سن سن کر کان پک گئے‘دیکھ دیکھ کر آنکھیں دکھنے لگیں‘ ذہن بوجھل‘ خیالات منتشر۔نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔غور کرتے ہیں تو شعور حالات کا احاطہ نہیں کر پاتا۔ عجیب فکری دلدل ہے۔ گزشتہ چار عشروں سے جو کچھ دیکھا‘ وہ جھوٹ نہ تھا‘ اور یہ بھی سچ ہے کہ حالات تبدیل نہیں ہونے جا رہے۔روایتی سیاسی خاندانوں کی اب اتنی سکت نہیں کہ دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر سکیں‘لیکن وہ ختم بھی نہیں ہوئے۔ حکومتِ وقت بہت کچھ کرنا چاہ رہی ہے‘ لیکن کر نہیں پا رہی۔ عوام اور مبصرین حیران ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے‘ مگر غالب پرانا پاکستان ہی ہے۔
معلوم نہیں موجودہ اضطراب‘ فکری مندی‘ پھیلتی ہوئی مایوسی تبدیلی کے عمل کا حصہ ہے یا اس کے خلاف لاشعوری مزاحمت؟ کوئی بھی خوش نہیں۔ حزبِ اختلاف کی روایتی جماعتوں پر کٹھن دن ہیں۔ قائدین جیل کی سلاخوں کے پیچھے گھر کی تازہ روٹی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عوامی زبان میں ''ابو بچائو‘‘ مہم کے اشارے تو مل رہے ہیں‘ لیکن کیا کھربوں ہضم کرنے والے عوام کی نگاہ میں اتنے ہی بے قصور ہیں کہ وہ جمہوریت کو مبینہ خطرے میں پاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں اور نئی احتجاجی سیاست کا باب رقم کر دیں؟ نہیں‘ عوام ایسا کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ درحقیقت اس بار عوام تماشا بننے کی بجائے تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف دولت کے انبار اور کاسہ لیسوں کے لشکر موجود ہیں۔ وہ عدالتوں‘ میڈیا اور عوامی سطح پر پنجروں میں بند شیروں کو مظلوم ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومتی ترجمان بھی خاموش نہیں۔ محاذ گرم ہے‘ لیکن سہولت کے ساتھ۔ درست‘ کہ اب لوگ موچی گیٹ‘ مال روڈ‘ شیر شاہی شاہراہ یا دیگر مقامات کی زحمت کے لیے تیار نہیں۔ اب میدان کیمروں کے سامنے ہی سجتا ہے۔ روایتی فارمولے کے مطابق دو سیاسی
خاندانوں کے نمائندے‘ ایک نمائندہ تحریکِ انصاف کا‘ اور کچھ پروگراموں میں کوئی متحیر مبصر یا بپھرا ہوا دانشور‘ سب رونقِ محفل بڑھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ گپ شپ ہو رہی ہوتی ہے‘ چائے کا کپ دانش کا استعارہ بن کر سامنے موجود ہوتا ہے‘ لیکن کیمرہ آن ہوتے ہی ہر کوئی شمشیر بکف ہو جاتا ہے۔ صفوں کی صفیں الٹ دی جاتی ہیں۔ الزامات ہیں‘ شواہد موجود ہیں‘ لیکن بے گناہ ثابت کرنا ہے۔ اس معرکے کے لیے حکومت کے پاس رستم بھی ہیں اور سہراب بھی۔ یہ جنگجو کبھی دوسری صفوں میں بھی تھے‘ لیکن ''اِدھرڈوبے‘ اُدھر نکلے‘‘ کے مصداق پلٹنے جھپٹنے میں طاق ان شاہینوں کے قریب سے شرمندگی چھو کر بھی نہیں گزری۔ واہ ری پاکستانی سیاست‘ تیری رونقوں کے کیا کہنے!
یہ تماشا کب شروع ہوا تھا؟ انسان الجھائو کو کیا یاد رکھے۔ اس کی ابتدا‘ تاریخ اور بنیادی کرداروں کا تعین سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی سے ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت‘ دونوں اس تنائو کی ذمہ داری زرداری‘ بھٹو اور شریف خاندان پر ڈالتے ہیں۔ اندازِ نقشِ پا دیکھیے‘ پرانے اشتراکی اب نئے لبرل لبادے میں جمہور پسند بنے سارا ملبہ آمرانہ حکومتوں پر ڈالتے ہیں۔ روایتی حکمران خاندان ایک دوسرے کو ایک پل بھی برداشت کرنے کے روادار نہ تھے‘ لیکن آج جمہوری رواداری کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ عقل کا بھی ایک وقت ہوتا ہے‘اس کے بعد یہ مذاق بن جاتی ہے۔ سارا زور اس پر ہے کہ عمران خان حکومت کی آئینی اور قانونی ساکھ کو متنازع بنا کر عوام کی نظروں میںگرایا جائے۔ سیاست میں چیلنج ہوتا ہے‘ لیکن اگر یہ روایات‘ قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں نہ رہے تو معاشرتی خلفشار‘ نفرت اور تصادم کا باعث بنتی ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ حکومت اور اس کے مخالف دھڑے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ مخالفت برائے مخالفت‘ اور محاذ آرائی کی تاریخ ہے۔ سیاست تو نام ہی مختلف نظریات اور منشور رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان مسابقت اور پرامن دستوری انداز میں حکومت کرنے‘ یا حکومت کا ناقدانہ جائزہ لینے کا ہے۔ تنقید ہوتی ہے‘ لیکن پالیسیوں پر‘ اور پھر قوم کے سامنے متبادل پالیسی رکھی جاتی ہے۔ ایک لائحہ عمل کے سامنے دوسرا لائحہ عمل رکھا جاتا ہے۔ حالات کو مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھا اور دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے کردار‘ دیانت داری‘ قومی روایات اور آئین سے وابستگی اور نظریات پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی سیاسی ماحول پراگندہ ہوتا ہے۔ کون سا جمہوری ملک ہے جہاں اختلافات نہیں ہوتے؟ برطانیہ‘ امریکہ‘ بھارت‘ ہر جمہوریت میں بحث و مباحثہ چلتا رہتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی اختلافات ایک جنگ کا سا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ آج کی بات نہیں‘ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اس ضمن میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے کمزور ہیں اور کچھ ہاتھوں میں کھلونا سا بنے ہوئے ہیں۔ سب سے اعلیٰ آئینی ادارہ پالیمان ہے جو مقتدر اور عوامی منشا کا مظہر ہوتا ہے۔ بظاہر پارلیمان فعال ہے لیکن درحقیقت فیصلے ایوان کے فلور پر نہیں کہیں اور ہوتے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کا کیا موقف ہو گا؛ ایوان کو مچھلی منڈی بنایا جائے گا؛ ہنگامہ بپا ہو گا؛ کارروائی میں رکاوٹ ڈالی جائے گی یا ایوان کو چلنے دیا جائے گا؟ یہ فیصلہ اراکینِ پارلیمان نہیں ان کے قائدین کرتے ہیں۔ اسی ایوان میں سیاسی خاندانوں نے اپنی کرپشن کا دفاع بھی کرنا ہے‘ اور الزام بھی لگانا ہے۔ جو کام قانون اور عدالت کے سامنے کرنے کا ہوتا ہے وہ یہاں کیا جاتا ہے‘ اور اسے ہی کافی سمجھا جاتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ سیاسی رہنما لگنے والے الزام پر پارلیمان کو اعتماد میں لیتے ہیں‘ لیکن وہاں جواب خود دینا ہوتا ہے‘ کوئی کسی کی وکالت نہیں کرتا۔ اگر ٹرمپ پر الزام ہے تو وہ خود بات کریں گے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چند سیاسی شخصیات کا مقدمہ تمام سیاسی نظام کو لڑنا پڑتا ہے۔ ان شخصیات کے پارلیمان پر قبضے کی ابتدا پارٹی ٹکٹ سے ہوتی ہے۔ اس کے لیے اندھی وفاداری بنیادی شرط ہے۔ سیاسی خاندان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے‘ جی حضوری کرنی ہے۔ ''مذاقِ جمہوریت‘‘ میں یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ کسی بھی رکن کو آزاد رائے رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اراکینِ پارلیمنٹ کی آزادی کا تعین سیاسی خاندانوں کی منشا اور مفادات کریں گے۔ یہ زبان بندی دنیا میں اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔ اظہار پر پابندی جمہوری روایت کے برعکس ہے۔ پارٹی نظم اور یک جہتی ہوتی ہے‘ زبان بندی نہیں ہوتی۔ اس وقت برطانیہ میں دونوں سیاسی جماعتوں کے اندر بریگزٹ کے مسئلے پر دھڑے بندی ہے۔ اراکین کو اپنے اپنے ضمیر کے مطابق بات کرنے کی اجازت ہے۔ ہمارے دو بڑے سیاسی خاندانوں کے خلاف کرپشن کے ثبوت سب کے سامنے ہیں لیکن مجال ہے کہ اُن کی جماعت کا کوئی رکن میڈیا میں‘ یا پارلیمان میں جرأت کے ساتھ سچ بول سکے۔ نجی محفلوں میں‘ دوستوں کے درمیان وہ اعتراف کرتے ہیں کہ لوٹ مار کی گئی‘ لیکن پارلیمان میں اس کے برعکس بات کریں گے؛ چنانچہ پارلیمان کی بے توقیری کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ایک ہی کنویں میں چکر کھاتے رہنے کو جمہوری جدوجہد قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری وجہ جو دراصل پہلی وجہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کا فقدان ہے۔ سب کا سفر سیاسی تحریکوں سے شروع ہوا‘ ان پر جمہوریت کی قلعی چڑھائی گئی اور پھر دو خاندان ان پر حاوی ہو گئے۔ اس پر بہت کچھ کہا‘ اور لکھا جا چکا۔ آج کسی کو بھی شک نہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) موروثی جماعتیں ہیں‘ اور جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ حالیہ ہفتوں کے دوران برطانوی وزیرِ اعظم‘ ٹریسا مے مستعفی ہوئیں تو نئی قیادت کا تعین اُن کی جماعت کے اراکین نے کیا۔ پاکستان میں تو کسی کو معلوم بھی نہیں کہ امریکہ کی سیاسی جماعتوں کے سربراہ کون ہیں؟ سربراہ ہوتے ہیں‘ لیکن وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیسا دوغلا پن ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے‘ لیکن اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا شائبہ تک ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ آخری بات‘ بااصول اور نظریاتی سیاسی کارکن ماضی کا قصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں ایسے صحافی اور دانشور بھی تھے اور سیاست کے میدان کے کھلاڑی بھی جو فکری طور پر آزاد تھے۔ اُن کی کسی کے ساتھ وابستگی یا مخالفت سیاسی مفاد سے بالاتر تھی۔ لیکن جب کردار کشی سیاست بن جائے تو نظریاتی سیاست کا خطرہ کون مول لے گا؟