ادب روایتی طور پر خوشی اور مسرت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ‘جو معاشرے کی خوبصورتیاں کشید کر کے پڑھنے والوں کیلئے دلچسپی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ یوں ادب معاشرے میں خوشیاں بکھیرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ادب کے حوالے سے یہ اعتقاد اس مکتبِ فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوںکا ہے جو ادب برائے ادب کے قائل ہیں۔یہ مکتب ِفکرالفاظ‘ فن اور مہارت سے ایک ایسی خیالی دنیا (Utopia)کی تخلیق کرتاہے جس کا حقیقی دنیا کے مسائل اور مصائب سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ہر طرف شانتی‘ سکون اور انبساط کی کیفیت ہوتی ہے‘ جس میں قاری خود کو بادلوں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس ادب برائے زندگی کے مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ادب اور زندگی کے باہمی تال میل پر یقین رکھتے ہیں اور ادب کو معاشرے کا آئینہ قرار دیتے ہیں‘ جس میں خوشیاں بھی ہیں اورمسائل بھی۔ یوں آئینے کی طرح ادب زندگی کے ہر پہلو کو پیش کرتا ہے۔ ادب کا ایک اور مکتب ِفکر ادب برائے تبدیلی ہے‘ جس کابراہ راست تعلق کریٹیکل پیراڈئم(Critical Paradigm)سے ہے ۔ ادب کے اس مکتب ِ فکر کے مطابق ادب نہ تو محض خوشی اور انبساط کا ایک ذریعہ ہے اور نہ ہی محض ایک بے حِس آئینہ‘بلکہ یہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ اس مکتب ِفکر کے مطابق ادب ہر گز غیر سیاسی نہیں ہوتا‘بلکہ ادب کا سیاست اور طاقت سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تاریخِ انسانی میں ہمیشہ زور آور سامراجی طاقتوں نے دوسری اقوام کو ذہنی طور پر زیر کرنے کیلئے ادب اور زبان کا استعمال کیا۔ ادب کو شناختوں کی من مانی تشکیل (Construction of Identities) کیلئے استعمال کیا گیا۔اس عمل میں زور آور سامراجی اقوام اپنی شناخت کوارفع دکھاتی ہیں اور دوسروں کی شناخت کو کم تر کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ شناختوں کی تعمیر کا یہ عمل اتنے غیر محسوس انداز میں کیا جاتا ہے کہ مفتوح اقوام ان مصنوعی طور پر تشکیل شدہ شناختو ں کو حقیقت کے طور پر تسلیم کر کے اپنا لیتی ہیں اور مفتوح ذہنیت کی اقوام زور آوروں کی شناخت سے مرعوب ہو کر انہیں اپنارول ماڈل بنا لیتی ہیں۔ اس مرعو بیت کا ایک منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مفتوح اقوام اپنی زبان‘ ثقافت ‘ ادب ‘ اپنے طرزِ تعمیر ‘اپنے لباس‘ اپنے رہن سہن کے طور طریقوں اور اپنے اعتقادات و افکار کو زور آور قوموں سے کم تر مان لیتی ہیں۔ اس شکست خوردہ ذہنی کیفیت کے زیر اثر مفتوحہ قومیںبہ رضا وررغبت اپنی عنانِ اقتدار فاتح اقوام کے حوالے کر دیتی ہیں۔ مشہور اطالوی مفکر انتو نیو گرامچی (Antonio Gramsci)نے اس کوspontaneous consent کا نام دیا ہے۔ یوںمفتو حہ اقوام اپنے تسخیر شدہ ذہنوں سے فاتح اقوام کو یہ اختیار دے دیتی ہیںکہ وہ ان پر حکمرانی کریں ۔
اب آئیے اس سارے عمل میںہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ادب کس طرح شناختوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ اس سارے عمل کو معروف مفکر ایڈورسعید نے اپنی تصنیف''اورینٹل ازم‘ ‘ میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ بقول ایڈورڈسعید مغرب (Occident) نے اپنی طاقت کی بنیاد پر مشرق(Orient)کی شناخت کواپنے تعصب کے رنگوں میں تشکیل دیا۔اپنی کتاب اورینٹل ازم میں بہت سی مثالوں سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ کیسے ادب کے ذریعے شناختوں کی تشکیل ہوتی ہے ۔ہندوستان کے حوالے سے لکھے ہوئے انگریزی ادب پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کیسے ہندوستان کو ایک دور دراز‘ تاریک‘ اور پُراسرارخطے کے طور پر پیش کیا گیا‘جہاں کے رہنے والے تہذیب اور تمدن سے کوسو ں دور ہیں۔ ہندوستان کی اس شناخت کی تشکیل میں مستشرقین کے تعصبات کا بنیادی کردار تھا۔یوں مغرب اپنی برتر پوزیشن(Positional Superiority) کی بنیاد پر مشرق کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور مشرق کی شناخت کی تشکیل بھی منفی رنگوں سے کی جاتی ہے۔ اس طرح تاریخ میں سامراجی طاقتیں ہمیشہ دوسری اقوام پر ذہنی تسلط کیلئے ادب کا استعمال کرتی رہی ہیں‘ لیکن ادب جس طرح سامراجی طاقتوں کے ہاتھ میں تسلط کا ہتھیار رہا اسی طرح آزادی کی تگ ود کرنے والی اقوام نے اسے مزاحمت کے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا۔ ادب کو مزاحمت کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس کی مثالیں ہمیں افریقی ناول نگاروں ایچی بی (Achebe) اور گوگی (Ngugi) کے ناولوں میں ملتی ہیں‘ جنہوں نے ڈی کالونائزیشن(Decolonization) کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں پوسٹ کلونیل ادب کی ایک توانا روایت وجود میں آئی ‘جس میں ایمپائراور اس کے ظالمانہ نظام کو چیلنج کیا گیا۔
ادب میں مزاحمت کی یہ روایت ہمیں ہندوستان میں بھی ملتی ہے‘ جب غیر ملکی تسلط کے خلاف ادیبوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بھر پور مزاحمت کی۔ یہاں ہم ان شعرا کا ذکر کریں گے جنہوں نے فرنگی حکومت کے خلاف اس وقت علمِ بغاوت بلند کیا جب حکومت ِوقت کے خلاف لکھنا آسان نہ تھا۔ مزاحمت کی اس شاعری میں گل و رخسار کے قصوں کے بجائے شہروں کی بربادی‘ کشت وخون‘ استحصال اور آزادی کی پکار تھی ۔یہ شاعری حریتِ فکر کے جذبے سے پھوٹی تھی ۔ کمال الدین کمال ایک ایسے ہی شاعر تھے‘ جنہوں نے برطانوی راج کی ظالمانہ پالیسیوںکو ہدف تنقید بنایا۔اسی طرح محمد حسین آزادؔ نے 1857ء کی جنگ آزادی کے حوالے سے ایک اہم نظم لکھی۔منیر ؔشکوہ آبادی نے اپنی شاعری میں برطانوی راج کی غیر منصفانہ پالیسیوں پر سخت تنقید کی‘ نتیجے کے طور پربطور سزا پائی۔انہیںبدنامِ زمانہ جزیرہ انڈیمان بھیج دیا گیا۔ برطانوی راج میں جبر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں کو اپنے پیاروں کی موت کا ماتم کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔اس خوف کے ماحول میں مفتی صدرالدین آزردہ نے جرأت سے کام لیتے ہوئے امام بخش صہبائی کے حوالے سے نظم لکھی‘ جو برطانوی افواج کے ظلم کا شکار ہو گئے تھے۔اکبر ؔالٰہ آبادی نے مقامی باشندوں کو مغربی تہذیب کے منفی پہلوؤںسے آگاہی کیلئے تیز‘ نکیلے طنز کاسہارا لیا ۔ ایک اور شاعر تھے سرور جہاں آبادی‘ جن کا اصل نام منشی شری درگادا س تھا‘ ان کی نظموں نے وطن سے محبت کا جذبہ ابھارا۔ اسی طرح برج نارائن چکبست نے برطانوی سامراج کی مزاحمت اپنی آتشیں شاعری کے ذریعے کی۔معروف صحافی اور شاعر مولانا ظفر ؔعلی خان نے اپنی نظموں کے ذریعے برطانوی سامراج کو للکارا۔ اسی طرح مولانا محمد علی جوہرؔ اور مولانا حسرتؔ موہانی نے شاعری کو آزادی کی جدوجہد میں ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
علامہ اقبالؔ کی شاعری نے ڈی کالونائزیشن (Decolonization) کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایک طرف تو چکا چوند مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن نمایاں کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی جھلک دکھائی۔ علامہ اقبال ؔسمیت آزادی کیلئے لکھنے والے شعرا شعوری طور پر مقامی باشندوں کو ذہنی غلامی سے رہائی دینے کی کو ششوں میںمصروف تھے ۔یہ دراصل سامراج کی اس حکمتِ عملی کا جواب تھا‘ جس میں مرعو بیت کی ایک مصنوعی فضا قائم کی جاتی ہے ۔فاتح قوم سے متعلق ہر چیز کو مثالی رنگوں میں پیش کیا جاتا ہے اور مفتوح قوم کو اپنی تہذ یب‘ تمدن‘زبان‘ ادب‘ اعتقادات اور ماضی سے بد ظن کر دیا جاتا ہے۔مقامی شعرا نے اپنی شاعری میں اپنی سر زمین‘ اپنے دیس کے باسیوں‘ اپنے رسوم ورواج‘ اپنے تہواروں اور اپنے جانبازوں کا تذکرہ کیا اور برطانوی سامراج کے کے اُس کھوکھلے‘ لیکن بظاہر چکا چوند سے بھر پور نظام کو چیلنج کیا‘ جس کی بنیادیں معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی استحصال پر رکھی گئی تھیں ۔ برصغیر پاک و ہند میں جب بھی آزادی کی تاریخ لکھی جائے گی‘ تو اس میں ان شعرا کا نام بھی ہو گا‘ جنہوں نے اپنی شاعری سے تاج برطانیہ کی استحصالی حکومت کی بھرپور مزاحمت کی اور آزادی کی منزل کو قریب تر کر دیا۔