بیرونِ ملک زندگیاں بسر کرنے والوں سے آپ نے کئی دفعہ سنا ہوگا کہ ہمیں اپنے وطن کی مٹی یاد آتی ہے ۔ کوئی نہیں کہتا کہ ہمیں اپنے وطن کا پانی یاد آتا ہے یا ہمیں اپنے وطن کے بادل یاد آتے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مٹی میں ہم رہتے ہیں ۔ ہمیں اس سے محبت ہو جاتی ہے ۔ اس مٹی کے اندر اور اس کے اوپر جاندار اپنی زندگیاں گزارتے ہیں ۔خدا نے یہ مٹی جانوروں کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تخلیق کی ہے ۔ کچی مٹی کے فرش پر جانور آسودہ رہتے ہیں ‘جب کہ سیمنٹ کے پکے فرش انہیں ناگوار گزرتے ہیں ۔
یہ مٹی دنیا کا ایک بہت بڑا عجوبہ ہے ۔ اس کی ساخت ایسی ہے کہ یہ ہمیں چلنے میں مدد دیتی ہے ‘ جب کہ ریت اور پانی میں چلنا کافی مشکل ہوجاتاہے ۔ خدا کہتاہے کہ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے ۔جی ہاں ‘ انسان سمیت سب جانوروں کو مٹی سے بنایا گیا ہے ۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ مٹی میں کاربن کے مختلف کمپائونڈز ہوتے ہیں ‘ جو کہ زندہ چیزوں کے جسموں کا بنیادی جزو ہیں ‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اللہ یہ بھی کہتاہے کہ ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔انسان سمیت سب زندہ چیزوں میں سب سے زیادہ وزن پانی کا ہوتا ہے ۔ تو یہ دو چیزیں ‘ جن میں کاربن بیسڈ کمپائونڈز کے علاوہ ہائیڈروجن اور آکسیجن جیسے عناصر شامل ہیں‘ یہ پانی میں گھل مل کر آپس میں زیادہ سے زیادہ تعامل کرتے رہے اور یوں زندہ خلیات پیدا ہوئے۔ اور ان زندہ خلیا ت میں خدا نے افزائشِ نسل کی صلاحیت رکھی تو اس طرح سے زمین پہ زندگی پیدا ہوئی ۔ ایک دفعہ زندگی پیدا ہو گئی تو پھر وہ کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو ئی ۔خدا نے یہ زندگی اسی زمین پر موجود مٹی اور پانی سے تخلیق کی ہے اور یہ لاکھوں برس کی کہانی ہے ‘ دوچار دن کی بات نہیں ۔
یہ مٹی جانداروں کا مسکن ہے ۔ وہ اس میں رہتے ہیں ‘ اس پر چلتے پھرتے ہیں ۔ اس مٹی کا ایک معجزہ یہ ہے کہ اس میں بیج پھوٹ سکتاہے اوراسی مٹی میں بیج سے پھوٹنے والی جڑ اپنا جگہ مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی لمبے اور دیو ہیکل درخت اس مٹی پر مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں ۔ انہی پودوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن سے ہم سانس لیتے ہیں ۔انہی پودوں پہ اگنے والے پتوں اور سبزیوں کو جانور کھاتے ہیں ۔یہ مٹی زندگی کی بنیاد ہے ۔
یہ مٹی ‘ یہ زمین جانداروں کے لیے habitableہے ۔ مطلب یہ کہ یہ زندگی کو پیدا ہونے ‘ بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں ان کی مدد کرتی ہے ۔ اس مٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ نا صرف پانی کو اپنے اندر جمع کرتی ہے‘ بل کہ یہ اس کی صفائی بھی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جہاں بھی مٹی کھودتاہے ‘ نیچے سے پانی نکل آتا ہے ۔خدا نے زمین پر کوئلے‘ لوہے‘ سونے سمیت بے شمار معدنیات رکھ کر ان کے اوپر یہ مٹی ڈال دی ہے ۔ ہزاروں برسوں سے آدمی مٹی کھود کر یہ معدنیات نکالتا چلا جا رہا ہے ۔ ابھی تک یہ ختم نہیں ہوئیں ۔اس لیے کہ ان معدنیات کی مقدار انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے طے کی گئی ہے ۔
اس مٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ اپنے اندر پانی ‘ تیل اور دوسری معدنیات کو ایک مخصوص گہرائی پہ تھامے رکھتی ہے ۔ نہ اسے اس سے زیادہ نیچے جانے دیتی ہے اور نہ ہی یہ ان معدنیات کو خراب ہونے دیتی ہے ‘ بل کہ جس طرح لکڑی کی ایک پیٹی میں آم پکتے رہتے ہیں ‘ اسی طرح اس مٹی کے نیچے رکھا ہوا کاربن آہستہ آہستہ کوئلے‘ تیل‘ گیس اور حتیٰ کہ ہیروں میں بدل جاتا ہے ۔ اگر‘ آپ اس مٹی سے نیچے جائیں گے تو وہاں انتہائی بلند درجہ ٔ حرارت پر یہ ساری معدنیات خراب اور ختم ہو جاتیں‘ لیکن مٹی نے انہیں اپنے اندر مخصوص تہوں میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور یہ کبھی مزید نیچے نہیں جاتیں اور انسان ان معدنیات سے مستفید ہو رہا ہے۔
مٹی کی پکّی اینٹ ایجاد ہونے سے قبل ہی ہزاروں برسوں سے انسان اس مٹی سے اپنے گھر بناتا چلاآیا ہے ۔ اسی مٹی میں ہمارے بچّے کھیلتے ہیں ۔ یہ مٹی زندہ چیزوں کو زندہ رہنے میں بھرپور مدد کرتی ہے ۔مٹی کی ساخت ایسی ہے کہ یہ جاندار خلیات کو بھرپور سپورٹ کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جراثیم بھی اس میں تیزی سے نشوونما پاتے ہیں ‘ اسی لیے تو اس مٹی کو انسان کی تخلیق میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ زندگی کو سپورٹ کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صابن بنانے والی کمپنیاں اپنے اشتہارات میں اس مٹی کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتی رہتی ہیں‘ لیکن جو بات وہ بتاتی نہیں ‘ وہ یہ ہے کہ مٹی تخلیق کرنے والی ہستی نے انسان سمیت سب جانداروں کے جسم میں ایک امیون سسٹم بھی نصب کررکھا ہے ‘ جو جسم میں داخل ہونے والے ہر جرثومے کے خلاف بھرپور جنگ لڑتا ہے ۔ ہماری حفاظت خدا کے حکم سے یہ امیون سسٹم کرتاہے ‘ صابن نہیں ۔
یہ مٹی اپنی اوپراور نیچے والی سطح پر نمی برقرار رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں پھوٹنے والے بیجوں اور ان کی جڑوں کو زندہ رہنے کے لیے درکار پانی ملتا رہتا ہے ۔پودے زندہ رہتے ہیں تو انہیں کھانے والے جانور زندہ رہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی پودوں اور جانوروں کو کھانے والے انسان بھی زندہ رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ یہ دیکھیے کہ جانوروں کا فضلہ اس مٹی کی زرخیزی بڑھانے میں مددگار ہوتا ہے ۔ یہ ایک سائیکل ہے ۔ آپ جب بھی زمین کو ‘ پانی کو ‘ فضا کو پڑھیں گے تو ہر طرف آپ کو سائیکل نظر آئیں گے ۔ واٹر سائیکل‘ کاربن سائیکل‘ نائیٹروجن سائیکل وغیرہ وغیرہ ۔
امیر‘ غریب جن چیزوں میں برابر ہو جاتے ہیں ‘ ان میں یہ بھی ہے کہ مٹی سے سب انسانوں کے جسم بنائے گئے ہیں ۔ جب صحت خراب ہوتی ہے تو امیر آدمی اپنی دولت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا اور جب صحت ٹھیک ہوتی ہے تو غریب آدمی میں بھی ایک بانکپن سانظر آتا ہے‘ جو شاید فطری بات ہے۔
الغرض اس مٹی سے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور اسی میں اسے ہمیشہ کی نیند سلادیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہرزبان میں یہ شاعری کا موضوع رہی ہے ۔؎
دو گز رقبہ فٹ دا کتبہ / ایویں انی دھوڑ اڑائی
خواجہ غلام فریدؔ نے کہا ہے:؎
مٹی نہ پھرول فریداؔ / یار گواچے نہیں لبدے
اور بلھےؔ شاہ نے کہا ہے:
نہ کر بندیا میری میری / نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ / دنیا فیر مٹی دی ڈھیری
ہم جب باہر نکلتے اور پیدل چلتے ہیں تو سڑک پہ اڑنے والی مٹی ہمیں ناگوار گزرتی ہے ؛حالانکہ ہم اسی مٹی سے بنے ہیں اور آخر کار جب ہمیں مٹی کی کچی قبر میں اتارا جاتا ہے تو اس وقت ہم احتجاج کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر یہ مٹی اتنی قیمتی ہے تو پھر ہمیں یہ اس قدر ارزاں نرخ پر کیوں دستیاب ہے ؟بیس پچیس ہزار روپے میں ایک پورا ٹرک ۔ جواب : اس لیے کہ اس زمین پر یہ فراوانی سے ہر کہیں دستیاب ہے ۔ جیسا کہ زندہ چیزیں ‘ بلی اور کتنے ہر گلی میں رلتے پھر رہے ہیں ۔ ورنہ یہ زندہ چیزیں اور یہ مٹی اربوں روپے مالیت کے حامل ہوتے ۔ کھرب پتی اپنے گھروں میں ایک آدھ گملا رکھا کرتے ۔