پاکستانی میڈیا آزاد‘ آپے سے سے بھی باہر ہو جاتا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''پاکستانی میڈیا آزاد‘ بعض اوقات آپے سے بھی باہر ہوجاتا ہے‘‘ جبکہ حکومت تو ہر وقت ہی آپے سے باہر رہتی ہے‘ لہٰذا میڈیا ہماری نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ حالانکہ نقل کیلئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے‘ جبکہ ہم صرف واچ ڈاک کا کردار ادا کرتے ہیں‘ کیونکہ سینسر کے علاوہ بھی میڈیا کو نکیل ڈالنے کے سو طریقے ہیں‘ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کو معلوم ہے ‘اس لیے میڈیا اس طرح یعنی آپے سے باہر ہو کر کسی کی معلومات میں اضافہ نہیں کر رہا؛ حالانکہ کئی معاملات ایسے بھی ہیں‘ جو ذاتی حملوں کو موضوع بن سکتے ہیں‘ لیکن سست اور نالائق میڈیا محنت کرنے سے کتراتا ہے اور وہی پرانی باتوں کو دُہراتا رہتا ہے‘ آپ اگلے روز واشنگٹن میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف محب ِوطن‘ الزام لگانا عمران کا ذہنی دیوالیہ پن ہے: شہباز
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف محب ِوطن‘ ان پر الزام لگانا عمران کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘ کیونکہ خزانے کو پیسے سے صاف کرنے سے زیادہ حب الوطنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ صفائی پر یقین رکھتے ہیں‘ اسی حب الوطنی کا ثبوت میں نے بھی کافی حد تک دیا ہے ‘بلکہ بھائی صاحب سے بھی آگے نکل گیا ہوں اور اس کا مطلب ہے کہ عمران‘ میری حب الوطنی پر بھی شک کرنے لگیں گے ؟جبکہ انہوں نے پہلے ہی سارے کام چھوڑ کر سارے نواز لیگیوں کی حب الوطنی پر شک کرنا شروع کر دیا ہے ‘جبکہ اثاثے بنانا اور بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا مطلب بھی دنیا پر دھاک بٹھانا ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز عمران خان کے دورہ ٔامریکہ پر بیان جاری کرر ہے تھے۔
اپوزیشن کا گلا گھونٹ کر حکومت نہیں کی جا سکتی: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کا گلا گھونٹ کر حکومت نہیں کی جا سکتی‘‘ لیکن یہ عجیب حکومت ہے کہ اپوزیشن کا گلا گھونٹ کر بھی پھل رہی ہے‘ بلکہ فراٹے بھرر ہی ہے‘ تاہم‘ ہم بھی کسی سے کم نہیں اور گلا بند ہونے کے باوجود پورا شور شرابہ کر رہے ہیں؛ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دورۂ امریکہ میں بھی کیڑے نکال رہے ہیں‘ جو کہ مکمل طور پر ناکام رہا ہے‘ کیونکہ وہ سارا کچھ پرچی پڑھے بغیر ہی کر رہے تھے‘ جبکہ اس ضمن میں نواز شریف کی تاریخی مثال موجود ہے‘ جبکہ ان کے جلسے میں بھی لوگ اس لیے جوق در جوق آئے تھے کہ وہ دیکھنا چاہتے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کیسا ہوتا ہے اور اُسے دیکھ کر کافی عبرت حاصل کی تھی ۔ آپ اگلے روز عمران خان کے دورہ ٔامریکہ پر بیان جاری کرر ہی تھیں۔
شعر‘ شعریات اور فکشن
یہ صفدر رشید کی تصنیف ہے جس میں جید نقاد‘ فکشن رائٹر اور شاعر شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور جسے مجلس ِترقی ِ ادب لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب مشتاق یوسفی کی ''آبِ گم‘‘ کے نام ہے‘ آغاز میں اَگے وائسیان کا یہ اقتباس درج ہے: ''ایک تنی ہوئی رسی ہے‘ جس پہ ناچتا ہوں‘ جس تنی ہوئی رسی پہ میں ناچتا ہوں‘ وہ دو کھمبوں کے بیچ ہے‘ رسّی پر جو میں ناچتا ہوں‘ وہ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک کا ناچ ہے‘ دوکھمبوں کے بیچ ‘جس تنی ہوئی رسّی پر میں ناچتا ہوں‘ اُس پر تیکھی روشنی پڑتی ہے‘ جس میں لوگ میرا ناچ دیکھتے ہیں‘ نہ مجھے دیکھتے ہیں ‘جو ناچتا ہے‘ نہ کھمبوں کو جس پر رسی تنی ہے‘ نہ روشنی ہی کو‘ جس میں ناچ دکھتا ہے‘ لوگ صرف ناچ دیکھتے ہیں‘‘۔ حرفے چند کے عنوان سے پیش لفظ مجلس کے سربراہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے قلم سے ہے‘ جبکہ دیباچے ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور محمد حمید شاہد نے قلمبند کیے ہیں اور مقدمہ خود مصنف نے۔ کتاب میں فاروقی صاحب کی تنقید کے سب پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ تنقید وہ ہے‘ جس میں شاعری اور فکشن کے حوالے سے فاروقی کی تنقید سے بحث کی گئی ہے اور جسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔یہ کتاب فاروقی صاحب کی تنقید پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
اور اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی شاعری:
ضمیرؔ ضعفِ بصارت سے بچنے کی خاطر
میں تھوڑی دیر اُسے روز دیکھ آتا ہوں
جب بھی چاہتا ہوں میں اُس سے ملنے کو
وہ مجھ کو کسی اور سے ملوا دیتا ہے
کسی رکی ہوئی شب کو گزارنے کے لیے
میں پی رہا ہوں نشے کو اُتارنے کے لیے
کسی بھی شخص کو میں نے رُلایا ہی نہیں ہے
میں مر چکا ہوں کسی کو بتایا ہی نہیں ہے
دو اشک پریشان کیے رکھتے ہیں تجھ کو
اتنا سا تو رو لیتے ہیں ہم ہنستے ہوئے بھی
باتیں سارے ہی ٹھیک کرتے ہیں
کام سارے خراب کرتے ہیں
لڑتا رہتا ہے اور بات پر مجھ سے
اور خفا مجھ سے اور بات پر ہے وہ
اُنہیں بھی دیتے ہیں طعنے جو کچھ نہیں کرتے
جو کرنا چاہیں‘ اُنہیں کرنے بھی نہیں دیتے
یہ جینے دیتے نہیں جینے والوں کو بھی ضمیرؔ
جو مرنا چاہے اُسے مرنے بھی نہیں دیتے
سائے میں بیٹھ کر ضمیرؔ اُس نے
پیڑ کو جلنے سے بچا لیا ہے
آج کا مقطع
اور گھر دیکھو کوئی اس کے تو چہرے پر‘ ظفرؔ
رنگِ دل باقی نہیں اب‘ رنگِ دُنیا رہ گیا