تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     26-07-2019

پولیس کو مزید کتنا اختیار چاہیے؟

ہمارے دوست ہزارہ رینج کے آر پی اومحمد علی بابا خیل کا شمار خیبر پختونخوا پو لیس کے فرض شناس افسران میں ہوتا ہے۔بابا خیل پولیس میں آنے سے قبل کچھ عرصہ صحافت سے بھی وابستہ رہے‘اسی لئے پولیس سروس جوائن کرنے کے بعد بھی انہوں نے خود کو لکھنے پڑھنے سے منسلک رکھا ‘تاہم اب ان کی تحریروں کے موضوعات پولیسینگ اور پولیس اصلاحات تک محدود ہو کررہ گئے ہیں۔بلاشبہ وہ ایک باکمال افسر کی طرح پولیس کے مسائل کی نشاندہی اوراپنے ادارے کے مفادات کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ 21 جولائی کے اپنے تازہ مضمونSisphean taskمیں انہوں نے سندھ اسمبلی کی طرف سے پولیس ایکٹ 1961ء کو ریپیل کر کے پولیس آرڈر 2002ء کی جولائی 2011ء کی سطح پہ دوبارہ بحالی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے‘ برصغیر میں پولیس اصلاحات کے پورے عمل کو کارلاحاصل قرار دیا۔اپنے مضمون میں انہوں نے انڈین نیشنل پولیس کمیشن 1979-81ء کی تجویز کردہ اصلاحات اور 2005ء میں سنٹرل گورنمنٹ کی طرف سے بنائی گئی سولی سوراب کمیٹی کے پیش کردہ ماڈل پولیس ایکٹ کی ناکامی کا وبال بھی مقننہ اور سیاسی قیادت کے سر ڈالتے ہوئے نہایت تاسف کا اظہار کیا۔مضمون نگار پولیس کے کام میں مبینہ سیاسی مداخلت اور درپیش ہمہ جہت مسائل کا ذکر تو نہایت تفصیل سے کرتے ہیں ‘ لیکن پولیس کی کارکردگی اور جوابدہی کے کسی میکانزم کی وضاحت سے دانستہ پہلوتہی کر جاتے ہیں۔
ہمارے ہاںپولیس ریفارمز کی بات ہرکوئی کرتا ہے‘ لیکن کس قسم کی اصلاحات اور کون سے ماڈل کی پیروی کرنی چاہیے؟ اس میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔خود پولیس والے جب ریفارمز کی بات کریں توان کی مراد ایسی داخلی خود مختاری ہوتی ہے ‘جو جوابدہی کے ہر نظام سے بالاتر ہو؛حتیٰ کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی بازپرس کو بھی وہ سیاسی مداخلت تصور کرتے ہیں۔بابا خیل جب سندھ کے نئے پولیس ایکٹ پہ تنقید کرتے ہیں تو ان کا بھی اصل ہدف اس ایکٹ کے تحت وزیراعلیٰ کو دیئے گئے اختیارات ہیں۔اس حقیقت سے محمدعلی باباخیل سمیت ہر کوئی واقف ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے خیبر پختونخوا میں پولیس ایکٹ 2017-18ء کی منظوری کے ذریعے لامحدود اختیارات دے کرپولیس کو سسٹم سے ماوراء کر دیا‘ لیکن پھر بھی پولیس ڈلیور نہیں کر سکی۔ 2000ء سے قبل آئی جی پولیس ‘ہوم سیکرٹری کے ماتحت ہوتا تھا‘ لیکن آج آئی جی پی سے چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ بھی پوچھ نہیں سکتے۔پچھلے دور میں پی ٹی آئی کے ایم این اے علی محمد خان کو سوال جواب کرنے کی پاداش میں مردان پولیس کے ہاتھوں بے آبرو ہونا پڑا۔یہ بات ذاتی طور پر میرے علم ہے کہ پشاور میں تھانوں کے ایس ایچ اوز کسی صوبائی وزیر کی فون کال وصول نہیں کرتے۔پولیس کے مالیاتی امور اور ترقیوںو تبادلوں کے نظام پہ آئی جی پی پوری طرح حاوی ہیں۔چیف سیکرٹری تو اٹھارہ اور اس سے اوپر والے گریڈ کے افسرکا تبادلہ وزیر اعلیٰ کی پیشگی اجازت کے بغیرنہیں کر سکتا ‘لیکن آئی جی پی کو 20 گریڈ کے ڈی آئی جیزکی تبدیلی و تعیناتی کا حتمی اختیار حاصل ہے۔
پولیس کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ سے بھی استثنیٰ دیا گیا۔کوئی شہری ان سے معمول کے کرائمز کا ڈیٹا بھی نہیں مانگ سکتا۔پولیس آرڈر 2002ء میں نہتے شہریوں کیخلاف پولیس کی جارحیت کے سدباب کے کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام شامل تھا‘ لیکن 20سال ہونے کو آئے‘ پولیس نے پبلک سیفٹی کمیشن بننے نہیں دیا‘بلکہ مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے متوازی عدالتی نظام کھڑا کرکے خودسری کی انتہا کر دی۔2017ء کے ایکٹ میں شامل پبلک سیفٹی کمیشن کے ممبران کے انتخاب کیلئے ڈسٹرک اینڈ سیشن ججز کی سربراہی میں سکرونٹی کمیٹیوں کے قیام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کروا کے غیر معینہ مدت کیلئے حکم امتناعی حاصل کر لیا گیا۔اس سے قبل جب صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنرز کو سیفٹی کمیشن کا سیکرٹری بنانے کا تہیہ کیا‘ تو پولیس نے مزاحمت کر کے منتخب اتھارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا۔اب کہتے ہیں کہ سول افیسرز نہیں‘ بلکہ کسی کنٹریکٹ ملازم کو تین سال کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن کا سیکرٹری بنایا جائے۔گویا پولیس خود کو عوام‘ریاست یا حکومت کے سامنے جوابدہ بنانے کو تیار ہی نہیں۔یہ طرزِ عمل قانونِ فطرت کے منافی اوراس عالمگیر سچائی سے متصادم ہے‘ جس میں اختیارات کے حامل ہر شخص کو کسی نہ کسی اتھارٹی کے سامنے جوابدہ لازمی ہونا چاہیے۔ خاص کرطاقت کو تو آزاد چھوڑنا شرف ِآدمیت کی تذلیل کے مترادف ہو گا‘ لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پولیس ہر قانونی حدودسے مبرا اور جوابدہی کے ہرمیکانزم سے نجات کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
انسداد ِرشوت ستانی ڈپارٹمنٹ پہ پولیس خودقابض ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کو پولیس سے الگ کرنے کی جسارت کی‘ تو اسے باغیانہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘علیٰ ہذالقیاس!اس سب کے باوجود بھی وزیر اعظم عمران خان کو توقع تھی کہ سیاسی اتھارٹی کے جائز کنٹرول سے مطلق آزادی اورلامحدود اختیارات کی حامل خیبر پختونخوا پولیس کچھ ڈلیورکرے گی ‘تو ان کی سیاسی ساکھ بہتر ہو جائے گی ‘لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہو سکا‘ بلکہ گزشتہ چھ سال میںکرائمز ریٹ بڑھتا رہا۔ چوری‘ ڈکیتی ‘موٹر سائیکل چھننے اوراغواء برائے تاوان کی وارداتیں کنٹرول ہوئیں‘ نہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور ایرانی پٹرول کی ترسیل کا دھندہ بندکیا جا سکا۔صوبے بھر میں پولیس گھروں‘ دکانوں اور موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں کی ایف آئی آر درج کرنا بھول گئی۔اگر ‘کوئی متاثرہ شہری ایف آئی آر کے اندراج پر اصرار کرے‘ تو شک کو بنیاد بنا کر اس کی بیوی‘بچوں اور قریبی رشتوں داروں کو دھر لیا جاتا ہے‘جس کے بعد مجبوراً شریف شہری کوایف آئی آر کے اندارج سے دستبردار ہونا پڑتاہے۔صلاحیت اور ڈلیوری کا عالم یہ ہے کہ جو پولیس پشاور میں ٹریفک نظام نہیں چلا سکتی‘وہی پولیس چاروں صوبوں کی غیرمشروط و غیر محدود کمانڈ طلب کرتی ہے۔
ہم پی ایس پی افسران کی بات تو نہیں کر سکتے کہ وہ تنقید اور جوابدہی کے ہر عمل سے بالاتر ہیں‘یہاں ہم صرف گیارہ سے سترہ گریڈ کے ان رینکرز کی بات کریں گے‘ جن کی ناگوار حیثیت اورتکلیف دہی کی قیمت(Nuisance value)اور معیارِ زندگی دیکھ کے ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘چودہ گریڈ کے ایس ایچ کے پاس متعدد ایکٹس تلے ساڑھے چار سو سے زیادہ اختیارات ہیں۔وہ قتل کے ملزم کوشخصی ضمانت پہ چھوڑنے اور کسی بھی شہری کو 107 میں گرفتار کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔اب ‘تو پولیس کو دیکھتے ہی گولی مارنے(Shoot to kill)کا اختیار بھی مل گیا ہے۔2014-15ء میں پشاور پولیس کے ایک انسپکٹر نے عدالت میں تلخ نوائی کے بعد سیشن جج کے خلاف تھانہ میںآیف آئی آر درج کر ڈالی۔بعد میںاعلیٰ افسران نے مداخلت کر کے شریف النفس جج کی عزت بچائی۔2003 ء میں ایس ایچ او کینٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان کے پہلے اور نہایت طاقتورضلع ناظم لطیف اللہ خان علیزئی کے خلاف ایف آر دیکر جنرل مشرف کے ضلعی حکومتوں کے پورے نظام کی چولیں ہلا ڈالیں۔خیبر پختونخوا پولیس کے اچھی شہرت کے حامل‘بااصول اور بہادر پولیس افسر‘جسے حال ہی میں دہشت گردوں نے شہید کردیا‘کا آبائی گھر بنوں میں تھا ‘لیکن ان کے زیراستعمال پشاور کے پوش ایریا حیات آباد اور اسلام آباد میں بھی دو بنگلے تھے۔کیا احتساب کا کوئی ادارہ ایسا ہے‘ جو صرف رینکرزپولیس افسران کی تنخواہ اورمعیار ِزندگی میں مماثلت تلاش کر سکے؟عرض یہ ہے کہ اگر‘جرائم کی افزائش نہ ہوتی تو پولیس والے امیر نہیں ہو سکتے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved