اطہر رضوی ایک سماجی مورّخ ہیں۔ ان کی نئی کتاب ’ڈوبتے سورج کے سائے ‘ پاکستان کے تناظر میں بہت اہم سوالات لیے ہوئے ہے۔ اس کتاب کا انتساب پارلیمان کی اقلیتی مگر جرأت مند رکن آسیہ ناصر کے نام کیا گیا ہے۔ یہی نہیں وہ ان تمام عناصر پر تنقید کرتے ہیں جو مختاراں مائی کی بے حرمتی کے واقعے سے انکار کرتے ہیں یا سلمان تاثیر کے قتل یا ملالہ یوسف پر حملوں کے محرکات کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تو اورآصف زرداری جیسے لیڈر کے لیے بھی ان کا روادار قلم فقرے تخلیق کرتا ہے۔ تاہم اس میں مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں کی وفات کے بارے میں لکھا ہے: ’’دہلی کے محل میں اس کی بے شمار کتابوں سے بھرپور لحیم و شحیم الماری اس پر گر پڑی،اس طرح مغلیہ سلطنت کی عظمتوں کی کمزور کڑی،نصیرالدین ہمایوں اس دنیا سے رخصت ہوا‘‘ (ص 115)۔ یہ وہ انکشاف ہے جس پر مجھ ایسا کم مطالعہ شخص بھی چونک اٹھتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ ہمارے نصابوں سے تاریخ تو خارج ہو گئی ہے‘ ایک عرصے سے،رہ گیا مردود جغرافیہ تو وہ پہلے ہی ہمارے نظریے سے ٹکراتا ہے کہ ایک مکتبِ خیال کے مطابق پاکستان سراسر ایک نظریے کا نام ہے جس کے ’’حکم‘‘ پر چودہ اگست کو دنیا کے نقشے پر ایک جغرافیائی جزیرہ ابھرا،جس کے بہت سے باشندوں نے بھارت سے ہجرت کی تھی، اُن میں سے اکثر قومی زبان بولتے تھے۔ ہمیں ٹیکسلا،موہنجو داڑویا ہڑپہ کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ چولستان میں گنویری والا کے مقام پر کھدائی کر کے ان کافر تہذیبوں کے ہم عصر شہر کو ریت کے تابوت سے باہر لانے کی ضرورت ہے اورنہ پاکستانی بچے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں مہر گڑھ کے مقام پر دنیا بھر کی معلوم تہذیب کے سب سے پرانے آثار ہیں۔ رہ گئی تاریخ تو اسے ہم نے اسلامی تاریخی ناول لکھنے والوں کے سپرد کر دیا ہے جنہوںنے ہمیں باور کرا رکھا ہے کہ ماضی میں ہم دنیا بھر پر حکومت کرتے تھے،مسلمانوں میں کبھی اختلافات نہیں ہوتے تھے،کوئی سنی تھانہ شیعہ اور نہ خارجی۔ ہمارے اسلاف میں مثالی تعلقات تھے۔ یہ تو یہود و ہنود ہیںجنہوں نے وقتاً فوقتاً ڈلائلہ کی طرح ہمیں اپنی طاقت کے جوہر یعنی بالوں سے محروم کر دیا،اسی لیے محبانِ وطن کی جماعت پہلے ہیئر ٹرانسپلانٹ یا وگ پر توجہ دیتی ہے کہ ہم سے ایک گنجی قوم کی قیادت نہیں ہوتی،جس کے بارے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنی رپورٹوں میں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ تاریخی شعور کی پس ماندگی کا اظہار غلام اسحاق خان نے اپنی اس پریس کانفرنس میں کیا تھاجو بابری مسجد کے انہدام پر انہوں نے کی تھی اور اس میں انکشاف فرمایا تھا کہ پانی پت کی پہلی لڑائی ظہیر الدین بابر اور ابراہیم لودھی میں نہیں ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں اور کافروں میں ہوئی تھی،سو اس کا بدلہ لینے کے لیے ہندوئوں نے یہ تاریخی مسجد آج گرا دی ہے۔اگر ان سے تب کوئی پوچھتا کہ نصیرالدین ہمایوں کس سے شکست کھا کر ایران گیا تھا اور کیسے طہماسپ سے افواج لے کر اپنے کھوئے تخت کو بازیاب کیا تھا تو شاید وہ شیر شاہ سوری جیسے عظیم پٹھان کو بھی فراموش کر کے کافروں کو ہی ہمایوں کی پسپائی کا کریڈٹ دیتے؛ حالانکہ اب بھی ہمارے ہاں بہت سے خوش عقیدہ لوگ ہیں جو غلام اسحاق جیسے کردار کو قرونِ اولیٰ کا ایک مثالی کردار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے سے ہمارے نصاب سازوں نے مطالعہ پاکستان کا جو کیپسول تیار کر رکھا ہے،اس میں تحریکِ پاکستان کا پورا عمل سادہ اور دل نشیں طریقے سے بیان کر دیا گیا ہے۔ سرسید احمد خان اپنے بعض ہندو ساتھیوں کی تنگدلی سے آزردہ ہوئے تو انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کر دیاجس کے مطابق علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا،انہوں نے محمد علی جناح کو اس سے آگاہ کیا جو چودہ نکات پیش کر چکے تھے۔ جونہی وہ نکات مسترد ہوئے،انہوں نے علامہ اقبال کے اس خواب کو تعبیر دینے کا جتن کیا اور آخرکار یہ ملک وجود میں آ گیا۔ اس لیے میں نے جو تاریخ کا بہت اچھا طالب علم نہیں رہا ،اب تک ہمایوں کے بارے میں یہی پڑھا تھا کہ اسے چُنیا بیگم سے رغبت تھی،شیر شاہ سے شکست کے بعداس نے اس خوراک یعنی افیون کی مقدار بڑھا دی تھی۔تاہم اس کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے نصابی تاریخ نویسوں نے رقت پیدا کرنے کے لیے ہمیں اب تک بہلا رکھا تھا ’’اذان ہو رہی تھی اور وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا،اس نے وہیں بیٹھنا چاہا تو وہ گر پڑا اور پھر ان زخموں کے سبب چل بسا‘‘۔ اس طرح کی موت تو ہمارے ہاں نجی کتاب خانوں کے مالکوں کو دہلا دے گی،دوسرے جو کبھی کبھار کسی پبلک لائبریری میں جا نکلتے ہیں،ان کا جی بھی مطالعے سے اچاٹ ہو جائے گا۔ ہمارے نصابوں میںہمایوں کی موت کا جو بتایا گیا تھا،میں ایسا خوش فہم ہوں کہ پاکستان کے دو سابق حکمرانوں کی اسی طرح کی مثالی وفات کا منتظر رہا کہ مبینہ طور پر وہ بھی ’چُنیا بیگم‘سے رغبت رکھتے ہیں اور ان کے مداح ہمیں باور بھی کراتے رہے ہیں کہ اپنی بے توفیقی کے باوجوداذان کی آوازسن کر جہاں کہیں وہ ہوں ،بیٹھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں،یہ اور بات کہ گیارہ مئی سے پہلے وہ بیٹھنے کا لفظ سننا بھی پسند نہ کرتے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved