میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھا‘ جب جنرل سائنس کی کتاب میں پڑھا تھاکہ جانداروں کی دو قسمیں ہیں ؛ 1۔ پودے۔ 2۔ جانور ۔ اس پر ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ انسان کہاں گیا ۔ ٹیچرمس شازیہ نے بتایاکہ سائنسی اور حیاتیاتی طور پر انسان بھی جانوروں میں شامل ہے ‘گو کہ دوسرے جانوروں کے برعکس وہ عقل رکھتاہے ۔تو زندگی دو قسم کی ہے ۔ ایک وہ جو زمین میں ایک ہی جگہ پر پیوست ہیں۔ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے ۔ ان کا کام ہے اپنی جڑوں سے پانی چوسنا اور سورج کی روشنی کو اس پانی سے ملا کر فوٹو سینتھیسز کرتے ہوئے آکسیجن پیدا کرنا ۔ یہ آکسیجن انسان اور دوسرے جانوروں کے جسم و دماغ میں توانائی فراہم کرتی ہے۔اگر ‘پودے نہ ہوتے تو زمین جانوروں کا زندہ رہنا ‘بلکہ ان کی پیدائش بھی ممکن نہ ہوتی ۔ ایک مغربی خلانورد کی تصویر دیکھی ۔ اس نے ہاتھ میں ایک بینر اٹھایا ہوا تھا‘ جس پر لکھا تھا ؛ I see no God up here۔ اس پر کسی نے کمنٹ کیا : جیسے ہی آپ کی پشت پر موجود سیلنڈر میں موجود آکسیجن ختم ہوئی ‘ فوراًآپ کو خدا نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ خلا میں‘ چاند اور اب مریخ پر جن لوگوں کو جانا ہے ‘ وہ اپنی آکسیجن سیلنڈروں میں ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔
تیسری طرف ان پودوں کے پتوں اور پھلوں کو جانور کھاتے ہیں ۔ ان پھلوں میں اس قدر لذت اور غذائیت ہے کہ جو بیان سے باہر ہے ۔ جب آپ پکا ہواآم‘ لیچی اور انگور کھاتے ہیں تو مٹھاس کی بے شمار جہات سے آشنا ہوتے ہیں ۔ انار میں ایک ہلکی سی ترشی اور ہلکا سا نمک بھی شامل ہوتاہے ‘ جو اس کی لذت میں اضافہ کر دیتاہے ۔ کبھی آپ لیچی کا چھلکا اتار کر اسے غور سے دیکھیں ۔ اس قدر باریکی سے کسی نے یہ چھلکا چڑھایاہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔یہ پھل کو تروتازہ رکھتاہے ۔ انسان نے جب اشیا ء کو پیکنگ کرکے بیچنا شروع کیا‘ تو اس نے پلاسٹک استعمال کیا‘ جو ماحول میں آلودگی پیدا کرتاہے اور سینکڑوں برسوں تک اپنا وجود باقی رکھتاہے ‘ لیکن لیچی کا کور پلاسٹک نہیں ہے۔یہ ایک کاغذ کی طرح ہے ۔ اگر‘ آپ خدا کے بارے میں غور کرنا چاہیں تو پھلوں کے چھلکوں کو غور سے دیکھیں ۔ لیچی کا چھلکا سپیشل ہے‘ کیونکہ لیچی بہت زیادہ نازک ہے ۔ اگر‘ اس پر بار بار پانی نہ چھڑکا جائے تو یہ بہت تیزی سے خراب ہوتی ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مختلف پھلوں پر ان کی ساخت کے مطابق چھلکا (Cover)چڑھانے والی ذات نے اپنا کام perfectionکے ساتھ کیا ہے ۔
اگر‘ آ پ زندگی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کرّہ ٔ ارض پہ پودے پیدا کرنے کی کوئی بھی ضرورت نہیں تھی ۔اگر‘ یہاں انسان نہ پیدا کیے جاتے ۔ اسی طرح یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ اگر ایک عقلمند سپیشیز‘ یعنی انسان کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو گھوڑے‘ بکرے اور دیگر جانور بھی پیدا نہ کیے جاتے ۔ میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ جب سے اس زمین پر زندگی پیدا ہوئی ہے ‘ تب سے وہ مسلسل زندہ ہے ۔ وہ اس طرح کہ ایک زندہ خلیہ مرنے سے پہلے دو پیدا کرجاتاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرّہ ٔ ارض پہ جب پہلا خلیہ پیدا ہوا تھا ‘ اس وقت سے لے کر آج تقریباً تین ارب سال تک وہ مرا نہیں ہے ‘بلکہ بچّے پیدا کر دینے کے ذریعے مسلسل زندہ ہے ‘ لیکن اگر‘ آپ جانداروں میں ذائقے اور افزائشِ نسل پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا کس طرح سے چلائی جا رہی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان دوسرے جانوروں کی طرح خودغرض ہے ۔ جسے موقع ملتاہے ‘ وہ دوسرے کی زمین اور وسائل پہ قابض ہونا چاہتا ہے ۔ اس میں بیوی بچوں کا جھنجٹ پالنے کی خواہش کبھی بھی نہ ہوتی ۔ اگر‘ عورت کو غیر معمولی طور پر حسین نہ بنایا جاتا۔ اس کے بعد آپ بچّے کو دیکھیں کہ بڑا ہونے تک وہ اپنے والدین کو کتنا تنگ کرتاہے ‘لیکن اس بچّے کی شکل و صورت اور اس کی معصومیت میں اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے کہ سب والدین بخوشی اس وزن کو اپنے کندھوں پر ساری زندگی اٹھائے رکھتے ہیں ۔
ذائقہ بھی ایک ایسی چیز ہے ‘ جس میں بڑی نشانیاں ہیں ۔ یہ خودبخود نہیں ہوتا کہ ہمیں کچھ چیزیں ذائقے دار اور کچھ بے ذائقہ محسوس ہوتی ہیں ۔ ہماری زبان پر وہ خلیات رکھے گئے ہیں ‘ جو ہر قسم کے ذائقے کا احساس دماغ تک پہنچاتے ہیں ۔ جسم میں اگر‘ معدے سے بھوک کے سگنل دماغ تک لے جانے والی نروز نہ ہوتیں اور زبان میں اگر ‘ذائقہ محسوس کرنے کا خصوصی انتظام نہ ہوتا تو کوئی بھی کچھ بھی نہ کھاتا۔ جسم میں اگر درد محسوس کرنے کے لیے نروز نہ ڈالی جاتیں ‘تو کسی کو بھی چوٹ لگنے‘ چھت سے گرنے اور حتیٰ کہ موت سے خوف محسوس نہ ہوتا۔ لوگ ہنستے کھیلتے خودکشی کرتے ۔ یہ درد کے نتیجے میں پیدا ہونے والا شدید خوف ہے ‘ جو جاندار کو ہر صورت میں زندہ رہنے پر اکسائے رکھتا ہے ۔
اگر‘ کبھی آپ جانوروں اور پودوں میں افزائشِ نسل پر غور کریں تو یہاں بھی آپ کو بہت سی حیرت ناک چیزیں ملیں گی ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مرد عورت کے پاس جاتا ہے ۔ اسے حاملہ کر دیتاہے ۔ ماں کے پیٹ میں ایک باور آور خلیے (زائی گوٹ) میں سٹیم سیلز سے بچّے کے جسم کا ہر عضو تخلیق ہوتاہے ۔پھر ایک مقرر وقت پر ماں کے پیٹ سے باہر آجا تا ہے ۔ اسی کا دوسرا طریقہ پرندوں وغیرہ میں یہ ہے کہ وہ انڈے دے کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اس انڈے کے اندر چوزے کے لیے ساری ضروری غذائیت اور اجزا موجود ہوتے ہیں ۔ پھر مقررہ وقت پر وہ انڈے کا یہ پنجرہ توڑ کر باہر نکل آتا ہے ۔
لیکن پودوں میں بھی تو افزائشِ نسل ہوتی ہے ۔ یہ پودے چل نہیں سکتے ۔ ان کے ایک اوپر لگے ہزاروں پھلوں میں سے ایک کو آپ زمین میں دبا دیتے ہیں ‘ پھر اسے پانی دیتے رہتے ہیں تو وہ پھوٹ پڑتا ہے ۔اپنے اوپر سے مٹی ہٹا کر وہ سورج کی روشنی لینے لگتا ہے ۔ اگر ‘اسے پانی ملتا رہے تو سورج کی روشنی تلے وہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے ۔ یہ بھی تو ایک پوری سائنس ہے کہ ایک پودے کے ہزاروں بیجوں میں سے ایک ایک میں وہ سب اجزا کیسے رکھ دیے جاتے ہیں ‘ جو اسے پچاس فٹ اونچے درخت میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ جس ذات نے تین چار ارب سال پہلے درخت ڈیزائن کیے تو ایک ایک درخت پر ہزاروں کے حساب سے بیج کیوں ڈیزائن کیے ؟ یہ بیج ہوا کے ذریعے اڑتے ہیں ‘ پرندوں کے پائوں سے پنجوں سے چمٹ جاتے ہیں ‘ جانوروں انہیں کھا لیتے ہیں ۔ پھر جانوروں کے فضلے سے یہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں ‘ جہاں انہیں اُگنا ہوتا ہے ۔ ایک دفعہ ہمارے لان میں کنگھی پام کا ایک پود سوکھ گیا۔ مالی نے اسے اکھاڑ کر ساتھ والے خالی پلاٹ میں پھینک دیا۔ انہی دنوں بارشیں ہوئی ۔ چند ہفتے بعد دیکھا تو وہ پودا ‘ جسے مردہ سمجھ کر اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا‘ وہاں اسے ایک نئی زندگی مل چکی تھی ۔ اس کے پتے ہرے ہو رہے تھے ۔
جانداروں میں ذائقے ‘ افزائشِ نسل اور ہر خلیے کو دو میں تقسیم ہونے کی صلاحیت کے ذریعے خدا نے زندگی کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے ۔ یہ سب وہ باتیں ہیں ‘ جن میں بہت سی نشانیاں پوشیدہ ہیں ‘ جو عقل رکھتے ہیں۔