کامیاب زندگی بہت سے خواص کی متقاضی ہوتی ہے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں‘ جن کے بغیر کام چل ہی نہیں سکتا۔ صلاحیت بھی درکار ہوتی ہے اور سکت بھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ کام کرنے کی لگن بھی‘ مگر معاملہ یہاں نہیں رکتا۔ بھرپور کامیاب اور متوازن و مستحکم زندگی کے لیے اعتماد بھی ناگزیر ہے۔ ہر شعبے میں وہی لوگ آگے بڑھ پاتے ہیں‘ جو غیر معمولی اعتماد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اعتماد وہ دولت ہے‘ جس کے ہوتے ہوئے کسی اور دولت کی کچھ خاص ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
اعتماد راتوں رات پیدا ہونے والا وصف نہیں۔ یہ وصف بہت محنت اور توجہ سے پیدا کرنا اور پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ کسی کو بچپن ہی سے تربیت دی جائے‘ ذہنی تیاری کے ساتھ میدان میں اتارا جائے تو اُس میں اعتماد کا پیدا ہونا کچھ زیادہ دقت طلب نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ منصوبہ سازی کے تحت ہوتا ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کاروباری افراد اپنی اولاد کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو اپنے اداروں میں بہت چھوٹی عمر سے لانا شروع کرتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی اولاد کو کاروبار کی پیچیدگیوں سے تو خیر کم آگاہ کرتا ہے‘ اُن میں پائی جانے والی جھجھک ضرور ختم کردیتا ہے۔ جب یہ جھجھک ختم ہوتی ہے تو وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ معاملات میں دلچسپی لیتے پائے جاتے ہیں۔ کاروباری افراد کی اولاد خاندانی کاروبار کے اسرار و رموز بہت چھوٹی عمر میں سیکھ لیتی ہے اور یوں عملی زندگی میں اُسے زیادہ مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
غیر معمولی اعتماد کوئی خود رَو پودا نہیں۔ اعتماد کو پروان چڑھانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ علم اور عمل دونوں کا مشترکہ معاملہ ہے۔ معاشرے پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگاکہ معیارِ زندگی کا فرق دراصل اعتماد کا فرق ہے۔ جس میں جتنا اعتماد ہوتا ہے ‘وہ اُسی قدر کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔
اس حقیقت سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ عام آدمی کیریئر کے حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی خاطر اپنے جسم و جاں کو کھپا دینے میں وہ کوئی خاص قباحت محسوس نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت سوں کو الجھن سی محسوس ہوتی ہے۔ جو لوگ کیریئر کے حوالے سے سوچتے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر منصوبہ سازی کے بعد حکمت ِ عملی تیار کرتے ہیں ‘اُن کے نزدیک وہ لوگ بہت عجیب ہیں ‘جو سوچے سمجھے بغیر جیے جاتے ہیں اور کبھی اس حوالے سے افسردہ بھی نہیں ہوتے‘ کفِ افسوس بھی نہیں ملتے!
عام آدمی سے کیریئر کے بارے میں گفتگو کیجیے تو وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مشکل ہی سے آمادہ ہوگا کہ اُس کی سوچ میں کوئی بڑی خرابی ہے اور یہ کہ وہ خرابی دور بھی ہونی چاہیے۔ بات کچھ یوں ہے کہ لوگ اپنے لیے آسان راستہ چُن لیتے ہیں اور اُس پر گامزن رہتے ہیں۔ بھرپور کامیابی کی قیمت بہت سوں کے علم میں ہوتی ہے ‘اس لیے وہ اُس طرف جانے کا نہیں سوچتے۔
اعتماد پیدا کرنے کا عمل بہت چھوٹی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی بچے میں عملی زندگی کے حوالے سے غیر معمولی اعتماد پیدا کرنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب اُس کے والدین بھی اِس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوں۔ اگر‘ والدین ہی اعتماد کی اہمیت نہ سمجھتے ہوں اور اِس حوالے سے کچھ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو بچوں میں اعتماد کے بیج بھلا کس طور بوئے جاسکتے ہیں؟ بچوں کی بہتر تربیت کے لیے والدین کا باعمل ہونا لازم ہے۔ بچوں کے لیے والدین ہی آئیڈیل ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی سیکھتے ہیں‘ اُس میں کلیدی کردار اُس ماڈل کا ہوتا ہے‘ جو والدین کی شکل میں اُن کے سامنے ہوتا ہے۔ اس ماڈل میں جس قدر اعتماد ہوگا‘ اُسی قدر اعتماد اولاد میں بھی منتقل ہوگا۔ چند ایک استثنائی کیس بھی ہوتے ہیں۔ استثنائی کیسز کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بھرپور زندگی کے لیے اعتماد پیدا کرنے کے حوالے سے والدین میں غیر معمولی اعتماد کا پایا جانا لازم نہیں۔ والدین کی بھرپور توجہ سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ والدین اُن میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں تو اُنہیں کامیابی کے حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے اور اُن میں اعتماد کی سطح بھی بلند ہوتی ہے۔
پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے ‘جن میں لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دینے کے حوالے سے بہت نمایاں ہیں۔ محنت کرنے کی لگن دم توڑتی جارہی ہے۔اگر‘ کوئی مجبوری کی حالت میں زیادہ محنت کرتا بھی ہے تو ادھورے من کے ساتھ۔ نیم دلانہ طرزِ زندگی اپنانے سے افکار میں دم باقی رہتا ہے‘ نہ اعمال میں۔ اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لوگ اپنے اپنے طے کردہ دائروں میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے زندگی بسر کرنا بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو وقت ضائع کرنے کا عمل ہے۔ بدنصیبی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں وقت ضائع کرنے ہی کو زندگی بسر کرنا سمجھ لیا گیا ہے!
جس ماحول میں ذہن پنپنے کی راہ نہ پائے‘ ذوقِ عمل کو پروان چڑھانا انتہائی دشوار ہو‘ بہتر مستقبل سے متعلق سوچ ابھرنے کا نام نہ لے‘ گرد و پیش سے مطابقت پیدا کرنے کی لگن پیدا ہی نہ ہو‘ اُس میں زندگی بسر کرنا اعتماد کو قتل ہونے دینے کے مترادف ہے۔ آج ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ‘جو لگے بندھے شب و روز کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کسی نے اگر کسی دکان میں ملازمت اختیار کی تھی تو پندرہ بیس سال سے وہیں دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی کسی فیکٹری کا ملازم ہوا تو ڈیڑھ دو عشروں سے کہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اپنے آپ کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر لوگ اپنے طے کردہ دائرے میں رہتے ہوئے جینے کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ پھر کچھ اور کرنے کا اُنہیں خیال تک نہیں آتا۔ بے ذہنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا یہ انداز دراصل زندگی جیسی نعمت کو ضائع کرنے کی ایک واضح شکل ہے۔ اگر‘ انسان صبح کو شام کرنے تک محدود رہے‘ پیٹ بھرنے ہی کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھ لے یا قرار دے لے‘ آنے والے زمانے کے بارے میں سوچنے کو کفر کے درجے میں رکھتا ہو‘ زندگی کا رخ بدلنے کے معاملے میں ذرا بھی دلچسپی نہ لیتا ہو تو ایسی حالت کو کیا جائے گا؟ کیا یہ زندگی ڈھنگ سے گزارنے کا طریقہ ہے؟
جب ہم کسی معمول کے اسیر ہو جاتے ہیں‘ کسی ماحول کے غلام ہوکر جینے لگتے ہیں ‘تب ہم میں اعتماد کی سطح تیزی سے گرنے لگتی ہے۔ ہماری شخصیت اور صلاحیتوں کو محدود کرنے والا ماحول یا معمول اعتماد کے مقتل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس مقتل میں اعتماد کے ساتھ اور بھی بہت کچھ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ اگر‘ آپ اپنے ماحول کے ہاتھوں دبی ہوئی‘ کچلی ہوئی زندگی بسر کر رہے ہیں تو سوچیے‘ کہیں اس مقتل میں آپ کا سارا اعتماد ہی داؤ پر نہ لگ جائے۔ زندگی کے بازار میں سب سے بڑا سِکّہ رائج الوقت اعتماد ہے۔ جس میں اعتماد ہوتا ہے‘ وہ بے زری کی حالت میں بھی کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے‘ کر جاتا ہے۔ اعتماد نہ ہو تو‘ ڈھیروں دولت پانے والا بھی کچھ مدت کے بعد قلّاش ملتا ہے۔