلے گلاب کے