تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     22-07-2019

کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ

17 جولائی کو عالمی عدالت انصاف نے ہیگ میں کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے میں‘ جسے بھارت اور پاکستان میں لائیو نشر کیا گیا‘ بھارت کو یادیو تک قونصلر کی رسائی کا حق دیا گیا ہے جبکہ اس کی سزا کی منسوخی، پاکستان سے رہائی اور بھارت واپسی کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں اس فیصلے کو اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی میڈیا‘ جو اپنے جنگی جنون کی وجہ سے عقل و دانش سے عاری نظر آتا ہے‘ قانون اور سچائی سے قطع نظر اس فیصلے کے بعد بھارتی عظمت و ستائش کے گن گانے میں مصروف ہے۔ کلبھوشن کیس کی حقیقی اور قانونی پوزیشن دیکھنے کیلئے ہمیں اس کے پس پردہ حقائق اور انٹرنیشنل لا کی متعلقہ شقوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016ء میں پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں نے گرفتار کیا تھا۔ اپریل 2016ء میں حکومت پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن کی گرفتاری کی اطلاع دی اور ایک خط کے ذریعے اس سے درخواست کی کہ وہ بھارت میں اسکے سرپرستوں سے تفتیش کرنے میں پاکستان کی مدد کرے‘ لیکن بھارت نے کلبھوشن کو شناخت کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔
تفتیش کے دوران کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ وہ بھارتی نیوی کا ایک حاضر سروس افسر ہے (نیوی نمبر 41558Z)۔ اس کے پاس حسین مبارک پٹیل نام سے جعلی پاسپورٹ بھی برآمد ہوا اور اسے بھارتی ایجنسی 'را‘ نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے بھیجا تھا۔ یادیو نے خاص طور پر یہ اعتراف کیا کہ اسے بھارتی حکومت نے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کے لئے پاکستان بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کلبھوشن یادیو کو حسین مبارک پٹیل کے نام سے بھارت کا اصلی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا‘ جس کی 2014ء میں تجدید بھی کی گئی تھی اور وہ اسی پاسپورٹ پر سترہ بار بھارت سے باہر آتا جاتا رہا۔ اسی طرح حکومت پاکستان کل بھوشن یادیو کی بطور نیول افسر 2016ء میں اس کی گرفتاری تک اس کی تنخواہوں کی سلپس بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ جس کی سرکاری ''گزٹ آف انڈیا‘‘ میں بھی انٹری تھی‘ جہاں کلبھوشن یادیو کا نام بطور انڈین نیول افسر 1987ء سے درج تھا۔ کلبھوشن یادیو کے ان ناقابل تردید ثبوتوں اور اعترافات کے بعد بھارتی حکومت اور اس کے سپن ڈاکٹرز نے پھر ایک نئی کہانی گھڑی۔ انہوں نے دعویٰ کر دیا کہ گرفتار شدہ شخص کلبھوشن ہے ہی نہیں بلکہ یہ حسین مبارک پٹیل ہے جو کبھی انڈین نیوی کا حصہ نہیں رہا (پھر گیارہ ماہ بعد یہ دعویٰ بھی واپس لے لیا گیا)۔ الٹا یہ دعویٰ کر دیا کہ مبینہ طور پر مبارک پٹیل ایک پرائیویٹ بزنس مین ہے جو کمنڈا ٹریڈنگ کے نام سے ایرانی شہر چاہ بہار میں اپنی کمپنی چلاتا ہے۔ بھارت کے اس طرح کے کھلم کھلا انکار اور تفتیش میں تعاون سے انکار کے بعد پاکستان کے پاس ملکی قانون کے مطابق کلبھوشن پر مقدمہ چلانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اس سلسلے میں یادیو کو وکیل کی خدمات مہیا کی گئیں، ستمبر 2016ء میں کورٹ مارشل کے ذریعے اس پر مقدمہ چلایا گیا اور 2017ء کے اوائل میں اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ اس نے اس سزا کے خلاف اپیل کی جو جون 2017ء میں مسترد کر دی گئی۔
مبینہ طور پر اسی عرصے میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے دوست سجن جندال کے مابین مری میں ملاقات کے دوران ایک ڈیل ہوئی اور بھارت نے یادیو تک قونصلر کی رسائی کے لئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عالمی عدالت انصاف نے 8 مئی 2018ء کو بھارتی درخواست منظور کر لی اور کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اسے عارضی ریلیف دے دیا۔ نواز شریف کے جانے کے بعد ستمبر2017 ء میں پاکستان اور بھارت نے تحریر شدہ میموریلز پیش کئے اور عالمی عدالت انصاف نے فروری 2018ء میں فریقین کے دلائل کی سماعت کی۔ ویانا کنونشن کی روشنی میں بھارت کے قانونی دلائل اور درخواست کو درست بھی مان لیں تو اس نے تحریری اور زبانی دلائل کے ذریعے دو طرح کا ریلیف مانگا ہے اول: ضابطے کا ریلیف Procedural Relief کہ بھارت کو اپنے شہری کو سزا سنائے جانے سے پہلے قونصلر رسائی دی جائے۔ دوم: بنیادی ریلیف Substantive Relief یعنی کلبھوشن کی سزا منسوخ کی جائے، اسے رہا کیا جائے اور بھارت واپس بھیجا جائے۔ اس مقصد کیلئے بھارتی درخواست اور اسکے دلائل میں یادیو کے جعلی نام حسین مبارک پٹیل کا حوالہ دیا گیا اور اس امر پر زور دیا گیا کہ کلبھوشن یادیو نام کا کوئی آدمی تھا ہی نہیں۔ بھارت کا موقف تھا کہ اسکے ایک بے گنا ہ شہری حسین مبارک پٹیل کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے بعد ناجائز طور پر سزا سنائی گئی ہے۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کے بطور ریاست دہشت گردی پھیلانے کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کئے۔ یادیو کے اعترافی بیان کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان نے بھارتی حکومت کے تیرہ افسروں کے ناموں کی سر بمہر فہرست پیش کی جو براہ راست کلبھوشن یادیو کو ہدایات جاری کرتے تھے۔ 
دلائل کی سماعت کے بعد عالمی عدالت انصاف نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے گزشتہ ہفتے سنا دیا گیا۔ عدالت نے بھارت کی ضابطے کے ریلیف کی درخواست منظور کر لی اور کہا ہے کہ ویانا کنونشن کے قونصلر کی رسائی سے متعلق آرٹیکل 36 میں جاسوسی کے الزام میں شامل افراد بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر کے نظائر اور مروجہ انٹرنیشنل قانون سے اختلاف کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ دیا ہے کہ ویانا کنونشن کی قونصلر کی رسائی سے متعلقہ شقوں میں جاسوسی کے الزام کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔
ضابطے کے ریلیف سے ہٹ کر بنیادی ریلیف کی درخواست یکسر مسترد کر دی گئی ہے جس میں یادیو کی سزا منسوخ کرنے، جیل سے رہا کرنے اور بھارت واپس بھیجنے کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت انصاف نے نہ تو یادیو کی سزا منسوخ کی ہے اور نہ اسے رہا کر کے بھارت بھیجنے کی استدعا منظور کی گئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یادیو پاکستانی قانون کے مطابق اپنی سزا کے خلاف اپیل کر سکے گا‘ اور یہ ایسا حق ہے جو یادیو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے پہلے بھی پاکستان کے آئین کے مطابق استعمال کر سکتا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ریکارڈ میں دستیاب شہادتوں اور پاکستانی قانون کی روشنی میں کلبھوشن کو سنائی گئی سزا کو ریویو کرے۔ بالفاظ دیگر اب کلبھوشن یادیو اپنی پسند کے وکیل کی مدد سے پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اپنی سزا کو چیلنج کر سکے گا جس کے بعد بھی اسے ملکی قانون کے مطابق سزا دی جا سکتی ہے۔
فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی عدالت نے حسین مبارک پٹیل اور اس کے کمنڈا ٹریڈنگ کے بزنس کی بھارتی رام کہانی کا کوئی حصہ بھی قبول نہیں کیا۔ 42 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اسے ہر جگہ کلبھوشن یادیو ہی لکھا گیا ہے۔ فیصلے کا عنوان ہی ''یادیو کیس‘‘ ہے۔ فیصلے میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ اسے بلوچستان ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تمام جج اسے کلبھوشن یادیو ہی کہتے رہے جو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے اور جو بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے لئے کام کر رہا تھا۔ فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں یادیو کے حوالے سے گھڑی گئی کہانی اور پاکستان میں دہشت گری پھیلانے سے بھارت کے انکار کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔ کلبھوشن یادیو کے مقدمے کی اصل کہانی بھی یہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے بجائے دہشت گردی کا شکار ہونے کی کلبھوشن کی بے گناہی کی رام کہانی کا بھانڈا مقدمے کی کارروائی کے دوران پھوٹ گیا۔
گرفتاری کے تین سال بعد ضابطے کے ریلیف کے لئے کلبھوشن تک قونصلر کی رسائی کا بھارت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ یادیو کے پاس جو بھی معلومات تھیں وہ پاکستان پہلے ہی لے چکا ہے۔ پاکستان میں اس کے تمام سہولت کار اور ان کے کارندے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ کلبھوشن تک اتنی تاخیر سے رسائی ملنے سے بھارت کو عملی طور پرکچھ حاصل نہیں ہو گا۔ قونصلر کی رسائی یا ہماری آئینی عدالتوں میں یادیو کے دفاع سے اس کے بری ہونے یا رہائی پانے کااندیشہ معدوم ہے۔ اس پر پاکستانی عدالتوں میں پاکستانی قانون کے مطابق مقدمہ چلے گا اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ یہیں اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اسی اثنا میں بھارت کا دہشت گردی سپانسر کرنے والا چہرہ کلبھوشن یادیو (نہ کہ حسین مبارک) کی صورت میں پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved