تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-07-2019

نیا ہنگامہ اور حقیقت ِ حال

سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک نیا ہنگامہ برپا ہے۔ماضی کے ایک کردار کو بنیاد بنا کر اداروں کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسی پوسٹیں لگائی جا رہی ہیں‘ جن میں لکھا گیا ہے کہ قائد اعظمؒ‘ بریگیڈیئر محمد ایوب خان کو اگلے عہدے پر ترقی نہ دینے کا فیصلہ کر چکے تھے ‘وغیرہ وغیرہ۔ گزشتہ تیس چالیس سال سے بائیں بازو اور بھارت کے زیر اثر میڈیا نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کیخلاف اسی قسم کی کئی کہانیاں مشہور کیے رکھی ہیں‘ جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پانامہ اور وکی لیکس کی زد میں آنے والوں نے گزشتہ چند ماہ سے ان بے سرو پا الزامات قسم کی داستانیں ‘پھر سے سوشل میڈیا پردھڑا دھڑ پوسٹوں کی شکل میں پھیلانا شروع کر رکھی ہیں۔ ہمارے میڈیا کے کچھ ساتھی اور سیاست میں اپنے کیے کی سزا بھگتنے والوں کے پورٹلز‘ قائد اعظمؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ایوب خان کو قائداعظمؒ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اگلے عہدے پر ترقی دی گئی اور اس ترقی سے حاصل اختیارات کی وجہ سے ہی انہیں آگے بڑھنے کا راستہ ملا‘ وغیرہ وغیرہ۔ مخصوص مقاصد کے حامل سوشل میڈیا سیل اور کچھ سینئر اینکرز جب ایک ساتھ ملک کی سکیورٹی فورسز کے خلاف مورچہ لگاتے ہیں‘ تو وہ پہلا حملہ ہی فیلڈ مارشل ایوب خان سے شروع کرتے ہوئے‘ ان کو ترقی نہ دینے کے بارے میں قائد اعظمؒ کے ایسے حکم کا حوالہ دینے لگتے ہیں۔ 
جبکہ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے کسی اخبار‘ کسی شخص کے پاس بریگیڈیئر ایوب خان کی ترقی روکنے کا قائد اعظمؒ کا حکم موجودنہیں اور اگریہ لوگ اصرار کرتے ہیں تو پھر ان سب سے درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا یا پھرکسی بھی ٹی وی چینل پر قائد اعظم ؒ کے ایسے کسی حکم نامے کی کاپی لے کر آ ئیں ۔ آج کل ایک سو برس پرانے احکامات اور فائلوں کے اوراق میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ۔اس لئے میں چیلنج کر رہا ہوں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف قائد اعظمؒ کے جاری کئے گئے اس حکم نامے کا اگر کسی سرکاری گزٹ میں یا فائل میں ذکر محفوظ ہے ‘تو اسے سب کے سامنے لایا جائے۔ قائد اعظمؒ کی ڈائری ان کی وفات کے بعد حکومت ِپاکستان کی ملکیت بن گئی اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کا ایسے کسی بھی حکم نامے یا تجویز سے باخبر نہ ہونا واضح کرتا ہے کہ یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں ۔
ذہن نشین رہے کہ اس قسم کی کوئی یادداشت ‘ قائد اعظمؒ کی ڈائری یا کسی سرکاری حکم نامے کا حوالہ محترمہ فاطمہ جناح ؒکی فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلہ میں انتخابی مہم میں بھی سامنے نہ آ سکا‘ کیونکہ ایسے کسی حکم نامے کا کوئی وجود ہی نہیں تھااوریہ سب Disinformationہے ۔ میںآج پہلی مرتبہ محسن ِپاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف کئی دہائیوں سے گھڑے جانے والے جھوٹ کا پوسٹ مارٹم اس چیلنج کے ساتھ کررہا ہوں کہ جس کا دل چاہے کسی ایک بھی مصدقہ ثبوت کے ساتھ جب اور جہاں چاہے ‘میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر مجھے یہ بات ثابت کر ے ‘ورنہ یہ دروغ گوئی بند کرے‘ بات زبانی کلامی نہیں ہوگی‘ بلکہ مکمل ثبوت کے ساتھ ہو سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کی زندگی پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکیں ‘ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے کئی احکامات اور ان کی زندگی میں کئے گئے انتہائی خفیہ احکامات اور اجلاسوں کی کارروائیاں حکومتی ریکارڈز میں محفوظ ہیں‘ تو پھر ایسی کوئی دستاویز سامنے کیوں نہیں لائی جا رہی ؟
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے متعلق کہا جاتا رہا کہ ان کا پروفیشنل کیریئر قابل تعریف نہیں تھا۔ انہوں نے کسی لڑاکا یونٹ کی کمانڈ بھی نہیں کی تھی‘ لیکن اس کے با وجود انہیں انتہائی شاندار پروفیشنل کیریئر رکھنے والے‘ ان سے کئی سینئرز کوsupersedeکرتے ہوئے اگلے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔افسوس کہ اس قسم کے لوگ بے خبری کی دلدل اور اپنے قومی اداروںکے خلاف جھوٹ پھیلانے کیلئے سونپے گئے مشن میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے اتنا بھی نہیں جانتے کہ برٹش انڈین آرمی میں بحیثیت ِکرنل ‘دوسری جنگ ِعظیم میں انہوں نے برما کے محاذ پر شاندار خدمات انجام دیں۔ پاکستان بننے کے بعد دوسرے سینکڑوں افسروں کی طرح‘ انہوں نے بھی پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور بطور ِکمانڈر 14 DIV ایسٹ بنگال( مشرقی پاکستان) میں خدمات انجام دیں اور پھر1951ء میں لیاقت علی خان نے انہیں پاکستان کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف کے عہدے پر ترقی دی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان پر سب سے زیا دہ تنقید ایسے اخبارات اور ان میں کام کرنے والے صحافیوں اور دانشوروں کی جانب سے کی جاتی رہی‘ جنہیں اس بات کا غصہ ہے کہ لیاقت علی خان کو روس سے دور کرنے والے ایوب خان ہی تھے‘ اور انہوں نے لیاقت علی خان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کو کہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے پاس ا سلحہ کی شدید کمی تھی‘ کیونکہ بہت سا گولہ بارود اور اسلحہ 1948ء کے وقت کشمیر کے محاذمیں کام آ چکا تھا اور پاکستان کو اس وقت اپنے دفاع کیلئے بہترین امریکی اسلحے کی شدید ضرورت تھی ۔
یہ فیلڈ مارشل ایوب خان ہی تھے‘ جن کی وجہ سے ملک آج مکمل اندھیرے میں ڈوبنے سے محفوظ ہے۔ کیا فیلڈ مارشل ایوب خان کے ناقدین‘ وارسک ڈیم‘ جبن پاور ہائوس‘ درگئی پاور ہائوس‘ تربیلا ڈیم‘ منگلا ڈیم‘ نندی پور پاور ہائوس‘ چیچو کی ملیاں پاور سٹیشن‘ رسول پاور سٹیشن اورگدو بیراج سمیت کئی درجن‘ دوسرے منصوبوں کو بھول چکے ہیں ۔ آج‘ جو ملک بھر میں بڑی بڑی نہریں دیکھنے میں آ رہی ہیں‘ وہ ایوب خان کی ہی شاہکار ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان بھر میں جگہ جگہ صنعتوں کا جو جال پھیلا یا گیا‘ان پر کسی دوسرے مضمون میں تفصیل سے لکھوں گا کہ ان صنعتوں کی وجہ سے ملک میں کتنے لوگوں کو روزگار ملا۔کراچی میں پاکستان بھر سے آنے والے ورکرز کا سمندر اس لئے سما گیا کہ آئے روز قائم ہونے والی فیکٹریاں اور کارخانے انہیں اپنے اندر سما رہے تھے۔
افسوس صد افسوس کہ کسی نے بھی آج تک یہ بتانے کی کوشش نہیں کہ جب1971ء کی جنگ شروع ہو ئی تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے جی ایچ کیو کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے فوجی جوانوں کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت کیلئے جنگ میں بطورِ سپاہی حصہ لینا چاہتے ہیں ‘لیکن ان کی یہ درخواست ناگزیروجو ہ کی بنا پر اس وقت قبول نہ کی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سپاہی کے دل میں دفاع ِوطن کا کس قدر جذبہ تھا؟ ایوب خان پرایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ ان کی فوجی ملازمت اطمینان بخش نہ ہونے پر ان کی ACRاچھی نہ تھی‘ لیکن ان کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں کئی سینئرز جرنیلوںپر ترقی دے دی گئی ۔ کسی بھی فورس میں بطورِThe Adjutant-General to the Force ڈھاکہ میں انفینٹری ڈویژن ‘ ایسٹرن کمانڈ کے فرائض انجام دینے والے کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ لبرلز اور بھارت نواز ترقی پسند کیا بھول گئے کہ ان کے ہیرو ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو کتنے سینئر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے آرمی چیف مقرر کیاتھا؟ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کو نواز شریف نے کتنے سینئرز جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی تھی۔ یہ کوئی بھولی بسری داستان نہیں‘ بلکہ کل کی بات ہے۔
آج کے شعبہ صحافت سے وابستہ نوجوان ا ور سوشل میڈیا استعمال کرنیوالے شاید نہیں جانتے کہ تیس برس پہلے تک پاکستان کے میڈیا میں بائیں بازو کے دانشوروں کا غلبہ تھااور یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بائیں بازو والے حکومت مخالف تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved