تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-05-2013

جب کوئی بات ’’پھسل‘‘ جائے!

زبان کہنے کو بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہے مگر گوشت کے اِس ذرا سے لوتھڑے نے اِنسان کو کیا کیا ذلیل کیا، کِتنی رُسوائی بخشی اور کیسی کیسی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ یہ ہلتی ہے تو ماحول میں تحرّک پیدا ہوتا ہے، بہت کچھ اُلٹ پَلٹ جاتا ہے۔ آن کی آن میں دُنیا ہی بدل جاتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر بولنے کے نتائج سے ہم کماحقہ واقف نہ تھے۔ رب کا شُکر ہے کہ اُس نے ہمارے لیے ٹی وی کی دُنیا بھی آباد کی اور ٹاک شو اینکرز دیئے تاکہ ہم جان سکیں کہ سوچے سمجھے بغیر، بلاتکان بولتے رہنے کے کیا کیا عواقب ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی پرواز بیشتر معاملات میں خاصی بُلند رہی اور اب خطابت کے آسمان پر اُن کی گُڈّی اِتنی اونچی اُڑ رہی ہے کہ خود اُنہیں بھی ٹھیک سے دِکھائی نہیں دے رہی۔ دو ڈھائی سال پہلے تک ہم مزاح کے مآخذ تلاش کرنے کے جھنجھٹ سے آزاد تھے۔ رحمٰن ملک جیسے کئی رہنما ہنگامہ برپا کیے رہتے تھے۔ اِن صاحبان نے اپنے بیانات سے ایک الگ دُنیا بسا رکھی تھی۔ بیانات کیا تھے، سُپر سٹور تھے جن میں سے اخبار نویس اور کالم نگار اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق مُفت خریداری کیا کرتے تھے۔ رحمٰن ملک کا اپنی زبان پر ایسا کنٹرول تھا کہ جب بولتے تھے، میڈیا کی ضرورت کے مطابق ہی بولتے تھے۔ یہی حال ذوالفقار مرزا کا تھا جو مخالفین کو لتاڑنے کے معاملے میں وہ کچھ بھی بیان کر جاتے تھے جو اُن کے یا کِسی اور (اِنسان) کے ذہن میں کبھی آیا ہی نہ ہو گا۔ آج رحمٰن ملک اور ذوالفقار مرزا کی باتیں یاد آتی ہیں تو ہمیں بے ساختہ ’’بڑی بڑی باتیں کرتے تھے‘‘ والا ایڈ یاد آ جاتا ہے۔ اور منظور وسان؟ اُن کے خوابوں نے بھی کالم نگاروں کی خاصی معاونت کی۔ جب بھی وہ کوئی خواب بیان کرتے تھے، ہم جیسے ناپُختہ کار اُن کے خِرمن کے خوشہ چیں ہو رہتے تھے۔ باقاعدگی سے کالم لِکھنے والوں کو روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ موضوع کی تلاش اور اُس کی ٹریٹمنٹ دِماغ کی چُولیں ہلا دیتی ہے۔ بھلا ہو منظور وسان کا جو روزانہ کئی کنویں کھود کر کالم نگاروں کے آگے دَھر دیتے تھے۔ یعنی جیسی ضرورت ہو ویسا پانی نکالیے۔ منتخب حکومت کی میعاد ختم ہوئی تو ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ اب دال روٹی کیسے چلے گی یعنی کوئی کیا کہے گا اور ہم کیا لِکھیں گے۔ خیر گزری کہ ایک دو اور رہنمائوں نے رحمٰن ملک اور ان کے ساتھیوں کی روش پر گامزن ہو کر ہماری توقعات کو حسرت میں تبدیل ہونے سے روک لیا ہے۔ زبان کا پھسلنا سُنتے تو آئے تھے مگر شہباز شریف نے بہت عمدگی سے ہمیں اِس وصف کے درشن بھی کرا دیئے۔ جنوری کے ابتدائی ایّام میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ دُہرا تعلیمی نظام ختم کر کے دَم لیں گے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پھر (تقریب کے شُرکاء سے مخاطب ہو کر) میرا ہاتھ ہو گا اور آپ کے گریبان! اِس پر ایسا لافٹر آیا کہ ایک لمحے کو تو خود شہباز شریف بھی سَنّاٹے میں آ گئے۔ چند ساعتوں تک کچھ نہ سُوجھا کہ داد مِلنے پر حاضرین کا شکریہ ادا کریں یا زبان کی پھسلن کا سفر آگے بڑھائیں۔ ہم نے سٹینڈ اپ کامیڈی میں دیکھا ہے کہ وہی ہنسانے والا کامیاب ہے جو سب کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دے مگر خود ساکن چہرے کے ساتھ کھڑا رہے۔ خیر سے یہ وصف ہمارے بہت سے لیڈروں میں بخوبی پایا جاتا ہے۔ جب بھی جلسے میں اُن کی زبان پھسلتی ہے اور لوگ ’’داد‘‘ کے ڈونگرے برساتے ہیں تب اُن کا چہرہ تاثرات سے اُسی طرح عاری ہوتا ہے جس طرح ہماری حکومتیں گُڈ گورننس سے عاری ہوتی ہیں۔ گزشتہ دِنوں دو مواقع پر شہباز شریف کی زبان پھسلی اور پھسلی بھی ایسی کہ سُننے والے قہقہوں کی ڈھلوان پر پھسلتے چلے گئے۔ تین دن قبل دُنیا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مرحلے پر شہباز شریف نے کہا: ’’تبدیلی کا نعرہ لگانے والے ظلم اور انصاف کے خلاف بات کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ظلم اور انصاف کے خاتمے کے لیے پانچ برس تک کوشش کی۔‘‘ ویسے جو کچھ شہباز شریف نے کہا اُس میں مفاہیم و مطالیب کا ایک انوکھا جہاں آباد ہے۔ جب کِسی پر ظلم ڈھایا جاتا ہے تو وہ اِنصاف طلب کرتا ہے۔ جب ظلم ہی نہیں رہے گا تو اِنصاف کی طلب بھی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔ ظلم کے جواب میں انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ظلم ہی جب مِٹ گیا تو پھر کیسا انصاف، کہاں کا انصاف! یعنی نفرت کو ختم کیجیے، محبت اپنے آپ مر جائے گی۔ ارسطو، افلاطون، سُقراط اور دوسرے بیسیوں نابغے شاید اِس دُنیا میں گھاس کھودنے آئے تھے! بُقراطیاں کرتے عمریں گزار دیں مگر ایسا عظیم نُکتہ اُن میں سے کِسی کو نہ سُوجھا۔ عمران خان نے بھی نہلے پر دہلا مارنے کی کوشش کی اور جب پھسلن کی پچ خالی دیکھی تو آگے بڑھ کر چَھکّا مارنے کی کوشش میں وکٹیں چھوڑ بیٹھے اور کلین بولڈ ہو گئے۔ خطابت کے جوش میں تحریکِ انصاف کے سربراہ نے چکوال کے بھرے جلسے میں حاضرین سے فرمائش کی کہ گیارہ مئی کو شیر پر مُہر لگائیں! لوگ حیران رہ گئے کہ اِتنی رواداری، حریف کا اِس حد تک احترام! ہمارے ہاں تو لوگ اپنے مخالفین اور حریفوں کا نام بھی سُننا یا لینا پسند نہیں کرتے۔ ایسے میں حریف کے نشان پر مُہر لگانے کی تاکید! لوگ یہ سمجھے کہ عمران خان کا تعلق چونکہ ایک پڑھے لکھے، روادار اور بُردبار گھرانے سے ہے اِس لیے وہ اخلاقی بُلندی کی نئی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا ہو کپتان کی یادداشت کا جو چند لمحات میں واپس آ گئی اور اُنہوں نے اپنی مخصوص شرمیلی، خِفّت بدوش ہنسی کے ساتھ غلطی کا ازالہ کیا اور ذہن پر سوار شیر کو اُتار کر ہاتھ میں پھر بَلّا تھام لیا۔ عمران نے سکور برابر کر دیا تھا مگر شہباز شریف نے پھر برتری حاصل کر لی۔ علی پور چَٹّھہ میں جلسے سے خطاب کے دوران پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ایک بار پھر خطابت کے جوش کی لہروں میں بہہ گئے۔ موصوف نے بھرے مجمع کے سامنے وعدہ کیا کہ اقتدار ملنے پر وہ دو برس میں بجلی ختم کر دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں شہباز شریف صاحب بجلی ختم کرنے کی حسرت دِل کی دِل ہی میں لیے رہ جائیں گے۔ توانائی کا بحران دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شریف برادران کو اقتدار ملنے تک بجلی ویسے ہی نہیں رہے گی۔ ٹھکانے لگانے کے لیے اُنہیں کوئی اور شعبہ منتخب کرنا پڑے گا۔ زبان کہاں نہیں پھسلتی؟ شادی کے موقع پر زبان کے پھسل جانے ہی کا نتیجہ اِنسان زندگی بھر بھگتتا رہتا ہے۔ جب شادی جیسی سو ڈیڑھ سو افراد کی تقریب میں اِنسان حواس باختہ ہو سکتا ہے اور زبان پھسل سکتی ہے تو ہزاروں، لاکھوں کے مجمع کو اپنے سامنے پا کر کِس کے حواس ہیں جو قابو میں رہیں گے؟ یہ سب عوام کا کیا دَھرا ہے۔ وہ بڑی تعداد میں جمع ہوں نہ قائدین کی زبان پھسلے۔ عوام کے جوش و خروش نے تو قوم کو راہ دِکھانے والوں کا ناک میں دَم کر دیا ہے۔ ہر دور میں عوام کے جوش و خروش کو دیکھ کر رہبران چوکڑی بُھولتے رہے ہیں۔ اِس جے جے کار ہی نے کئی رہبران کو بننے کی منزل ہی میں بگاڑ دیا، بلکہ برباد کر ڈالا۔ اگر یہی حال رہا تو زبان کے ساتھ ساتھ قائدین خود بھی پھسل کر کہیں سے کہیں پہنچتے رہیں گے اور ہم صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔ عوام سے التماس ہے کہ جلسوں میں اپنا جوش و خروش قابو میں رکھیں تاکہ قوم کو راہ دِکھانے کے مُتمنّی بھی حواس کی راہ سے نہ بھٹکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved