تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-07-2019

واشنگٹن کا جلسہ

پوری کوشش کرتا ہوں کہ سفر کے دوران بھی کالم طے شدہ دنوں کے حساب سے لکھوں‘ مگر آپ کو پتا ہے کہ انسان کے ارادے سے تکمیل کے درمیان کیا کیا رکاوٹیں‘ مجبوریاں اور خود ارادے کی بے بسی سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیتی ہے ۔سو‘ میرے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ پاکستان سے باہمی وقت کا فرق ایک اور مجبوری۔ دن بھر کی مصروفیات اور سفر کے بعد تھوڑا سکون ملے تو پتا چلتا ہے کہ کالم بھیجنے کا وقت گزر چکا ہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب سستی‘ کاہلی اور تھکاوٹ ہر چیز‘ ہر ارادے اور ہر کوشش پر حاوی ہو جاتی ہے۔ علی الصبح اٹھ کر کالم لکھنے اور بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں ‘مگر انسان کو بھلا ارادے پر ہمیشہ فتح کب نصیب ہوئی ہے۔ جناب علی المرتضیٰؓ کا قول یاد بھی آتا ہے اور ہم جیسے کم حوصلہ اور کمزور ارادے والوں کو تسلی بھی دیتا ہے کہ ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے اللہ کی ذات کو پہچانا‘‘۔
واشنگٹن ڈی سی میں عمران خان کا جلسہ کیسا تھا؟ اس کے تین بنیادی فریق ہیں‘ جو اس پر اظہار رائے کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے‘ پی ٹی آئی کے مخالفین اور غیر جانبدار حلقے۔ پی ٹی آئی والوں کے بقول‘ جلسہ بے مثال تھا اور تاریخ ساز بھی۔ پی ٹی آئی والوں کے مخالفین کے نزدیک جلسہ تھا تو بڑا‘ مگر اس کے لیے پی ٹی آئی نے امریکہ بھر سے اپنے حامی اور ورکرز اکٹھے کیے تھے۔ غیر جانبدار حلقوں کے مطابق ‘بھی یہ جلسہ بہت بڑا‘ شاندار اور بے مثال تھا۔ میرا ذاتی خیال بھی تھا کہ یہ جلسہ بہر حال بہت سے لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ‘اور بہت سوں کی توقعات سے بہت بڑھ کر ہوگا اور وہی ہوا۔
میری بومانٹ کے رہائشی (ہوسٹن کا نواحی قصبہ) طاہر جاوید سے ملاقات تو نہیں ہو سکتی‘ لیکن فون پر بڑی تفصیلی بات ہوئی۔ وہ اس جلسے کے لیے بہت ہی پرُ جوش‘ پرُ عزم اور متحرک تھا۔ طاہر جاوید محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے والے سیلف میڈ لوگوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ برسوں ہوئے ایک دن میں اپنے خانیوال والے دوست طاہر کے بومانٹ میں رہائش پذیر بڑے بھائی سرور جاوید کے ہمراہ طاہر جاوید کے گھر بیٹھا تھا اور مختلف موضوعات پر باتوں کا سیشن چل رہا تھا۔ طاہر جاوید سے میری پہلی ملاقات بھائی سرور جاوید کے توسط سے ہوئی تھی۔ دونوں ایک ہی قصبے کے رہائشی تھے۔ کبھی ‘اسی جگہ اعظم سواتی بھی رہتے تھے۔ پھر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئے۔ آثار بتاتے ہیں کہ اس ''ہجرت‘‘ کی وجہ پاکستان سے محبت تو نہ تھی۔ کوئی مجبوری آن پڑی تھی۔ اب یہ مجبوری کیا تھی؟ طاہر جاوید کو غالباًسارا علم ہے‘ مگر مجال ہے جو دائیں بائیں سے گھما پھرا کر کئے گئے سوالات کے باوجود اس نے اس موضوع پر اپنا پلا پکڑایا ہو۔ وہ بھی بات کو اسی طرح گھما پھرا کر دوسری طرف لے جاتا ہے ‘جس طرح ہم سوال کرتے ہیں۔
اس پہلی ملاقات میں ہی ''کھلے ڈلے‘‘ طاہر جاوید سے میری دوستی ہو گئی۔ نوٹ جمع کرنے کے شوقین طاہر جاوید نے امریکہ میں بے تحاشا نوٹ اکٹھے کیے ہیں۔ اس نوٹ جمع کرنے کے شوق سے میری مراد وہی شوق ہے ‘جو بچپن میں بہت سوں کو ہوتا ہے۔ میرا بیٹا بھی دوسرے ممالک کے نوٹ جمع کرتا ہے۔ میں ہر جگہ سے اس کے لیے کرنسی نوٹ لے کر جاتا ہوں‘ جو وہ ایک البم میں سجا لیتا ہے۔ طاہر جاوید کے پاس بھی اس قسم کے نوٹوں کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ یہ شوق بتاتا ہے کہ ابھی طاہر جاوید کے اندر کا بچہ سلامت ہے اور بھرپور زندگی کے مزے لے رہا ہے۔ نوٹوں سے یاد آیا‘ پاکستان کے معروف اور سینئر صحافی عبدالودود قریشی کے پاس پاکستانی نوٹوں کی بڑی شاندار کلیکشن موجود ہے۔ ہر ڈیزائن کا اور ہر مالیت کا۔ اوپر سے ہر گورنر کے دستخطوں سے جاری شدہ نوٹ ایک علیحدہ ترتیب میں موجود ہیں۔ کم از کم میری نظر سے صرف پاکستانی نوٹوں کی ایسی شاندار کلیکشن نہیں گزری۔ بومانٹ والے طاہر جاوید نے ادھر اُدھر کے ممالک کی کرنسی نوٹوں کے علاوہ ڈالر بھی بہت اکٹھے کیے ہیں اور پاکستان کا مسئلہ آن پڑے تو وہ یہ والے نوٹ خرچ بھی کرتا ہے۔
اس کے صحن میں ہونے والی پہلی ملاقات بڑی مزیدار تھی۔ طاہر جاوید بتانے لگا کہ جب وہ امریکہ آیا تو ایک سٹور پر بطور ِسیلز مین اسے نوکری مل گئی۔ پہلا دن کائونٹر پر کھڑے ہو کر گزارنے کے بعد آخر میں تھک کر وہ سٹول پر بیٹھ گیا۔ اسی دوران اگلی شفٹ والا گورا آیا تو اس نے اسے بتایا کہ دورانِ ڈیوٹی سٹول یا کرسی پر بیٹھنا یہاں کے طے شدہ اصولوں کے خلاف ہے‘ لہٰذا وہ آئندہ ایسی غلطی نہ کرے۔ طاہر جاوید کہتا ہے کہ میں نے اسی دن تہہ کر لیا کہ یہاں نوکری نہیں کرنی۔ اپنا کام کرنا ہے اور آج وہ امریکہ میں رہنے والے خوشحال پاکستانیوں کی صف ِاول میں شمار ہوتا ہے۔ سرگرم ڈیموکریٹ ہے۔ ہلیری کی الیکشن مہم میں ٹیکساس اور اس کی سات آٹھ متصلہ ریاستوں کی الیکشن مہم کا انچارج تھا اور ہلیری کلنٹن کی الیکشن مہم میں غالباً سب سے معروف اور بلند مرتبہ پاکستانی تھا۔ اس سے اس بار محض فون پر بات ہوئی ‘وہ بطورِ پاکستانی شاہ محمود قریشی کی وزیر خارجہ ہونے کے حوالے سے بڑی تعریف کر رہا تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ تمہارا شاہ محمود قریشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ وہی ہے‘ جو تمہاری تعریف سے پہلے تھا۔ وہ پوچھنے لگا: اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میں نے کہا :میرے تعلقات شاہ محمود قریشی سے پہلے بھی کوئی خاص اچھے نہیں‘ بلکہ سچ پوچھیں تو خاصے خراب ہیں۔ آپ اسے کیوں مزید خراب کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ جانے طاہر جاوید واقعتاً لا علم تھا یا مزے لے رہا تھا ۔مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کیونکہ ملتان کے ہیں ‘اس لیے شاہ محمود کی شخصیت کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ ویسے میں نے امریکہ میں شاہ محمود قریشی کے ساتھ کئی دن‘ بلکہ ایک ماہ سے زیادہ وقت اکٹھے گزارا ہے اور اسے ماضی کے بہت سے پاکستانی وزراء اور خصوصاً بطورِ وزیر خارجہ بہت بہتر پایا ہے۔ میں نے کہا :بطورِ وزیر خارجہ ‘ان کی کارکردگی کے بارے میں آپ درست کہتے ہوں گے‘ مگر بطور ِسیاستدان اور ذاتی معاملات (اس ذاتی سے مراد وہ ذاتی نہیں‘ جس سے ہم لوگ پرائیویٹ زندگی مراد لیتے ہیں‘ اس سے میرا مطلب ان کے لوگوں سے ''معاملات‘‘ ہے) کے حوالے سے نوے فیصد صحافی برادری‘ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور اسی شرح فیصد سے عام ورکر‘اُن کے بارے میں وہی خیالات رکھتا ہے ‘جو میں رکھتا ہوں۔ اگر‘ یقین نہ آئے تو کسی دن ملتان تشریف لائیں تو دیگ میں سے ایک نوالہ چاول آپ کو چیک کروا دیں گے۔ معاملات کو کسی اور طرف جاتا دیکھ کر طاہر جاوید نے باتوں کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔
مجھے خوب اندازہ تھا کہ واشنگٹن کا جلسہ بہت بڑا ہوگا ‘تاہم میرا خیال تھا کہ دس بارہ ہزار لوگ جمع ہو گئے تو بڑی بات ہوگی ‘لیکن تبھی ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کہنے لگا کہ شرکا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کہ ہم اس جلسے پر بہت محنت کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کا پی ٹی آئی سے کیا تعلق ہے؟ وہ کہنے لگے: میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ‘مگر پاکستان سے تو ہے۔ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور امریکہ میں ان کی آمد پر ایک شاندار اور متاثر کن جلسے کا اہتمام ہم پاکستانیوں کی دلی خواہش ہے۔ اس کا یہاں ایک بہت مثبت اور اجتماعی پیغام جائے گا۔ بحیثیت ِپاکستانی شہری بھرپور کوشش ہوگی کہ یہ ایک بھرپور اجتماعی مظاہرہ ہو۔ طاہر جاوید اور ڈاکٹر آصف ریاض قدیر جیسے پاکستانی دوستوں کی کاوش‘ محنت اور خواہش رنگ لائی اور واشنگٹن کا جلسہ بھرپور رہا‘ لیکن اس کے بھی تین فریق ہیں؛ عمران خان‘ پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی مخالفین۔ پی ٹی آئی والوں کا خود یہی کہنا ہے کہ یہ ہمارا شو تھا اور ہم نے امریکہ میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مخالفین بھی اسی بات پر متفق ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کا سیاسی جلسہ تھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی اپنی تقریر کے ذریعے اسے پی ٹی آئی کا جلسہ بنانے کی بھرپور کوشش کی اور الحمد للہ کامیاب بھی ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved