جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت خیبر‘ باجوڑ‘ مہمند‘ کرم‘ اورکزئی اور فاٹا کی تمام ایجنسیوں اور ان کی متعلقہ حدود کا خیبر پختونخوا میں با قاعدہ ضم ہونے کے بعد ان کی آبادی کی بنیاد پر تشکیل دی گئی‘ صوبائی اسمبلی کی16 نشستوں پر گزشتہ دنوں ہونے والے عام انتخابات میں عوام نے اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ۔ ان آزادانہ‘ صاف و شفاف انتخابات کی سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ پشتون عوام نے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا سیا سی طور پر مکمل صفایا کر دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پختون ‘اپنے ہی ملک کے خلاف کسی کی بھی گھٹیا مہم پرذرا سا بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیا سی پارٹیاں ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں کو ایک بھی نشست پر کامیابی نصیب نہ ہوئی‘ بلکہ دونوں جماعتیں کسی ایک نشست سے بھی اپنی زر ضمانت بچانے میںبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔مسلم لیگ نواز کو محمود خان اچکزئی اور بھارت کی مدد سے پروان چڑھائی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی مکمل حمایت ہونے کے با جو دشرمناک نا کامی کا سامنا کرنا پڑا‘ یعنی جس صاف ا ور شفاف طریقے سے یہ انتخابات منعقد ہوئے‘ اس پر کسی ایک پارٹی کو بھی ان پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم اس قدر بھر پور طریقے سے بلا روک ٹوک چلائی گئی کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ ہی نہ مل سکا کہ اسے اپنے ووٹروں تک پہنچنے کیلئے مساوی مواقع نہیں ملے۔ الغرض ان انتخابات سے ایک چیز واضح ہو گئی کہ تمام قبائلی علا قوں کے باشعور عوام نے پاکستان مخالف پروپیگنڈا اورسکیورٹی فورسز کے خلاف گمراہ کن نعروں کو یکسر مسترد کر کے رکھ دیا اور ثابت کیا کہ وہ باشعور عوام ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ غیور پٹھانوں نے ایک مرتبہ پھر 1946ء کے ریفرنڈم کی یاد تازہ کرتے ہوئے گاندھی اور نہرو کے چیلوں کو شکست دے کر پاکستان کے ساتھ رہنے کے حق میں تاریخی فیصلہ دے دیا ہے۔ قبائلی علا قوں کے ‘کے پی کے میں ضم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے ذریعے وجود میں آنے والی صوبائی اسمبلی کی ان 16 نشستوں میں سے عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی ایک ایک نشست پر بمشکل کامیابی سمیٹ سکیں‘ جبکہ تین نشستوں پر مو لانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور9 نشستیں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی آزاد امید واروں کے حصے میں آئیں۔ اپنے اس مضمون کیلئے منا سب عنوان کی تلاش کرتے ہوئے اچانک انگریزی کے چار الفاظ نظروں میں کھب کر رہ گئے۔ From Militancy To elections ( عسکریت پسندی سے انتخابات تک)دیکھنے اور لکھنے میں تو یہ انگریزی کے چند لفظ ہیں‘ لیکن انہیں لکھنے کیلئے نہ جانے قوم کے کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی بیٹیاں بیوہ ہوئیں اور کتنے ماں باپ زندہ لاش بن گئے اور نہ جانے کتنے سروں نے رسم شبیری کو نبھاتے ہوئے تیز دھار خنجروں سے اپنے سر کٹوائے اور آفریں ہے‘ ان ماں باپ پر‘ جنہوں نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں سے وحشت اور وحشیوں کو فٹ بال کھیلتے دیکھا۔سندھ‘ پنجاب‘ پختون اور بلوچ مائیں اپنے جگر گوشوں کے ساتھ کئے گئے اس ظلم کو کبھی بھی نہیں بھول سکتیں۔انہوں نے بعض سیاست دانوں کو مبینہ طور پر شہیدوں کی مائوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے پی ٹی ایم کے رہنماؤںکو تھپکیاںدیتے ہوئے بھی دیکھا‘تاہم انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان انتخابات کے پرُ امن انعقاد کا سہرا پاکستان کی ان سکیورٹی فورسز کے سر جاتا ہے‘ جنہوں نے سینکڑوں قربانیاں دیں۔ اب‘ جبکہ ان تاریخی انتخابات نے وہاں کے عوام کو اپنے منتخب نمائندے دے دیئے ہیں‘ جو ان کی مرضی سے منتخب ہوئے ہیں‘ جن سے وہ اپنی ہر بات کہہ سکیں گے‘ جو ان کیلئے بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کرنے کے فرائض انجام دیں گے۔
نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے نام نہاد رہنماؤں نے فاٹا کے مدغم ہونے والے ان اضلاع میں محمود خان اچکزئی ‘ پشتون تحریک اور ولی خان کے گھرانے کی مدد سے بھرپور کوشش کی کہ پشتون ووٹرز میں تعصب کی آگ بھڑکا کر اپنی سکیورٹی فورسز کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ پشتونوں کو اپنے قومی اداروں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جائے۔ ان کی یہ بھی سازش تھی کہ فاٹا میں لسانی تعصب کو ہوا دیتے ہوئے پنجابی ‘پشتون کا جھگڑا پیدا کیا جائے‘ لیکن یہ سب بھول گئے کہ پشتونوں کا سب سے زیا دہ کاروبار پنجاب اور کراچی میں ہے‘ جہاں انہیں عزت اور پیار مل رہا ہے۔نواز لیگ کو ملنے والی پے در پے نا کامیوں نے اسے نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے اور اس وقت اس جماعت کے ساتھ کچھ ایسے مشیر ہیں‘ جنہوں نے ڈان لیکس کے ذریعے قومی اداروںکو اقوام عالم میں بدنام کرنے کی کوششیں کیں۔ یہ وہی لوگ ہیں‘ جن کی تیار کردہ ٹویٹس مریم صفدر کی سیا ست کا سہارا بنی ہوئی ہیں۔ مریم صفدر کوئٹہ میں اچکزئی اور حاصل بزنجو کے ساتھ کھڑی ہو کر کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے بلوچ دہشت گردوں کی زبان بول رہی تھی‘ تو اس وقت ان سینکڑوں پنجابی اور پٹھان مائوں پر کیا گزری ہو گی ؟جن کے محنت مزدوری کیلئے بلوچستان آئے ہوئے لال‘ دہشت گردوں نے بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد کلاشنکوفوں کے برسٹ برساتے ہوئے شہید کئے گئے۔ تمام سکیورٹی فورسز کے دشمنوں کی زبان بولنے والوں کی دعوت پرکوئٹہ میں ان لوگوں کی مدد سے جلسہ کیا‘ جو میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں بلوچستان اور مرکزی حکومت کے انتہائی طاقتور ستون رہے‘ جنہوں نے اپنے اختیارات سے نہ جانے کتنے افغانوں کو پاکستان کے شناختی کارڈ بنواکر دیئے ‘کیونکہ خصوصی گاڑیاں ان کے حجروں اور ڈیروں میں آ کر ان کے بٹھائے ہوئے ہر فرد کا منٹوں میں شناختی کارڈ جاری کرتی رہیں ۔ مریم صفدر‘ اچکزئی کے ساتھ سٹیج پر جو زبان بولتی رہیں‘ اس کا مصنف یہی شخص ہے‘ جس نے وزیر اعظم نواز شریف کا معاون خصوصی ہونے کی حیثیت سے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ اٹک‘ میانوالی ‘ فاٹا اور کے پی کے کو ساتھ ملا کر ایک نئے ملک افغانیہ کے قیام کیلئے جدو جہد کر رہا ہے‘ لہٰذا ہر محب وطن کو سوچنا ہو گا کہ کیا وزیر اعظم کے مشیر خاص کے رتبہ پر بیٹھا ہوا شخص ملک کے خلاف افغانیہ نام کی نئی ریا ست کے قیام کا فتنہ نواز شریف کی مکمل آشیر باد کے بغیر برپا کر سکتا تھا؟یہ سوال ملک کے ہر اس شخص سے ہے‘ جو اندھی تقلید میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔
اب‘ جبکہ امریکہ نے بھی براہمداغ بگٹی کی بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے‘ تو کچھ لوگوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حمایت کرنے والوں اور اس کی سکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے بلوچ دہشت گردوں کو اخلاقی سپورٹ دینے کیلئے ہی25 جولائی کو مریم صفدر کوئٹہ میں جلسہ عام کیلئے بلائی گئیں‘تاکہ یہ سب یک آواز ہو کر کالعدم بی ایل اے سے ہمدردی رکھنے والوں کو‘جو امریکی پابندیوں کی وجہ سے بی ایل اے سے پیچھے ہٹ رہے تھے‘ پھر سے حوصلہ دے سکیں۔