پچھلے سال جب بھارت میں حکومتی ادارے کشمیر میں سیاحت کے احیاء اور امرناتھ یاترا کے کامیاب اختتام کا ڈھول بجا کر ’سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے‘ کا راگ الاپنے میں مصروف تھے، سرینگر شہر کے بچوں کے واحد ہسپتال میں چارماہ کے دوران 500نو زائیدہ بچوں کی اموات کی خبروں نے پورے خطے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2008ء سے اس سال تک صرف اسی ہسپتال میں تقریباً 4000بچے غیر معیاری ادویات کے باعث زندگی کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی چل بسے تھے۔ ان دنوں کشمیر میں جعلی ادویات کے ایک اور سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔ جس نے وادی کے طول وعرض میں امن و سکون غارت کر دیا ہے۔ جس طرح نوزائیدہ بچوں کے قاتلوں کو ڈھونڈنے اور انہیں کیفرکردار تک پہچانے میںنئی دہلی اور مقامی انتظامیہ نے لیت و لیل سے کام لیا‘ لگتاہے کہ اسی طرح موجودہ ادویہ سکینڈل کی بھی پردہ پوشی کی جا رہی ہے۔ اس سکینڈل کی خاص بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی کابینہ کے دو اہم ارکان سابق وزیر صحت شام لال شرما اور ہیلتھ ایجوکیشن کے موجودہ وزیر تاج محی الدین کے مابین الزام تراشی کا سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ شرما آج کل محکمہ آبپاشی کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ دونوں وزرا ء اس سکینڈل کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے قریبی حلقے اس سارے معاملے سے اپنے آپ کو دُور رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دونوں وزراء اتحادی پارٹی کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہی ان کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ انکشافات کے مطابق کشمیر میں کئی سال قبل اینٹی بائیوٹک کے نام پر کچے آٹے سے بھرے کیپسول مریضوں کو فروخت کیے گئے ہیں اور گزشتہ سال حکومت کی سینٹرل پرچیزنگ کمیٹی نے چھ غیر معیاری اور جعلی ادویات سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کیں۔ نامعلوم‘ کتنے مریض ان دوائیوں کے استعمال سے زندگی کی جنگ ہار گئے ہونگے۔ اس سکینڈل کے حوالے سے جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں ان سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال 500 نوزائیدہ بچوں کی اموات اور اس سال ادویہ سکینڈل نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کہیں پس پشت کسی منظم سازش کے تحت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی تو نہیں کی جا رہی؟ صورت حال کا المناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ذرا بھی متحرک نظر نہیں آرہی۔ بھارت کے مشرقی شہر کلکتہ کے ایک ہسپتال میں 32بچوں کی اموات نے پچھلے سال بھارت کے قومی میڈیا کی نیند حرام کر دی تھی۔ یہاں تک کہ وزیراعظم من موہن سنگھ کو مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو اپنے فرائض منصبی یاد دلانے پڑے تھے۔ دہلی سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کلکتہ روانہ کی گئی۔ کشمیر میں سیکڑوں اموات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک بڑے میڈیا گروپ نے دہلی کے ایک عالیشان ہوٹل میں حال ہی میں ریاست کو صحت کے شعبہ میں ’بہترین کارکردگی‘ پر ایوارڈ سے نوازا۔ سرینگر میں ادویہ سکینڈل کی پردہ پوشی کا یہ عالم ہے کہ انکوائری کے نام پر حکومت نے ہسپتالوں تک جعلی ادویات پہنچانے میں کلیدی رول ادا کرنے والی پرچیزنگ کمیٹی کے ایک اہم رکن کو ہی تحقیقاتی کمیٹی کا ممبر بنادیا۔ دوسری طرف سابق وزیر صحت‘ جن کے دورِ وزارت میں دوائیوں کے ٹھیکے دیے گئے‘ نے اس سکینڈل کو جموں بنام کشمیر کا رخ دیکر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ کیونکہ ادویہ سپلائی کرنے والی کمپنی اور ٹھیکے داروں کا تعلق ہندو اکثریتی خطے جموں سے ہے۔ مگر میڈیکل ایجوکیشن کے نئے وزیر تاج محی الدین کا الزام ہے کہ جموں کی لائف لائن فارماکو سرجیکلز لمیٹڈ نامی کمپنی ، جس نے یہ ادویہ سپلائی کی ہیں‘ کا مالک اشوک شرما سابق وزیر کا معتمد خاص ہے۔ خبروں کے مطابق اشوک شرما وزیر موصوف کا چیف الیکشن ایجنٹ تھا۔ سیاست میں آنے سے قبل وزیر موصوف بھی جموں کے صوبائی ڈرگ سٹور میں سٹور کیپر تھے۔ تب سے ہی اشوک شرما کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں۔ وہ پہلا الیکشن جیتنے کے بعد ہی وزیر صحت کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ کشمیر میں ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر نثار الحسن کا کہنا ہے کہ جعلی ادویہ کی سپلائی کے پیچھے ڈرگ مافیا اور ایک منظم ہاتھ کار فرما ہے جو کھلے عام کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرگ کنٹرولر ستیش گپتا نے رشوت کے عوض بے تحاشا ڈرگ لائسنس جاری کیے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ انہوں نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا کہ غیر معیاری ثابت ہونے کے باوجود دو برسوں سے یہ ادویات ہسپتالوں کو سپلائی کی جا رہی تھیں۔2011ء میں ایک لیبارٹری کے ذریعے ان دوائیوں کی جانچ ہوئی مگر رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اور تو اور جموں میں مقیم پرچیزنگ کمیٹی نے 2012ء میں مسلسل انہی دوائیوں اور انجکشنوں پر مہر ثبت کر کے ان کی سپلائی کی اجازت دی۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کی پردہ پوشی کا کام سرعت سے جاری ہے۔وزارت صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی کابینہ میں شامل چند با اثر وزراء مرکزی اداروں کی شہ پر نہ صرف اس سکینڈل کو دبا رہے ہیں بلکہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ایک خطرناک کھیل کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی کوششیں ہو رہی ہیں کہ معاملے کو طول دیکر گول کیا جائے۔کشمیر میں حالات کی وجہ سے جہاں ایک معمولی واقعہ بھی سیاسی رنگ اختیار کرتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی دہلی کی حکومت براہ راست مداخلت کر کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دلانے میں عجلت سے کام لے۔ اس سے قبل 2006ء میں سامنے آنے والے بد نام زمانہ سیکس سکینڈل کی بھی اسی طرح پردہ پوشی کی گئی اور ملزموں کو ان کے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے بچایا گیا۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ موجودہ ڈرگ سکینڈل بھی سیکس سکینڈل کی راہ پر جا رہا ہے۔کشمیر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ جس طرح بھارت کی دیگر ریاستوں میں ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لیا جا تا ہے، ملوث وزراء اور افسروں کو برطرف کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے‘ متعلقہ محکمے کشمیر کو الگ زاویے اور نظریے سے دیکھتے ہیں‘ وہاں ملزموں کو سزا دینا تو دور کی بات اُلٹا ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ یہ شاید عدلیہ کی تاریخ کا پہلا کیس رہا ہوگا جب بھارتی سپریم کورٹ نے ملزموں کی اپیل پر سیکس سکینڈل کا کیس ریاست سے باہر سینکڑوں میل دور چندی گڑھ منتقل کیا ورنہ اکثر عدالتی کارروائی گواہوں کی حفاظت کے مدنظر متاثرہ افراد کی اپیل پر دوسری ریاستوں میں منتقل کی جاتی ہے۔ گواہوں کی عدم پیشی اور تکنیکی وجوہا ت کی وجہ سے چندی گڑھ کورٹ نے وی آئی پی ملزموں کو بری کر دیا۔ تاحال ریاستی حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر نہیں کی۔ کشمیری خواتین کی عزت کو تارتار کرنے والے نام نہاد سیاسی رہنما اور افسر دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان میں ایک تو دوبارہ وزارتی کونسل میں شامل ہے اور دوسرے کو چیف سیکرٹری بناکر کشمیری عوام کی تذلیل کی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطے میں امن کی بحالی کے لیے جس طرح سیاسی عمل کی ضرورت ہے اسی طرح اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک جوابدہ اور شفاف انتظامیہ اور قانون کی عملداری بھی ضروری ہے تاکہ جرم کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا اور بے گناہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved