تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-07-2019

Pakistan Elects

جب وہ علاقہ غیر تھا اور پھر فاٹا، تب بھی میرا اور اس کا درد مشترک تھا۔ صدیوں پُرانا وہ کرب جو حملہ آوروں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے ہی نہیں بلکہ لوٹ مار اور غارت گری کی باقیات نے دھرتی کی کوکھ اجاڑ کر پیدا کیا۔ سکندر اعظم سے لے کر تیموریوں تک سب کے لشکروں کی پہلی گزرگاہ فاٹا اور دوسری پوٹھوہار رہی۔ اب صدیوں بعد فاٹا میں تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔ پاکستانی پرچم تھامے اس تبدیلی کے ہمراہیوں نے باوردی محافظوں کے گلے میں ہار ڈالے۔ پاکستان پائندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ ووٹروں نے پاکستان کے حق میں دوسرا ریفرنڈم کر دیا۔ پہلا ریفرنڈم قیامِ پاکستان کے لیے جولائی، 1947 میں ہوا تھا‘ جس میں قائد اعظم کی فتح اور سرحدی گاندھی کو شکست ہوئی۔ دوسرا ریفرنڈم 20 جولائی2019 کے دن استحکامِ پاکستان کے لیے ہو گیا۔ حالیہ ریفرنڈم میں بھی پاکستان دوبارہ الیکٹڈ بن کر اُبھرا۔ اس کے بد خواہوں اور دشمنوں کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ اس ریفرنڈم کا ایک نتیجہ اور بھی نکلا اور وہ یہ کہ فارن فنڈڈ این جی اوز کی وال پر این ڈی ایس اور 'را‘ کے تخلیق کردہ نعرے مارنے والے بُری طرح ریجیکٹ ہو گئے۔ 20 جولائی 2019 کا انتخاب پاکستانی تاریخ کا صاف شفاف اور سب سے پُرامن الیکشن ثابت ہوا۔ خیبر ڈسٹرکٹ، کُرم ڈسٹرکٹ، مہمند ڈسٹرکٹ، باجوڑ ڈسٹرکٹ‘ اورکزئی ڈسٹرکٹ، شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ، جنوبی وزیرستان ڈسٹرکٹ اور ایکس فرنٹیئر ریجن سمیت سب دنیا کے سامنے منعقد ہوا۔ صبح 8بجے سے لے کر شام 5بجے تک جمہوری انداز میں ایسی پولنگ ہوئی جس کی مثال ملکی الیکشنز کی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی۔ فاٹا مرجر کے بعد کے پی کے، کے نئے اضلاع کی 16 صوبائی نشستوں پر 285 امیدوار میدان میں اُترے۔ جن وکیل صاحبان اور جج حضرات نے فاٹا کے زمانے والے الیکشن کی پٹیشنز سُن رکھی ہیں‘ وہ خوب جانتے ہیں کہ بد امنی کے زمانے میں لوگ بعض مولوی صاحب اور کچھ امیر صاحب کے حکم پر ووٹ ڈالنے پر مجبور تھے۔ اس علاقے کی خواتین اور لڑکیوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 20 جولائی کے الیکشن میں خواتین نے بڑے پیمانے پر باہر نہ نکلنے کا قدیم Taboo توڑ ڈالا۔ KPK قبائلی اضلاع کی 16 صوبائی نشستوں پر اولین الیکشن مکمل ہونے کے ساتھ ہی امن کی فتح اور دہشتگردی کی شکست کا باب بھی مکمل ہو گیا۔ چونکہ گزشتہ کئی مہینوں سے سیاسی ڈیبیٹ الیکٹڈ اور سلیکٹڈ لیڈروں کی بحث چل نکلی تھی‘ اس لیے قبائلی اضلاع کے جمہوریت پسند ووٹروں نے اس پہ بھی نظر رکھی؛ چنانچہ پیڈ کانٹینٹ والوں کے منہ حیرت سے کھل گئے ہیں بلکہ ان تازہ ترین الیکشنز والے اضلاع کے 16 کے 16 حلقوں میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی ضمانتیں ضبط ہو گئی ہیں۔ ایک مکمل اور 100 فیصد وائٹ واش کے ذریعے۔ یہی دونوں سیاسی جماعتیں وزیرِ اعظم عمران خان اور PTI کو سلیکٹڈ کا طعنہ ہر وقت دے رہی تھیں جبکہ اپنے آپ کو عوام کی الیکٹڈ پارٹیز کہہ رہی تھیں۔ ایسے میں 20 جولائی 2019 کے انتخابات نے سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کے درمیان خود فرق صاف ظاہر کر دیا۔
آج کا وکالت نامہ 21 جولائی اتوار کے دن لکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کے تازہ ترین الیکشن رزلٹ جاننے کے لیے کئی معتبر ذرائع سے پوچھا جن میں عمران خان صاحب کے معاونِ خصوصی افتخار درانی بھی شامل ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق فاٹا اضلاع کے اندر الیکشن میں جو تین فریق سامنے آئے‘ ان کی تفصیل اس طرح سے ہے:
پہلا فریق آزاد امیدوار بن گئے ہیں جو مختلف اکثریتی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسرا فریق ساری سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں سے جماعتِ اسلامی 2 نشستوں پر کامیاب ہوئی اور ایک ایک نشست JUI(F) اور ANP کو مل سکی۔
تیسرا فریق پاکستان تحر یکِ انصاف ہے جس نے صوبائی اسمبلی کی 5 نشستیں جیت لی ہیں۔ مزید 2 نشستوں پر کانٹے کا مقابلہ ہے دور دراز علاقوں میں جن کے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
اب آئیے اس الیکشن کے 2 فرنٹ رنر فریقوں کی طرف۔ ابھی تک معلوم تفصیل کے مطابق PTI، 20 جولائی کے الیکشن میں سب سے بڑی اور فرنٹ رنر سیاسی پارٹی بن کر اُبھری ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پی ٹی آئی کے لیے فاٹا اضلاع کی 16 نشستوں پر الیکشن KP جنرل الیکشن کا ری پلے ثابت ہوا ہے۔ نئے مرجر والے ان اضلا ع میں پی ٹی آئی نے ہر سیٹ پر امیدوار کھڑا کیا۔ سب سے زیادہ سیٹیں جیتیں اور سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ بات ہو رہی تھی 16 سیٹوں کی‘ جن میں سے مزید 2 سیٹوں پر پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہے۔ ان سیٹوں کے مدِ مقابل امیدواروں نے PTI سے ٹکٹ مانگے تھے اور 'نہ‘ ہو جانے پر انہوں نے آزاد الیکشن لڑ لیا۔ پنجاب اور KP میں 2018 کے الیکشن میں بھی کئی جگہ ایسا ہی ہوا تھا‘ مگر الیکشن جیتنے کے بعد ایسے سارے امیدوار پی ٹی آئی میں واپس آ گئے تھے۔ اس طرح 16 میں سے 11 سیٹیں سیاسی جماعتوں کے حصے میں آنے کا امکان ہے جبکہ 5 سے 7 سیٹیں آزاد امیدوار لے جا رہے ہیں۔ یہ الیکشن در حقیقت ون آن ون تھا۔ PTI اور اس کے مقابلے میں باقی سارے کے سارے۔ دراصل یہ عمران خان کی مقبولیت کا تازہ ترین سروے ہے، عوامی سروے‘ ویسا سروے نہیں جو ایک ہی دفتر میں بیٹھنے والے 3 آدمی جاری کرتے ہیں۔ جو تینوں کے تینوں لاہور میں مرکز رکھنے والی دائیں بازو کی 2 جماعتوں کے پروردہ ہیں۔ ایسے پروردہ جو لاہور کے پبلک پارکوں اور فٹ پاتھ پر پٹرول پمپ بنانے والے ہیں‘ جنہیں فاٹا اضلاع کا الیکشن پچھلے 2 دن سے نظر ہی نہیں آ رہا۔ ان کے نزدیک ایل این جی بادشاہ کی گرفتاری علاقہ غیر میں تبدیلی سے بڑا واقعہ ہے۔ اپنا حقِ گیس و پٹرول ادا کرنے کے لیے 2 لاکھ 27 ہزار امریکی ڈالر روزانہ کا نقصان انہیں بے گناہی کا سب سے بڑا ثبوت نظر آتا ہے۔
پاکستان اور عمران خان کے بعد فاٹا اضلاع میں آنے والی اس عظیم اور تاریخی تبدیلی پر کئی ساروں کی شاباش بنتی ہے۔ سب سے پہلے تو مادرِ وطن پر قُربان ہونے والے فوجی جوانوں کے نام‘ پھر سکیورٹی اداروں سے خاصہ داروں کے نام‘ جنہوں نے اپنے لہو کا خراج دے کر ریاست کے اندر بِن بُلائے مہمانوں کی متوازی ریاست کا خاتمہ کر کے دکھا دیا۔
یہ 2 صدیوں کا سب سے بڑا عسکری کارنامہ ہے۔ ایسا معجز نُما کارنامہ ہماری مغربی سرحد کے دوسری جانب نیٹو افواج نہ کر سکیں۔ پھر KP کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان، گورنر شاہ فرمان، سینئر منسٹر عاطف خان اور افتخار درانی کی بھی شاباش بنتی ہے۔ درانی تقریباً پچھلے 100 دن سے کے پی میں ہیں۔ سٹریٹیجی ایسی بنی کہ چند ماہ میں غیر علاقے اپنے بن کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ صدیوں کا انتظار ختم ہوا ساتھ ساتھ FCR کا بھی۔ اب فاٹا کے ذرائع آمدن اور قدرتی وسائل بھتہ نُما چندے کی نذر ہوں گے نہ ہی انہیں ترقی کے ثمرات کی دوڑ سے باہر رکھا جا سکے گا۔ یہ عام آدمی کے لیے پہلی تبدیلی ہے جو ہمیشہ سے کہتا آیا ہے:
کب ظُلمتِ ہستی میں تقریبِ سحر ہو گی
اسرار بتا مجھ کو ہاتھوں کی لکیروں کا
تقدیر کے رانجھوں کا امید کی ہیروں کا
حالات کی نگری میں بے نام فقیروں کا
کب اُجڑی ہوئی بستی، پھولوں کا نگر ہو گی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved