یہ بات تو طے ہے کہ دنیا ہر وقت ایک جیسی نہیں رہ سکتی۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں آپ کو کئی ادوار بڑے شاندار ملتے ہیں کہ بندہ اَش اَش کر اٹھتا ہے‘ لیکن زیادہ تر وہ دور ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر بندہ راتوں کو سو نہ سکے۔ ہر دور میں اچھے برے حکمران آتے رہے ہیں‘ اعلیٰ پائے کے ادیب‘ شاعر‘ فلاسفر‘ سائنسدان‘ مؤرخیں اور اچھے حکمران انسانی تاریخ کو آگے لے کر آئے‘ جن کے ادوار میں تہذیب و تمدن کو ترقی ملی۔
مجھے اکثر حیرانی ہوتی ہے کہ جن حملہ آوروں نے مقامی لوگوں کا لہو بہایا‘ ہرطرف لاشوں کے انبار لگاتے رہے وہی آج بڑی عزت کے ساتھ ہماری کتابوں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے جس نے جتنے زیادہ قتل کیے اسے اتنا زیادہ احترام ملا۔ اگرچہ کئی مورخیں یہ کہتے ہیں کہ جس دور کی ہم بات کرتے ہیں اس دور میں یہی رواج تھا ‘ وحشیوں کے غول پھرتے تھے جو انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہوتے اور کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے تھے۔ آج بھی سکندر کو عظیم کہا جاتا ہے کہ وہ یونان سے نکلا اور راستے میں آنے والے شہروں کو تباہ و برباد کرتا ‘ ایرانیوں کو شکست دیتا پوٹھوہار آن پہنا جہاں راجہ پورس نے بہادری دکھائی اور ایرانی پہلوان دارا کی طرح میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا ۔ ہماری کم ظرفی ملاحظہ فرمائیں کہ آج سکندر یونانی ہیرو ہے جبکہ اپنے پوٹھوہار کا راجہ پورس ولن اور اس کے ہاتھیوں کی ہم نے مثالیں بنائی ہوئی ہیں ۔
یورپ بھی ڈارک ایجز سے گزرا ہے جہاں ہر قسم کے بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ انسانی لہو کے پیاسے بادشاہ ہنری ششم کی کہانی تو ایسی خوفناک ہے کہ بندہ کانپ کر رہ جائے۔ اس نے اپنی چھ بیویاں قتل کرادی تھیں اور ایسے کسی کزن کو نہیں چھوڑا تھا‘ جس کے بارے ذرا بھی شک ہوا کہ یہ اقتدار کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ جب رشتے دار سارے قتل ہوگئے تو اس نے تلوار کا رخ دربار کی طرف کر لیا اور ان درباریوں کے سر قلم ہونے شروع ہوئے جن کی آنکھوں میں اسے اقتدار کے لالچ کا شبہ تک ہوا۔ کئی تو ایسے بھی مارے گئے جن پر شبہ بھی نہیں تھا‘ لیکن ویسے ہی گماں دل میں آگیا کہ اگر دوسرے لالچی ہوسکتے ہیں تو یہ بھی ہوں گے‘ لہٰذا سر اتارلو ‘نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ ہنری کے دو اہم لوگ نچلے لیول سے اٹھ کر اوپر آئے تھے‘ ایک موچی اور دوسرا قصائی تھا ۔ دونوں بہت ذہین تھے اور انہوں نے پوری سلطنت سنبھال رکھی تھی۔ جب سب کے سر قلم ہوچکے تو بادشاہ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور اس کی نظر ان کے سروں پر پڑی۔ وہ بھی قطار میں لگا دیے گئے۔ ہندوستان میں اگر دیکھیں تو بادشاہ اورنگزیب اس لائن میں نظر آتا ہے جس میں ہنری ششم تھا۔ ہنری نے اپنی چھ بیویوں کو قتل کرایا تو اورنگزیب نے اپنے باپ کو قید اور بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرایا تھا۔
ایک لمحے کے لیے ہم قدیم بادشاہوں کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور آج کے جدید دور کی طرف نظر دوڑاتے ہیں ۔ جب ہم نئے اور ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں ‘ تو کیا دنیا کو بہتر لوگ لیڈ کر رہے ہیں؟ اگرچہ کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ دنیا پہلے کی نسبت زیادہ پرسکون ہے اور وہ تشدد اور قتلِ عام نہیںجو قدیم دور میں نظرآتا تھا‘ لیکن میرے خیال میں قدیم دور کی جنگوں میں لوگ اتنی تعداد میں نہیں مرتے تھے جتنے آج کل ایک جنگ میں مارے جاتے ہیں۔ اس وقت جہاں انسانی آبادی کم تھی وہیں جنگی آلات بھی ایسے نہیں تھے کہ جن کی مدد سے بڑے پیمانے پر انسانوں کو اس طرح مارا جاسکے جیسے آج کے دور میں ایک بم ہی کافی ہے لاکھوں لوگوں کو مارنے کے لیے ۔ پرانے زمانوں میں جنگیں تلوار سے اور ہاتھی گھوڑوں پر لڑی جاتی تھی ‘ کوئی جہاز بمباری کرنے اور انسانوں کے چیتھڑے اڑانے کے لیے نہیں ہوتے تھے۔ چند سو سے لے کر چند ہزار تک لوگ ان جنگوں میں مارے جاتے تھے لیکن افغانستان کی ایک جنگ میں لاکھوں مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے‘ عراق میں یہی کچھ ہوا‘ شام میں بھی ہم یہی ہوتا دیکھ ر ہے ہیں ۔
دنیا میں جنگ و جدل جاری رہے گی‘ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ انسانوں کا ایک دوسرے پر حکمرانی کرنے کا نشہ اتنا خوفناک ہے کہ انسان اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتا ہے اوروہ اپنے جیسے انسانوں کو اپنی فلاسفی پر قائل بھی کر لیتے ہیں ۔ابھی دیکھ لیں بھارت نے ایک ایسے سیاستدان کو دوسری دفعہ وزیراعظم بنایا ہے جو ٹی وی پر بیٹھ کر کہتا ہے کہ اس نے پاکستان پر حملہ کرنے کا وہ وقت چنا جب بادل تھے‘ تاکہ بھارتی جہاز بادلوں میں پاکستانی ریڈار کو نظر نہ آئیں ۔ پوری دنیا ہنس رہی تھی لیکن پورا بھارت اسی سیاستدان کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ اپنا وزیراعظم بنا رہا تھا۔ بھارت میں اس وقت کمیونل اِزم اپنے عروج پر ہے اور روزانہ مسلمانوں اور دلتوں کو مارا جارہا ہے۔ بھارتی معاشرہ اس سے پہلے ایسی خوفناک صورتحال کا شکار نہ تھا۔ آپ کسی کو وزیراعظم بناتے ہیں تاکہ معاشرے ترقی کریں نہ کہ وہ تشدد اور تقسیم کا شکار ہوں۔ کبھی بھارت کی جمہوریت ایک رول ماڈل سمجھی جاتی تھی اور آج آپ کو بھارت سے خوف آنے لگا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو بھارت کا کیا حشر ہوگا؟اسی طرح آپ امریکہ کو دیکھ لیں ۔ لوگ آج تک یہ یقین نہیں کرپارہے کہ ٹرمپ صدر ہیں ۔ ابھی ان کا ویڈیو کلپ چل رہا تھا جس میں ایک یزدی لڑکی انہیں بتا رہی ہے کہ اس کے والدین اور بھائیوں کو شام میں قتل کر دیا گیا۔ امریکی صدر آگے سے پوچھتے ہیں: تو اب وہ کہاں ہیں؟ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کا حوالہ دے کر اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں ۔ اب برطانیہ میں بورس جانسن کے وزیراعظم بننے سے مزید لطیفے پیدا ہورہے ہیں اور پوری دنیا حیران ہے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اور کیسی لیڈرشپ ابھر کر سامنے آرہی ہے؟
پاکستان کی حد تک ہم نے دیکھا کہ شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن نے لوگوں کو ان سے اس حد تک متنفر کیا کہ لوگ عمران خان کو لے آئے۔ عمران خان صاحب کی بہت سی خامیاں اس لیے چھپ گئی ہیں کہ وہ لوگوں کو شریفوں اور زرداریوں کے مقابلے میں فرشتہ لگنا شروع ہوگئے تھے۔ اگر شریف اور زرداری خود کو حکمران نہ کہ ایک ٹھیکیدار سمجھ کر حکومتیں کرتے تو شاید آج عمران خان ہمیں جرمنی اور جاپان کی سرحد پر کارخانے لگنے کی کہانی نہ سنا رہے ہوتے۔ اسی طرح اگر نواز شریف امریکی صدر اوبامہ کے سامنے پرچیاں کھول کر نہ بیٹھ جاتے تو آج عمران خان کو اس بات پر داد نہ مل رہی ہوتی کہ چلیں کسی نے تو ٹرمپ کے سامنے اعتماد سے بیٹھ کر بات کی اور اچھی گفتگو کی۔اسی طرح اگر لیبر پارٹی امیگریشن کو درست انداز میں ڈیل کرتی تو آج بورس جانسن وزیراعظم نہ ہوتے کیونکہ تارکین وطن سے برطانوی بھی اس طرح تنگ آئے ہیں جیسے امریکہ میں گورے۔اسی طرح بھارت میں بھی کانگرس کو یہ الزام جاتا ہے کہ وہ اپنے ادوار میں کرپشن اس پیمانے پر کرگئی کہ لوگوں نے مودی جی کو ترجیح دی‘ چاہے ہندوستانی معاشرہ تشدد کا شکار ہو یا تقسیم ہوجائے۔ پھر کبھی دل کو تسلی دیتا ہوں کہ دنیا کبھی ایک طرح سے مسلسل اچھی یا مسلسل بری نہیں چل سکتی۔ انسانی تاریخ ایسے ہی رہے گی۔ کبھی اتار تو کبھی چڑھائو۔ کبھی آپ کو اعلیٰ دماغ حکمران ملیں گے جو تاریخ کا دھارا بدل دیں گے‘ لیکن پھر ایسے بھی حکمران ہوں گے جو آپ کو قدیم دور میں واپس لے جائیں گے۔
شاید ہم انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے انسان کے اندر تشدد کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں ۔ وہ انسان جو وحشی دور سے تہذیب میں داخل ہوا تھا وہ دوبارہ عدم برداشت کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہم سب کو ایکسپوز کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہمیں نئی نفرتیں سکھا دی ہیں ۔ ہم نے جو شرافت ‘ شائستگی اور تہذیب کے نقاب چہروںپر چڑھائے ہوئے تھے وہ ہمارے چہروں سے نوچ کر اتارے جارہے ہیں ۔ ہماری اصلیت سامنے آرہی ہے اور اصلیت یہی ہے کہ انسان ہزاروں سال کی ترقی کے باوجود اندر سے اسی خونخوار جبلت کا مالک ہے جو غاروں کو چھوڑ کو انسانی بستیاں بساتے وقت اس کے ساتھ تھی اور ہزاروں سال کا سفر کر کے بھی اس کی آج بھی ہم سفر ہے۔ بس یہ نفرت‘ جہالت اور وحشت ہر زمانے کے حساب سے اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہے !