با با جی نے اپنے سامنے بیٹھے سائل کوزور کی ایک پھونک مارتے ہوئے کہا: اب تُواپنی مٹھی بند کئے رکھ اور اپنے مخالف کو دکھا کر اپنی بند مٹھی اس کی طرف چیخیںمار تے ہوئے کھول دینا‘ جس پر سائل کہنے لگا :جب میری مٹھی میں ہوگا ہی کچھ نہیں تو کھول کر کیا دکھائوں گا؟بابا جی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا اس کی کمر پر مارتے ہوئے کہا: لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے یہی کافی ہے کہ بڑے زور سے بند کی ہوئی مٹھی کو اس طرح سب کے سامنے کھولو کہ تمہارے ساتھ کھڑے سبھی شور مچانا شروع کر دیں۔ یاد رکھو لوگوں کا دھیان مٹھی کی طرف نہیں تم لوگوں کے مچائے ہوئے شور کی جانب ہو گا۔
با با جی کی بتائی ہوئی بند مٹھی کھولنے کی ترکیب کے مطابق ہی پیپلز پارٹی اگلے چند دنوں میں الیکشن2018 ء پر تیار کئے گئے وائٹ پیپر کے نام سے شور برپا کرنے جا رہی ہے۔ سینیٹ کے ایک سابق چیئر مین‘ جن کی نگرانی میں اس وائٹ پیپر کی تیاری آخری مراحل میں ہے‘ کی توجہ جب اے پی سی میں شامل اپنی اتحادی جماعت کے بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی کی 2018ء کے انتخابات کی شفافیت پر دی گئی گواہی کی جانب دلائی گئی تو انہوں نے اپنے دراز بالوں کو ایک جھٹکا دیتے ہوئے کہا:جب ہم پریس کانفرنس اور سیمینار میں وائٹ پیپر تقسیم کریں گے تو کسی نے اس وائٹ پیپر پر نہیں بلکہ ہمارے لفظوں کے شور کی طرف توجہ دینی ہے‘اور یہ شور ہمارے لئے تیار کئے ہوئے ڈھولوں کے ذریعے مزید بلند ہو تا جائے گا۔ پیپلز پارٹی میری معلومات کے مطا بق اگلے ایک ‘ دو روز میں 2018ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر اپنے وائٹ پیپر کا ہنگامہ کرنے جا رہی ہے۔ اس جماعت کو یہ بتایا جانا چاہئے کہ سندھ کے سات اضلاع سے پی پی پی کو اپنے مخالف امیدواروں پر بمشکل دو دو ہزار ووٹوں سے کامیابی ملی ہے‘ اگر کسی طاقت کا منظم طریقے سے دھاندلی یا انجینئرڈ نتائج کا ایجنڈا تھا تو اس کے لیے پی پی پی کے یہ ایک سے دو ہزار ووٹ ادھر ادھر کرنا کون سا مشکل کام تھا؟ لاڑکانہ سے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے الطاف عادل‘ جن کی انتخابات سے کئی دن پہلے کامیابی ہر میڈیا چینل دے رہا تھا‘ اچانک پی پی پی کے امیدوار سے صرف چودہ سو ووٹوں سے شکست کھا جاتے ہیں تو کیا ان چودہ سو ووٹوں کی ادھر ادھر منتقلی Riggingکرنے والوں کے لیے کوئی مشکل تھی؟
وائٹ پیپر کی نوک پلک درست کرنے والے سینیٹ کے سابق چیئر مین اگر ان بڑی بڑی ظاہری شہا دتوں کی جانب دھیان نہیں دے رہے تو بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقہ263 قلعہ عبد اﷲ سے ایم ایم اے کے کامیاب ہونے والے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین‘ جنہوں نے محمود خان اچکزئی کو 18 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی اور اچکزئی جیسی شخصیت تیسرے نمبر پر رہی۔ ان انتخابات کے فوری بعد ہونے والی ایک میڈیا ٹاک آج بھی محفوظ ہے۔ اگر اسے پی پی پی کے دانشور ذرا غور سے پھر سن لیں تو انہیں ایم ایم اے کے صلاح الدین واشگاف الفاظ میں سب کے سامنے یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ان سے بہتر اور شفاف انتخابات انہوں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
وائٹ پیپر کا ڈھول پیٹنے کا پروگرام بنانے سے پہلے پی پی پی والوں کو بلوچستان سے اپنی حلیف جماعت کے رکن قومی اسمبلی کی اس ٹی وی ٹاک کی ویڈیو سنتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے تو پھر وہ ان انتخابات کی نگرانی کے لیے پاکستان آنے والے دولتِ مشترکہ کے مبصرین کی اس رپورٹ کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں جس میں انہوں نے انتخابات2018 ء کو پاکستان اور جمہوریت کے لیے An Important milestone قرار دیا۔ دولتِ مشترکہ کے مبصرین کے اس گروپ کے انچارج سابق انڈین چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ''پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے تمام الزامات سوائے ان کی سیا ست کے اور کچھ نہیں کیونکہ ان کے گروپ کا یہ واضح مؤقف ہے کہ ان انتخابات میں کسی بھی قسم کیRigging نہیں ہوئی اور یہ شفاف ترین الیکشن تھے۔ اگر پیپلز پارٹی اس سے بھی زیا دہ مدلل قسم کا ثبوت چاہتی ہے تو اسے فافن کی رپورٹ کو دیکھ لینا چاہئے جس میں اس نے اپوزیشن جماعتوں کے تمام الزامات اور جھوٹ کو رد کرتے ہوئے کہا تھا ''ان انتخابات میں کسی بھی قسم کی منظم یا انجینئرڈ دھاندلی نہیں دیکھی گئی‘‘ اگر اس پر بھی پیپلز پارٹی 'میں نہ مانوں‘ کی رٹ لگائے رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسےPILDAT کی رپورٹ کو ہی ایک مرتبہ پھر دیکھ لینا چاہئے جس میں اس نے 2018ء کے ان انتخابات کو بہترین قرار دیا۔
بات وائٹ پیپر کی نہیں‘ ایجنڈا یہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات2018 ء پر وائٹ پیپرشائع کر کے دنیا بھر کے سفارت کاروں‘ میڈیا ہائوسز اور امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ جو وزیر اعظم آپ کے پاس آ رہا ہے اس کی کامیابی کے لیے ا لیکشن2018ء میں دھاندلی کی گئی تھی۔ پی پی پی تو بغلیں بجا رہی تھی لیکن معاملہ کچھ ایسا ہوا کہ وائٹ پیپر کے تیار کئے گئے مواد کو سابق چیئر مین سینیٹ کے پاس بھیجا گیا کہ وہ اس پر آخری نظر ڈال لیں‘ لیکن جیسے ہی انہوں نے اس تیار شدہ مسودے کو پڑھنا شروع کیا تو انہیںلگا کہ یہ تو اندھرے میں سفید کاغذ پر بے ربط سی کھینچی ہوئی لکیروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا ہوا۔ انہیں تو کہا گیا تھا کہ ''حشر نشر‘‘ کر دیں گے‘ لیکن اس میں تو کچھ بھی نہیں جو امریکہ اور سفارتی نمائندوں کے سامنے رکھا جا سکے۔ اس طرح پی پی پی کا وہ پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا اور پی پی پی وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کو سبو تاژ کرتے کرتے رہ گئی اور اب آئندہ چند روز میں بڑے وائٹ پیپر کو پی پی پی کی جانب سے بڑے اہتمام کے ساتھ منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔
ابھی پی پی پی کے پاس یہ وائٹ پیپر والی بند مٹھی کھولنے کے لیے چند دن باقی ہیں تو کیوں نہ انہیںجولائی 2018ء کے انتخابات کی کوریج کے لیے خصوصی طور پر پاکستان آئی ہوئی یورپی یونین کی ٹیم کی وہ رپورٹ پڑ ھنے کے لیے دے دی جائے جس کی سربراہی مائیکل گاہلر کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تیار کی گئی رپورٹ‘ جو27 جولائی کو پیش کی گئی‘ میں لکھا تھا '' ان کی ٹیم پاکستان بھر میں300 کے قریب پولنگ مقامات کا جائزہ لینے کے لیے پہنچی‘ جن میں قومی اسمبلی کے87 حلقے شامل تھے۔ ان حلقوں کے دیہات اور قصبوں سمیت شہروں کے پولنگ سٹیشنز پر ان کی ٹیم نے دیکھا کہ پولنگ سٹاف اور سکیورٹی اہلکار ہر ووٹر کا پہلے شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور پھر اسے پولنگ بوتھ کے اندر جانے کی اجا زت دی جاتی ہے‘ جہاں وہ مکمل رازداری اور اپنی مرضی کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتا رہا۔
کاش پی پی پی ایک وائٹ پیپر2013 ء کے انتخابات پر بھی شائع کرتی جس کی منظم دھاندلی کا سرٹیفکیٹ اُس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے یہ کہتے ہوئے جاری کیا تھا کہ'' ان انتخابات میں ووٹ نواز شریف کے حق میں ڈالے نہیں گئے بلکہ ان کے لیے چھینے گئے ہیں اور یہ انتخابات صرف اور صرف ROs کا شاہکار ہیں‘‘۔
کاش پی پی پی ایک وائٹ پیپر2013 ء کے انتخابات پر بھی شائع کرتی جس کی منظم دھاندلی کا سرٹیفکیٹ اُس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے یہ کہتے ہوئے جاری کیا تھا کہ'' ان انتخابات میں ووٹ نواز شریف کے حق میں ڈالے نہیں گئے بلکہ ان کے لیے چھینے گئے ہیں اور یہ انتخابات صرف اور صرف ROs کا شاہکار ہیں‘‘۔