اندھیرے میں ایک دِیا بھی روشنی کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ روشنی کی دولت بانٹتا ہوا دِیا بہت اچھا لگتا ہے ‘مگر کوئی اندھیرے کے دل سے تو پوچھے کہ اُسے دِیے کا وجود کیسا لگتا ہے۔ زہر ہی لگتا ہوگا۔ دِیا جب روشن ہوتا ہے‘ تو اندھیرے کے سینے میں اُس کی لَو خنجر بن کر کُھب جاتی ہے۔
معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ جب جہالت‘ بے حِسی‘ بے ذہنی اور بے عملی کے اندھیرے بڑھ جاتے ہیں ‘تب روشنی پھیلانے والی ہر چیز فی نفسہ اچھی ہونے کے باوجود بُری لگتی ہے۔ جہاں ہر طرف بے عملی ہو وہاں عمل کی بات کرنے والا مجرم ٹھہرتا ہے۔ جہاں بے ذہنی کا راج ہو وہاں سوچنے کی تحریک دینے والوں کو قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماحول میں نظم و ضبط نہ پایا جاتا ہو تو ہر وہ انسان زہر کا پُڑا لگے گا‘ جو نظم و ضبط کی بات کرے۔ جس چیز کا چلن ہو‘ اُس سے گریز کرنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ اُن کا شمار ''ناپسندیدہ شخصیات‘‘ میں کیا جانے لگتا ہے۔
ہم خاصی مدت سے ارشد بھائی کو دیکھ رہے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کا اُن کا انداز کچھ کچھ ویسا ہی ہے ‘جیسا کسی سکاؤٹ کا ہوا کرتا ہے۔ ہر چیز طے شدہ ہے‘ ہر کام متعین ہے۔ سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ ملنا جلنا ... سب کچھ ایک خاص ذہنیت اور پہلے سے کی ہوئی تیاری کے ساتھ ہے۔ ارشد بھائی نے اپنے ذہن کو ایک خاص سانچے میں ڈھال رکھا ہے اور اُس سانچے سے (استثنائی یا ہنگامی معاملات کے سوا) رُو گردانی سے یکسر گریز کرتے ہیں۔
ارشد بھائی ایک بڑے جنرل سٹور کے مالک ہیں۔ ساکھ بہت اچھی ہے ‘اس لیے گھروں پر ماہانہ راشن کی ڈلیوری کا تناسب غیر معمولی ہے۔ اُنہیں ندیم جیسا وفادار ملازم بھی میسر ہے ‘جو سٹور چلانے میں غیر معمولی حد تک معاونت کرتا ہے۔ ارشد بھائی کھانے پینے کے معاملات میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ پینے کے لیے اُبالا ہوا پانی گھر سے لاتے ہیں۔ بازار کی تیار اشیائے خور و نوش استعمال کرنے سے وہ گریز کرتے ہیں۔ سُنا ہے کہ شادی کی تقریب میں بھی وہ شاذ و نادر ہی کھاتے ہیں۔ وہ ہوٹل کی چائے پینے سے بھی مجتنب رہتے ہیں۔ گفتگو کا بھی یہی معاملہ ہے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں۔ گاہک سے بھی اُتنی ہی بات کرتے ہیں‘ جتنی ضروری ہو۔ اور کسی دوست کو (بظاہر) اس بات کی اجازت نہیں کہ گپ شپ لگانے سٹور پر آجائے۔ لباس کے معاملے میں خِسّت دکھائی دیتی ہے‘ نہ فضول خرچی۔ وہ عمر کے اُس مرحلے میں ہیں ‘جہاں ٹِپ ٹاپ اچھی نہیں لگتی ‘مگر خیر‘ یہ بات پورے یقین سے اور بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ وہ جوانی میں بھی اپنیے روز مرہ کے معاملات میں ایسے ہی منظم اور متوازن رہے ہوں گے۔
یہ تو ہوا ذاتی مشاغل اور ترجیحات کا معاملہ۔ اب آئیے‘ کاروباری زندگی‘ یعنی عملی پہلو کی طرف۔ ارشد بھائی‘ لین دین کے معاملے میں نہایت کھرے ہیں۔ اُدھار دینے سے بالعموم گریز کرتے ہیں۔ اُن کے حوالے سے منافع خوری کی شکایت بھی نہیں ملتی۔ مال بھی معیاری ہوتا ہے۔‘جس پر اعتماد ہو‘ اُسے دس ہزار کا مال بھی ادھار دینے سے گریز نہیں کرتے اور جس پر سے اعتماد اٹھ گیا ہو‘ اُسے سو ڈیڑھ سو روپے چیز بھی ادھار نہیں دیتے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں آپ ارشد بھائی کی شخصیت کا اچھا خاصا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے ہیں ‘جو اُن سے خاصا چڑتے ہیں۔ کیوں؟ جو مختلف ہو وہ بیگانہ سا لگتا ہے۔ عمومی نفسی الجھن یہ ہے کہ جو ہم سا نہیں ہے ‘وہ اپنا نہیں! جس کی زندگی میں نظم و ضبط کا شدید فقدان ہو وہ تو چڑے گا ہی۔ جو مال ادھار خریدنے کا عادی ہو‘ وہ ارشد بھائی سے کیوں خوش ہوگا؟ جسے فضول گفتگو کی عادت ہو ‘وہ اُن کے بارے میں اچھی رائے کیوں رکھے گا؟ جسے بازار میں دستیاب کھانے پینے کی ہر چیز سے استفادے کا مرض لاحق ہو‘ وہ ایسا ویسا کچھ بھی کھاتے پیتے نہ دیکھ کر ارشد بھائی کو پسندیدگی کی نظر سے کیوں دیکھنے لگا؟ جو معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے متوازن رویہ نہ رکھتا ہو‘ وہ اُنہیں ایک خاص وقت پر سٹور کھولتے اور پھر مقررہ وقت ہی پر بند کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی کیوں محسوس کرے گا؟
ہر کامیاب انسان کی زندگی آپ کو پھیکی سی‘ بے رنگ سی محسوس ہوگی۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ تو زندگی کے سارے مزے لوٹ رہا ہے‘ مگر کامیابی سے ہمکنار افراد بے لطف زندگی بسر کر رہے ہیں! ایسا نہیں۔ کامیاب افراد ‘چونکہ متوازن زندگی بسر کرتے ہیں‘ اس لیے کسی بھی معاملے میں اُن کے جذبات بے قابو نہیں ہوتے۔ وہ ضبطِ نفس کے ساتھ جیتے ہیں ‘یعنی جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے‘ وہ ایک خاص منطقی حد میں رہتے ہوئے کرتے ہیں اور زندگی کے کسی بھی پہلو کو بہتات یا زیادتی کی نذر نہیں ہونے دیتے۔ ایسے لوگ ہر معاملے میں اپنے لیے چند حدود کا تعین کرتے ہیں اور اُن میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ عام آدمی اُڑاؤ مزاج رکھتا ہے‘ یعنی زندگی بس آج ہی آج ہے‘ مزے لوٹ لو! منظّم زندگی بسر کرنے والے ایسی طرزِ فکر و عمل کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ جشن بھی مناتے ہیں ‘تو مربوط طریقے سے اور سوگ بھی مناتے ہیں تو جذبات کے ریلے میں نہیں بہتے۔
ہر شعبے میں آپ کو مختلف سطحوں پر اور مختلف درجات کے ارشد بھائی ملیں گے ‘جو دوسروں سے الگ کھڑے دکھائی دیں گے۔ کھیلوں کی دنیا میں بھی آپ کو وہی لوگ آگے بڑھتے ہوئے ملیں گے ‘جو نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوں۔ جو ذرا سی شہرت سے بے حواس ہوکر عیاشی میں پڑ جائیں ‘وہ ابتدائی مرحلے ہی میں کیریئر کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ کاروباری دنیا میں آپ اُنہی کو آگے بڑھتا ہوا پائیں گے‘ جو ارشد بھائی کی طرح حساب کتاب سے زندگی بسر کرتے ہوں۔ علم و ادب کی دنیا بھی اُنہی پر کامیابی کے دروازے کھولتی ہے‘ جو اپنے وجود اور ماحول سے مخلص رہتے ہوئے پورے توازن اور ہوش مندی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ سرکاری مشینری پر نظر دوڑائیے گا تو پائیے گا کہ جنہوں نے ڈھیلی ڈھالی زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہونا گوارا کیا اور بے دِلی و بیزاری کی بجائے خوش دِلی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی‘ وہی زیادہ کامیاب رہے۔
ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ چند شخصیات آپ کو بہت نمایاں دکھائی دیں گی۔ اُن کی کامیابی عمومی نوعیت کے بے ڈھنگے پن سے گریز کا نتیجہ معلوم ہوگی۔ لوگ جب کسی بھی شعبے میں کسی نمایاں شخصیت کو دیکھتے ہیں تو اُس کی کامیابی کا راز جاننا چاہتے ہیں۔ اور ‘راز معلوم ہوتے ہی اُنہیں وہ شخصیت خواہ مخواہ بُری لگنے لگتی ہے‘ کیونکہ اُس کی زندگی میں نظم و ضبط بھی ہوتا ہے اور ضبطِ نفس بھی۔ بھرپور کامیابی کے لیے کی جانے والی محنت دیکھ کر بھی لوگ کچھ سیکھنے کی بجائے چڑنے لگتے ہیں‘ کیونکہ اُن کی اپنی زندگی میں پائی جانے والی خامیاں‘ خرابیاں اور کمزوریاں‘ اُس نمایاں شخصیت میں ڈھونڈے نہیں ملتی ہیں۔
ہمیں مختصر مدت کے برائے نام تعلق کے دوران ارشد بھائی سے کچھ زیادہ تو سیکھنے کو نہیں ملا ‘مگر ہاں! اتنا ہم نے ضرور سیکھا ہے کہ اطمینان بخش کامیابی اور متوازن زندگی کے لیے انسان کو ٹو دی پوائنٹ ہونا چاہیے ‘یعنی اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ اور‘ اتنا سیکھ لینا بھی بہت ہے۔