تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     05-05-2013

نئے پاکستان کی خواہش

ایک انتخابی مہم وہ ہے جو اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرین پر چل رہی ہے۔اس میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف پورے جوش و خروش سے شریک ہیں۔مسلم لیگ(ق) نے بھی حصہ ڈالا ہے اور چودھری پرویز الٰہی کی کارکردگی کی طرف توجہ دلائی ہے، لیکن وہ اس دوڑ میں قدرے پیچھے ہے۔شہبازشریف سے پہلے چودھری صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر پانچ سال پورے کر چکے ہیں، اور یوں یہ دونوں حضرات ہم پلّہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ان سے پہلے پنجاب کا کوئی بھی وزیراعلیٰ پانچ سال تک اس عہدے پر فائز نہیں رہ سکا۔وزیراعظم لیاقت علی خان تھے یا ذوالفقار علی بھٹو، پنجاب میں یہ کرسی کسی ایک شخص کے پاس نہیں رہی۔نواب افتخار حسین ممدوٹ جیسے تحریک پاکستان کے سالارہوں یا ممتاز محمد خان دولتانہ جیسے روشن دماغ ،اقتدار کی طویل رفاقت انہیں نصیب نہیں ہوئی۔بھٹو مرحوم نے اپنے پانچ سالوں میں پنجاب کو چارحاکم عنایت فرمائے تھے۔غلام مصطفی کھر، ملک معراج خالد، حنیف رامے اور نواب صادق قریشی۔ چودھری پرویز الٰہی نے پانچ سال اطمینان سے حکومت کی اور شہبازشریف نے بھی اپنا ڈنکا خوب بجایا… دونوں کے مزاج میں زمین ،آسمان کا فرق ہے، لیکن دونوں کا دامن خالی نہیں ہے۔دونوں اپنے مداحوں کو تعریف کے لئے بہت سا مواد فراہم کر گئے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو کچھ کیا، وہ مسلم لیگ(ق) کی اشتہاری مہم میں اجاگر کیا جارہا ہے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ 1122کو قرار دیا جاتا ہے۔ چودھری صاحب چودھری صاحب تھے اور شہباز صاحب شہباز صاحب ہیں۔انہیں غصہ آتا ہی نہیں تھا اور ان کا غصہ اترتا ہی نہیں ہے۔غصے میں ہوتے ہیں یا جلدی میں۔کام کرنے کا دونوں کو جنون تھا۔ایک نے آہستگی سے منظر بدل دیا تو دوسرے نے دوڑ بھاگ سے ریکارڈ قائم کردیا۔عمران خان مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں جس جنون کا ذکر کرتے رہتے ہیں، مسلم لیگ(ن) کے اندر یہ شہبازشریف کی ذات میں مجسم ہے۔ بات ہورہی تھی مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی… پیپلزپارٹی کی اشتہاری مہم نے اپنا نقش جما دیا ہے۔مسلم لیگ(ن) پر جارحانہ حملے بھی ہورہے ہیں اور اپنے کارنامے بھی گنوائے جارہے ہیں۔ ایک اشتہار نے تو شہبازشریف کو لاہور ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کردیا۔ اس میں شہبازشریف اور ملک عبدالقیوم کی مبینہ گفتگو سنائی گئی تھی جو 2001ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ ملک صاحب اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے اور سفارشی انصاف فراہم کرنے میں خاصے مشہور تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ فریادی سے اتنا متاثر ہوا کہ بعدازنماز جمعہ عدالت لگائی اور سہ پہر پانچ بجے اس کے حق میں حکم امتناعی جاری کردیا۔ اے این پی نے چند اشتہارات میں جلوہ دکھایا ہے، جماعت اسلامی کے سید منور حسن بھی ایک آدھ اشتہار کی رونق بنے ہیں، لیکن ایم کیو ایم نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس کا حلقۂ انتخاب ایسا ہے کہ الطاف حسین براہ راست اس میں نئی روح پھونک سکتے ہیں:نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی…ایم کیو ایم کے ناقد کم نہیں ہیں، لیکن وہ بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے کہ وہ بہت منظم سیاسی جماعت ہے۔ایک زمانے میں جماعت اسلامی کی تنظیم کا بڑا شہرہ تھا، اور اب بھی یہ تاثر موجود ہے، لیکن ایم کیو ایم کا سیکرٹریٹ جس طرح کام کرتا ہے، اس کا مقابلہ کوئی دوسری جماعت نہیں کر سکتی۔ مسلم لیگ(ن) نے کچھ عرصہ پہلے ماڈل ٹائون میں اپنا مرکزی دفتر منظم کیاہے۔مسلم لیگ(ق) کے پاس ڈیوس روڈ کی تاریخی عمارت موجود ہے۔پیپلزپارٹی بھی اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔تحریک انصاف نے دفاتر کا ایک سلسلہ قائم کردیا ہے،لیکن ان سب جماعتوں کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے…برسرِاقتدار آکر محکمہ اطلاعات کو پارٹی کی خدمت پر مامور کردینا زیادہ دیر تک ممکن نہیں رہے گا۔ تینوں جماعتوں نے پبلسٹی سانگ بھی تیار کئے ہیں۔’’بھٹو کی بیٹی آئی تھی‘‘ برادر محترم عباس اطہر کا شاہکار ہے، وہ خود تو بسترِ علالت پر ہیں، لیکن ان کی نظم نے پیپلزپارٹی کو نئی توانائی فراہم کردی ہے۔’’ہم بھٹو ہیں، ہم بے نظیر ہیں‘‘کا تاثربھی اپنا ہے۔یہ نغمے اگر پیپلزپارٹی کے پرانے ووٹروں کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کردیں تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا…مسلم لیگ(ن) کے نغمے راحت فتح علی خان اور کئی دوسرے حضرات نے گائے ہیں، وہ بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہیں …تحریک انصاف اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے ابرارالحق، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی،شہزاد رائے، جنون گروپ اور کئی دوسرے مغنیوںکی اعزازی خدمات حاصل ہیں۔یہ سب نئے پاکستان کی تلاش میں نکل کھڑے ہیں، ان کے اندر ایک بھانبڑ مچ رہا ہے اور گردوپیش کو بھی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے میں ایسی دل کشی ہے کہ نوازشریف صاحب نے بھی اسے اپنا لیا ہے۔11مئی کو جو بھی ہو، ایسا نیا پاکستان تو بہرحال بنانا پڑے گا،جو آج کے پاکستان سے بہت مختلف ہو۔ یہ درست ہے کہ نئے پاکستان سے بھٹو صاحب کی بُو آتی ہے۔انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اہلِ وطن کو نئے پن کی خوشخبری دی تھی، ایک نیا خواب دکھایا تھا۔سوچنے والوں نے سوچا تھا کہ بہت کچھ گنوانے کے بعد،اب بہت کچھ بچانے کی فکر کی جائے گی۔جن رویوں نے پاکستان کو دولخت کیا،ان کو یکسر مسترد کرنے کے بعد پرانا قافلہ نئے راستے پر گامزن ہوگا۔ ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے گا، ایک دوسرے کا احترام کیا جائے گا، ایک دوسرے کی عزت کی جائے گی۔اختلاف رائے جرم نہیں ہوگا،تنقید سن کر اہل اقتدار کے ماتھے پر بل نہیں پڑیں گے۔حزب اختلاف پر زندگی حرام نہیں ہوگی اور حزب اقتدار کے لئے وسائل مختص نہیں سمجھے جائیں گے۔جاگیرداری ختم ہوگی اور سرمایہ داری حدود میں رہے گی۔مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ملے گی،لیکن اسے پسینہ بہانا بھی پڑے گا…ہر شخص کی یہ آرزو تھی کہ ایسا نیا پاکستان دیکھے، جہاں ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں…مگرپھر جو ہوا، وہ تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے اور اسے دیکھنے والی کروڑوں آنکھیں آج بھی زندہ ہیں۔نتیجہ وہی نکلا جو پہلے برآمد ہوا تھا، ایک بار پھر گاڑی پٹڑی سے اتر گئی… اور، اب تو معاملہ یہ ہے کہ گاڑی کیا پٹڑی کی فکر پڑی ہوئی ہے، پٹڑی موجود ہو تو گاڑی کو اس پر دوبارہ چلایا جا سکتا ہے،تھوڑی سی مشقت سے سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر پٹڑی ہی اڑا دی جائے تو پھر گاڑی کا کیاکیا جائے گا؟اب نئے پاکستان کا خواب جو دیکھا اور دکھایا جارہا ہے تو کرنے کا کام بڑھ گیا ہے۔’’نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کو یہ یاد رہنا چاہیے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved