تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-07-2019

سرخیاں‘ متن‘ گرفتاری‘ شعرکی زمین اور نظم

اے سی بند ہونے سے نواز شریف کے 
گردے فیل ہو سکتے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اے سی بند ہونے سے نواز شریف کے گردے فیل ہو سکتے ہیں‘‘ اور گردوں کا فیل ہونا ایسا ہی ہے ‘جیسے بائیسکل کے کُتے فیل ہو جائیں ‘کیونکہ کُتے فیل ہونے سے نہ صرف بائیسکل چلتی نہیں‘ بلکہ اسے گھسیٹ کر ٹھیک کروانے کیلئے بھی لے جانا پڑتا ہے ‘یعنی سواری خود سوار ہو جاتی ہے‘ جبکہ حکومت کی دوسری دھمکی یہ ہے کہ اگر 28کروڑ روپے ادا نہ کیے گئے تو جاتی امرا ہاؤس کی دیوار گرا دی جائے گی؛ حالانکہ اس سے بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘کیونکہ اسے فروخت کر کے پہلے ہی ٹھکانے لگایا جا چکا اور جہاں تک فیملی کی جائیدادیں‘ اثاثے اور بینک اکاؤنٹس میں پڑی ہوئی رقوم کی ضبطگی کا تعلق ہے تو یہ ہمارے لیے ایسا ہی ہے‘ جیسے اُونٹ کے منہ میں زیرہ؛ حالانکہ اونٹ کے منہ میں اُس کی جسامت کے حساب سے کچھ ڈالنا چاہیے‘ تاکہ اس کی کوئی کل تو سیدھی رہے۔ آپ اگلے روز چیف سیکرٹری پنجاب کو خط لکھ رہے تھے۔
حکومت گرتی دیوار‘ سہارا دے کر 
بھی کھڑا نہیں رکھا جا سکتا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت ایک گرتی ہوئی دیوار ہے‘ جسے سہارا دے کر بھی کھڑا نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور شبلی فراز وغیرہ کی ملاقات اور درخواست کے بعد میں نے اسے تھوڑی دیر سہارا دیئے رکھا‘ لیکن انہوں نے جہانگیر ترین کو بھجوانے کا وعدہ کیا تھا‘ جو آج تک کافی انتظار کے بعد بھی نہیں پہنچے۔ اس لیے مجھے یہ خطرہ تھا کہ سہارا دیتے ہوئے یہ کہیں مجھ پر ہی نہ گر پڑے اور کمر وغیرہ نہ ٹوٹ جائے‘ جس کی مرمت کیلئے علیحدہ خرچہ برداشت کرنا پڑتا‘ اس لیے الحمد للہ میں نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے فوراً اپنے آپ کو اس سے الگ کر لیا اور یہ کسی وقت بھی گر سکتی ہے ‘جبکہ اتنی تیز بارشوں میں اس کا کھڑا رہنا ویسے بھی ناممکن ہے اور اسے گرانے کے لیے دھکا دینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں‘ تاہم اگر ترین صاحب قدم رنجہ فرما لیں تو صورت ِحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عرفان صدیقی کی گرفتاری
یہ واقعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اٹلی کے دورے کے موقعہ پر ہمارے اشفاق احمد ٹریفک رولز کی خلاف ورزی میں دھر لئے گئے‘ جب انہیں جج کے سامنے پیش کیا تو اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ٹیچر ہوں‘ جس پر جج اور جملہ حاضرین ِ عدالت ‘اُن کے احترام میں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے‘ جبکہ بزرگ اور استاد جناب عرفان صدیقی کو اگلے روز ایک مبہم اور مشکوک جرم میں مجسٹریٹ کے سامنے باقاعدہ ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا گیا‘جبکہ جس گھر کی کرایہ داری قوانین کی خلاف ورزی کی گئی‘ وہ گھر اُن کے بیٹے کے نام ہے‘ جو انہوں نے کرائے پر دے رکھا ہے اور اگر گرفتار کرنا ہی تھا تو ان کے بیٹے کو کر لیا جاتا اور یہ جو کہتے ہیں کہ علم حاصل کرو‘ چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘ تو اگر استادوں کے ساتھ ہمارے ہاں یہی سلوک ہوتا رہا‘ تو شاید پھر علم حاصل کرنے کیلئے ویسے بھی چین ہی جانا پڑے گا ۔
شعر کی زمین وغیرہ
ایک عزیز نے شعر کی زمین کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ یہ کیسی ہونی چاہیے؟ ظاہر ہے کہ ردیف‘ قافیہ اور بحر کو ملا کر ہی شعر کی زمین وجود پذیر ہوتی ہے؛ اگرچہ شعر‘ یعنی غزل ردیف کے بغیر بھی کہی جا سکتی ہے‘ جسے غیر مردف غزل کہا جاتا ہے‘ لیکن غیر مردف زمین میں شعر عام طور پر اچھا نہیں نکلتا ‘کیونکہ ردیف تو باقاعدہ شعر کا زیور قرار پا چکی ہے؛ چنانچہ شعر کی زمین کوادق اور غیر دلچسپ ردیف اور مشکل قافیے سے بچانا چاہیے‘ کیونکہ ایسی زمین میں اچھا شعر نہیں نکلتا۔ مشکل قافیہ باندھنے کا شوق بھی کچھ اچھے نتائج حاصل نہیں کرتا۔ زمین سیدھی اور صاف ہو تو شعر بھی اتنی ہی آسانی سے تخلیق پاتا ہے۔بصورتِ دیگر یہ محض ٹکریں مارنے کے مترادف ہوگا اور شعر‘ یعنی اچھے شعر کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوگا:
و ما علینا الالبلاغ
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی یہ خوبصورت نظم:
بچا کھچا
نکل رہا تھا وقت ہاتھ سے/ میں خود کو جس قدر بچا سکا‘ اُسے بہت سمجھ لیا/ میں جتنا صرف ہو چکا تھا اس کو چھوڑتا ہوا/ پلٹ پڑا/ نکل رہی تھی بھاپ/ اُمنڈ رہا تھا آتشیں کنواں/ بس ایک دو حواس سے جو بچ گئے/ میں ان کو جوڑتا ہوا پلٹ پڑا/ میں لمحہ لمحہ صرف ہو رہا تھا/ لمحہ لمحہ اپنے آپ کو بچا رہا تھا/ دو طرح کا وقت ایک ہو گیا تھا/ مقناطیس کی طرح/ ہر ایک چیز کھنچتی آ رہی تھی‘ میری سمت/ ہو رہا تھا میں ہر ایک چیز سے الگ/ خیالِ آتشین کی لپیٹ میں/ میں ایسے گھل رہا تھا/ جیسے تیز بارشوں میں کچی اینٹ گھل رہی ہو/ جس جگہ پہ شام سرخ/ رنگ رات کے مہین ہوں/ فلک کا تھال/ رات کے کناروں تک سفید موتیوں سے بھر رہا ہو/ صبح اپنا چاک چاک لخت کر رہی ہو/ پھول اپنے تنگ گھیرے سے نکل رہا ہو/ اک طرف سرک رہا ہو مخملیں غلاف/ وہاں پلٹنا عام بات تھی/ وہاں پہ وقت صرف ہو رہا تھا/ میں پگھلتا جا رہا تھا/ ساتھ ساتھ دونوں ختم ہو رہے تھے/ وقت کی نشانیاں‘ سیاہ شام‘ آسمانی تھال/ اوس سے دُھلی ہوئی صبیح صبح/ جو مری طرح کنوئیں میں ڈوبتی اُبھرتی پھر رہی تھی/ اک سیاہ جال تھا/ کہ جس میں ہو رہے تھے‘ ہم گرہ گرہ/ دراڑ پر دراڑ پڑ رہی تھی شخص میں/ پہاڑ دُھل گیا تھا‘ بارشِ شدید میں/ جو اک طلسم تھا‘ غلاف تھا/ اُتر گیا/ جب اس کا ذکر کر رہا ہوں‘ نظم میں/ میں حرف حرف ہو گیا/ میں سارا صرف ہو گیا!
آج کا مطلع
سبزۂ گلزار پر چوما ہے جس کو خواب میں
زندگی کا زہر تھا اس گوہرِ نایاب میں

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved