تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-07-2019

روس کی ’’عقل ِ سلیم‘‘

رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک روس میں بھی کرکٹ 1870ء سے کھیلی جارہی ہے۔ روس کو آئی سی سی کا ایسوسی ایٹ رکن بھی بنایا جاچکا ہے‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ روس میں ''عقلِ سلیم‘‘ کا بٹن دب گیا ہے۔ حال ہی میں جاری کی جانے والی رینکنگ میں کھیلوں کی روسی وزارت نے کرکٹ کو باضابطہ کھیل تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فٹبال کے بعد کرکٹ دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے‘ مگر روسی حکومت نے بظاہر اعلان کردیا ہے کہ وہ اس کھیل کو کسی بھی حوالے سے سپورٹ نہیں کرے گی۔ 
کرکٹ کے ورلڈ کپ کو ختم ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہے۔ ایسے میں روس جیسے بڑے ملک کی طرف سے کرکٹ کو کھیل کی حیثیت سے تسلیم ہی نہ کرنے کا فیصلہ بہت حیران کن ہے۔ آج دنیا بھر میں کرکٹ کا غلغلہ ہے۔ اس کھیل سے اربوں ڈالر کا بزنس وابستہ ہے۔ پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ انگلینڈ‘ ویسٹ انڈیز‘ جنوبی افریقا اور دیگر ممالک میں مجموعی طور پر کم و بیش دو ارب افراد کرکٹ سے شغف رکھتے ہیں۔ بزنس کے حوالے سے بھارت سر فہرست ہے ‘اس لیے آئی سی سی اُسے بیشتر معاملات میں غیر معمولی اہمیت دیتی ہے۔ روس میں کرکٹ کا تسلیم نہ کیا جانا بہت سوں کے نزدیک شاید تفنن ِ طبع کا موضوع ہو‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ روس میں کھیلوں کی وزارت کے بڑے دماغوں نے تمام معاملات پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کھیل کو تسلیم کرنے سے انکار ہی میں دانش مندی ہے۔ کرکٹ کو تسلیم کرنے سے انکار میں دانش مندی کیوں محسوس کی گئی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں کرکٹ سے جُڑے ہوئے متعدد اُمور کا جائزہ لینا پڑے گا۔ 
فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے۔ ہر براعظم میں اس کھیل کے متوالے موجود ہیں۔ فٹبال کو مقبول ترین کھیل بنانے میں کلیدی کردار دورانیے کا ہے۔ محض ڈیڑھ گھنٹے میں نتیجہ شائقین کے سامنے آجاتا ہے۔ ایک طرف تو کھیل میں تیزی ہے اور دوسری طرف دورانیہ کم ہے۔ شائقین اور ناظرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے میں میچ کا فیصلہ ہو جائے گا اور اُن کا وقت غیر ضروری طور پر ضائع نہیں ہوگا۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایسے تمام کھیل پسند کیے جاتے ہیں‘ جن کے مقابلے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ بعض کھیل طے شدہ دورانیے سے پہلے بھی ختم ہو جاتے ہیں‘ مثلاً: باکسنگ۔ ایتھلیٹکس کی مقبولیت کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ایک ہی دن میں درجنوں مقابلے کامیابی سے اختتام کو پہنچتے ہیں۔ کرکٹ بہت نپا تُلا اور شائستہ کھیل ہے۔ اس کھیل میں منصوبہ سازی کی بھی بہت اہمیت ہے اور موسم کی بدلتی ہوئی کیفیت بھی نتائج پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک روزہ میچ میں بھی 9 گھنٹوں کے دوران موسم میں رونما ہونے والا تغیر قیامت ڈھا جاتا ہے۔ 
کسی بھی دوسرے کھیل کے مقابلے میں کرکٹ میں نظم و ضبط‘ تحمل اور منصوبہ سازی کی بہت اہمیت ہے۔ یہ کھیل تمام کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بہترین انداز سے آزماتا ہے۔ یہ شاید واحد کھیل ہے‘ جس میں کپتان کی ذہانت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ میچ کے مختلف مراحل میں کھلاڑیوں کی ترتیب بدل کر‘ اُنہیں مختلف طریقوں سے آزمانے پر شائقین کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی اور کھیل میں قائدانہ کردار کی ایسی غیر معمولی اہمیت نہیں۔ ایک ہی وقت میں چونکہ تمام کھیل کھلاڑی میدان میں اور متحرک ہوتے ہیں ‘اس لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے۔ کرکٹ میں بیٹنگ آرڈر بدلنے سے بہت کچھ بدل جاتا ہے‘ اسی طور ہر باؤلر کا کوٹا کئی ٹکڑوں میں اور مختلف مراحل میں بروئے کار لانے سے نتائج پر خاطر خواہ حد تک اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بیٹسمین کا نمبر بدلنے سے میچ کا نتیجہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ کپتان کے لیے لازم ہے کہ ہر بیٹسمین سے اُس کے مزاج کے مطابق ‘کام لے اور میچ کے نتیجے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔ باؤلنگ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ 
کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ دورانیے کا ہے۔ فی زمانہ پانچ روزہ کرکٹ کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔ دنیا بھر میں ڈیڑھ دو گھنٹے کے مقابلوں کو پسند کیا جاتا ہے۔ چند ہی ممالک ہیں ‘جہاں لوگ بھرپور فراغت کے ساتھ پورا دن کرکٹ میچ دیکھتے رہنے کی عیاشی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک میں کرکٹ جیسے وقت طلب کھیل کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا اور ریاستی سطح پر بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں‘ جس میں سبھی کچھ برق رفتاری سے طے کیا جارہا ہے۔ ایسے میں کرکٹ جیسے کھیل کے چاہنے والوں کا پایا جانا حیرت انگیز ہے۔ 
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کرکٹ ہر اعتبار سے ایک جامع کھیل ہے اور اس کا اصل لطف یا حُسن ٹیسٹ کرکٹ میں ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ ہی کسی بھی کرکٹر کی صلاحیت‘ مہارت‘ سکت‘ مزاج اور ذہنی تیاری کا بھرپور امتحان ہے۔ جو لوگ کرکٹ سے حقیقی شغف رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں‘ ٹی ٹوئنٹی جیسا فارمیٹ کرکٹ کے شایانِ شان نہیں۔ اس قسم کی کرکٹ بہت حد تک گلی ڈنڈے سے مشابہ ہے! 
کرکٹ جو کچھ بھی ہے وہ اپنی جگہ اور آئی سی سی جو کچھ کر رہی ہے وہ اپنی جگہ۔ کرکٹ کی بات آجائے تو اب لوگ کھیل سے ہٹ کر بہت کچھ سوچنے لگتے ہیں۔ ویسے تو خیر اب ہر شعبے میں شدید نوعیت کا اور خاصا غیر لچک دار کمرشل ازم در آیا ہے‘ مگر پھر بھی کرکٹ کا معاملہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ آئی سی سی نے کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران کرکٹ کے نام پر جو کھیل کھیلے ہیں‘ اُن کے ہاتھوں کرکٹ کا حقیقی لطف جاتا رہا ہے۔ اب تو بالکل واضح فتح میں بھی لوگ کہانیاں تلاش کرتے ہیں۔ جن ممالک کی کمرشل ویلیو زیادہ ہے ‘اُن کی ٹیم کو کسی بھی حال میں ایونٹ سے باہر نہیں ہونے دیا جاتا۔ کوشش کی جاتی ہے کہ دھندا چلتا رہے‘ اسپانسر آتے رہیں اور مال لگاتے رہیں‘ جن ممالک کے سپانسر زیادہ ہوں‘ اُن کا ایونٹ میں رہنا لازم ہو جاتا ہے۔ آئی سی سی من پسند ممالک کو ڈولی میں بٹھاکر آگے لے جاتی ہے۔ بگ تھری نے کرکٹ کو اس حد تک manipulate کیا ہے کہ بہت سوں کو اب بیشتر مقابلوں میں پہلا سا لطف محسوس نہیں ہوتا۔ محض دو تین نو بالز کی بنیاد پر سپاٹ فکسنگ کا الزام عائد کرکے کھلاڑیوں کے کیریئر چوپٹ کرنے والی آئی سی سی نے اس بار پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کرنے کا تماشا خاموشی اور بے حِسی کے ساتھ دیکھا۔ جب معاملات اس حد تک گڑبڑا جائیں تو شائقین کا ذوق و شوق کیوں نہ ڈگمگائے؟ 
کرکٹ کے نام پر اداکاری اور مکاری کا خاتمہ لازم ہے۔ ایسا نہ ہوا تو کرکٹ سے شغف رکھنے والے کئی دوسرے ممالک بھی روس ہی کی سی ''عقلِ سلیم‘‘ کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوں گے! وقت آگیا ہے کہ آئی سی سی کرکٹ سے جُڑے ہوئے ہر معاملے کو کاروباری پہلو کی نذر کرنے سے گریز کرے۔ پاکستان سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک بھی بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں غیر متعلق بنانے کی سازش پر عمل اب روکا جانا چاہیے۔ جو ممالک کسی ٹھوس جواز کے بغیر پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کرتے ہیں‘ اُن کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔ بھارت کی ٹینس ٹیم پاکستان آنے پر بخوشی راضی ہے تو کرکٹ ٹیم کس بات پر معترض ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved