25 جولائی کوطویل بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی اور بل کے حق میں 303‘ مخالفت میں 82 ووٹ پڑے۔ یوںتین طلاق بل‘ ایک مرتبہ پھر لوک سبھا سے منظور ہو گیا۔ یہ بل بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرساد کی طرف سے پیش کیا گیا تھا ۔اب‘بل کو قانون بنانے کے لیے بھارتی سرکارکو اسے راجیہ سبھا سے بھی منظور کروانا ہوگا۔ واضح رہے کہ بھارتی سرکار اس بل کو پہلے بھی لوک سبھا سے منظور کروا چکی‘ لیکن یہ بل راجیہ سبھا میں نامنظور ہوگیاتھا۔ کانگرسی ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے اس بل کی پُر زور مخالفت کی گئی تھی اور موجودہ شکل میں اس بل کو خارج کر دیا گیا تھا۔اب بھی اس بل کی منظوری پر اپوزیشن نے احتجاجاً لوک سبھا سے واک آئوٹ بھی کیا۔تین طلاق بل کے پس منظر پر نظر دوڑائیں‘تو اس کی بنیاد سائرہ بانو کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے پڑی‘ جس میں عدالت ِعظمیٰ نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی سرکار تین بار آرڈیننس لائی اور تیسری بار پارلیمنٹ میں بل لایا گیا۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ 22 اگست 2017ء کو آیا تھا۔اس بل کے مقاصد اور وجوہ میں سائرہ بانو بنام بھارتی سرکار اور دیگر کو جواز بنایا گیا ۔ذہن نشین رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے 22 اگست 2017ء کے مذکورہ فیصلے میں طلاق بدعت کے ذریعے مسلم شوہروں کے ذریعے بیویوں کو طلاق دینے کی روایت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔بھارتی میڈیا کے مطابق‘ اس فیصلے سے تین طلاق کے ''صدیوں پرانے طریقے ‘‘ سے ہندوستانی مسلم خواتین کی آزادی کو طاقت ملی ہے۔
بھارتی سرکار پہلی بار 28 دسمبر 2017ء کو مسلم خواتین (شادی کے حق ِتحفظ) بل کو لوک سبھا میں لے کر آئی تھی اور یہ بل اسی روز‘ یعنی 28 دسمبر 2017ء کو ہی لوک سبھا میں منظور بھی ہو ا گیا تھا‘ لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی مخالفت کے سبب بل پیش نہیں کیا جا سکا‘ کیونکہ اس بل پر اپوزیشن کے کچھ اعتراضات تھے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ ملزم شوہر کی ضمانت کا کوئی التزام نہ ہونا‘ مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکلنے اور کسی بھی شخص کو ایف آئی آر درج کروانے کا حق دینا مناسب نہیں ‘ لہٰذا بھارتی سرکاران تینوں اعتراضات کو دور کرنے کے لیے ترمیم کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے کے لیے 19ستمبر 2018ء کو آرڈیننس لے آئیـ اورمجسٹریٹ کے ذریعے ضمانت کا انتظام کیاگیا۔علاوہ متاثرہ کی بات سننے کے بعد مجسٹریٹ کو معقول شرائط پر صلح کروانے کا بھی اختیار دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کسی بھی شخص کی بجائے ایف آئی آر درج کروانے کا حق صرف متاثرہ یا اس کے خون کے رشتہ دار یا شادی کے بعد بننے والے رشتہ دار تک محدود کر دیا گیا۔تینوں ترامیم کے ساتھ نئے فارمیٹ میں مسلمان خواتین (شادی کے حق ِ تحفظ) بل17 دسمبر 2018 ء کو لوک سبھا میں دوبارہ پیش کیا گیااور یہ بل دس روز بعد 27 دسمبر 2018ء کو لوک سبھا میں منظور کر لیا گیا‘ لیکن ایک بار پھر اسے راجیہ سبھا میں پیش نہ کیا جا سکا۔یوںپارلیمنٹ میں پاس نہ ہونے کے سبب‘ بھارتی سرکار نے 12 جنوری 2019ء کو دوسری بار آرڈیننس جاری کیا۔یاد رہے کہ پچھلی لوک سبھا کے آخری سیشن میں بھی بل کو راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا جا سکا تھا‘ جس کی وجہ سے سیشن ختم ہونے کے بعد 21 فروری 2019ء کو تیسری بار آرڈیننس لایا گیا۔ مئی 2019ء میں 16 ویں لوک سبھا تحلیل ہو ئی ‘جس سے یہ بل ازخود ہی خارج ہو گیا‘ لہٰذا نئی لوک سبھا کی تشکیل کے بعد بل کو 21 جون 2019ء کو لوک سبھا میں بارِ دیگر پیش کیا گیا اور 25 جولائی 2019ء کو ایوان نے مسلم خواتین (شادی کے حق ِتحفظ) بل پر اپنی مہر ثبت کر دی۔
لوک سبھا میں تین طلاق بل پر بحث کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کریمنلائیز کرنے کو نہیں کہا‘ ہماری مخالفت اسی مسئلہ پر ہے۔ وہیں کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے کہا کہ صرف ایک طبقے کی خواتین کو چھوڑنے والے مردوں کے خلاف قانون کیوں لایا جا رہا ہے‘دیگر طبقات کے لیے ایسا قانون کیوں نہیں ہے؟ تین طلاق بل پر بحث کے دوران تیلگو دیشم پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ جے دیو گلّا نے بھی لوک سبھا میں اس بل کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ تین طلاق کو عدالت غلط بتا چکی اور جو بل پیش کیا گیا‘ وہ کئی معنوں میں درست نہیں۔ سب سے پہلے تو سرکار کو ایسا قانون بنانا چاہیے‘ جو سب کے لیے برابر ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو کو بھی طلاق پر جیل بھیجا جائے گا؟ اگر نہیں تو صرف مسلم مردوں کے لیے یہ قانون کیوں؟ ٹی ڈی پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ اس بل میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔آل انڈیا ازیں مجلس ِاتحادِالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے تین طلاق بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا بل ہے‘جس کی وہ ہمیشہ مخالفت کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل نا صرف ہندوستانی آئین کے خلاف ہے‘ بلکہ مسلم
خواتین کی بربادی کا سبب بننے والا بھی ہے۔ انہوں نے اس بل میں کئی خامیوں کی نشاندہی کروائیں۔ اسدالدین اویسی کا اس حوالے سے مزید کہنا تھاکہ آپ شوہر کو گرفتار کریں گے‘ جیل میں ڈالیں گے‘ کیا جیل میں بیٹھ کر کوئی شوہر عورت کے نان و نفقہ کے لیے خرچ دے گا؟ شوہر تین سال جیل میں رہے گا‘ توآپ تین سال تک عورت کو اس شادی کے بندھن میں بندھے رہنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ کیا تین برس بعد جب شوہر جیل سے باہر آئے گا توبیوی 'بہار و پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘ گائے گی‘‘؟بہر حال مسلمانوں میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اگر طلاق ثلاثہ کے حوالے سے کوئی قانون بن جاتا ہے‘ تب بھی مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا ‘کیوں کہ طلاق کے حوالے سے ان میں کافی بیداری آئی ہے اور وہ اس معاملے میں شرعی عدالتوں اور دارالقضاء سے رجوع کر رہے ہیں۔
لوک سبھا میں تین طلاق بل پر بحث کے دوران سماجوادی پارٹی رکن ِپارلیمنٹ اعظم خان نے چیئر پر بیٹھی رما دیوی کے بارے میں کچھ تبصرہ کیا‘ جس پر وزیر قانون روی شنکر پرساد نے سخت اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوک سبھا رکن کو اپنے بیان کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔ اس پر اعظم خان نے کہا کہ وہ میری بہن جیسی ہیں‘ معافی کس بات کی مانگنی چاہیے؟تاہم بی جے پی رکن ِ پارلیمنٹ اعظم خان کے بیان پر ہنگامہ ہوتا رہا ۔ترنمول کانگرس نے طلاق ثلاثہ بل کو سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ سدیپ بند ھوپا دھیائے نے اپنی بات لوک سبھا میں رکھتے ہوئے کہا کہ ہماری پارٹی خاتون کی خودمختاری کے حق میں ہے‘ لیکن یہ بل ویسا بالکل نہیں نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی مسلمان ایسے بھی ہیں‘ جو خواتین کی خود مختاری کی بات کرتے ہیں‘ لیکن اس طرح کے بل کی وہ بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر‘ مرد جیل میں چلا جائے گا اور پھر اسے ہی خاتون اور بچے کا دھیان رکھنے کو کہا جائے گا تو یہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ رکن ِپارلیمنٹ نے کہا کہ ہماری پارٹی نے خواتین کو لوک سبھا انتخاب میں زیادہ ٹکٹ دیے‘ ہماری پارٹی کی سربراہ خاتون ہیں اور وزیر اعلیٰ بھی خاتون ہیں۔ اگر‘ آپ یہاں پاس کروا لیں گے‘ تو راجیہ سبھا میں بل کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ ابھی ہی اسے سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکار کو اگرچے تین طلاق پر پابندی سے متعلق بل کو پارلیمان کے ایوان زیریں ( لوک سبھا) میں تیسری مرتبہ بھی منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی ہے‘ لیکن اسے قانونی شکل فراہم کرنا 'ہنوز دلّی دوراست‘ والا معاملہ نظرآ رہا ہے۔