تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     30-07-2019

اقبال کی نفسِ جبریل کے لئے دعا

آپ نے دو کتابوں پر تبصرہ پچھلے کالم میں پڑھا‘ اب ہم تیسری کتاب کی طرف چلتے ہیں ‘جو غالباًاہمیت کے اعتبار سے سرفہرست ہونی چاہیے۔ مصنفہ ہیں ‘عالمی شہرت کی حاملKaren Armstrong۔ کتاب کا نام ہے‘The Lost Art of Scripture۔ 560 صفحات کی ضخیم کتاب کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ الہامی کتابوں اور مذہبی صحیفوں کے متن میں اور مذاہب کو ماننے والوں کی عملی زندگی میں فرق اتنا زیادہ ہے کہ اگر اسے بُعد المشرقین کہنا مبالغہ ہوگا تو ہم اسے ایک بڑی خلیج تو بجا طور پر کہہ سکتے ہیں۔ فاضل مصنفہ نے مسلمان خواتین کے نقاب اوڑھنے کی مثال دی ہے ۔یہ سو فیصدی ایک رواجی اور معاشرتی اور تہذیبی روایات میں سے ایک ہے۔ کیرن کی عالمی شہرت کا یہ عالم ہے کہ وہ نا صرف ورلڈ اکنامک فورم ‘بلکہ امریکی کانگرس (پارلیمنٹ) سے دورِ جدید میں مذاہب کے تصادم کو مفاہمت میں تبدیل کرنے کے موضوع پر خطاب کر چکی ہیں۔ انہوں نے کیتھولک کانونٹ میں بطور ِراہبہ سات سال شب و روز عبادت اور مطالعہ میں گزارے اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی میں تین برس دینیات کا مضمون بڑی توجہ اور ذوق و شوق سے پڑھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 1200 سال قبل از مسیح لکھا گیا رگ وید (ہندوئوں کی مقدس کتاب) ہو یا چینی فلاسفر کنفیوشس کی لکھی ہوئیAnalects‘ ان کے متن کو حرفِ آخر نہیں سمجھا جا سکتا؛ چونکہ سچائی کا فہم ایک ایسے عمل کا نام ہے‘ جس کے آگے آپ کبھی بھی فل سٹاپ نہیں لگا سکے۔ طلوعِ آفتاب کی طرح انسانی عقل کے اُفق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتے جاتے ہیں۔ امریکہ میں عیسائی تبلیغی ادارے ہر سال اربوں ڈالر اس کام پر صرف کرتے ہیں کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقائے زندگی کو غلط ثابت کیا جا سکے۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ صرف چند صدیاں پرانی بات ہے ‘جب مسیحی چرچ نے اس نظریہ کو کہ زمین ساکن ہے اور دن رات سورج کے زمین کے گرد چکر لگانے سے ظہور پذیر ہوتے ہیں‘ انجیل مقدس کی آیات کی روشنی میں منوانا چاہا۔ سائنس دانوں کو ہر طرح کے عذاب اور تشدد اور سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ثابت ہو گیا کہ سائنس دانوں کا مؤقف (زمین سورج کے گرد گھومتی ہے) درست ہے تو چرچ کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ وہ آج تک نہیں سنبھل سکا۔ الہامی /مذہبی کتابوں کا متن جو بھی ہو‘ قدامت پسند اور ترقی پسند اُس سے وہ مطلب نکالتے ہیں ‘جو ان کے اپنے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتا ہو۔ 
کیرن آرم سٹرانگ کے عالمانہ بیانیے کی روشنی میں ہم اپنے گھر کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں نیم مذہبی اور نیم سیاسی جماعتوں اور خالصتاً مذہبی جماعتوں کی کوئی کمی نہیں۔ آپ نے ضرور غور فرمایا ہوگا کہ ان 71 برسوں میں ان سے کسی ایک نے بھی جاگیرداری اور سرمایہ دار کی مخالفت نہیں کی۔ سرمایہ دارانہ نظام سود کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس لئے وہ سودی نظام کے بارے میں بھی مصلحتاًخاموش ہیں۔ یہ خاموشی آدھی نہیں‘ بلکہ پوری رضا مندی کے مترادف ہے۔ بلا خوفِ تردید کہاجا سکتا ہے کہ محراب و منبر سے بھی جاگیر داری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک لفظ نہیں کہاجا رہا۔ گزرے ہوئے سو برسوں میں ماسوائے ہمارے شاعر ِمشرق علامہ اقبالؔ کے کسی ایک دانشور اور فکری راہنما نے اجتہاد کی ضرورت پر زورنہیں دیا۔ اقبالؔ کے علاوہ کسی ایک نے یہ تلخ حقیقت کھل کر بیان نہیں کی کہ ع
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
اقبالؔ نے اپنی شاعری میں ‘جس مُلاّ کا مذاق اُڑایا ہے اور جسے تہہ محرابِ مسجد سو جانے اور سجدے کی اجازت مل جانے پر ہندوستان میں اسلام کو آزاد سمجھنے پر آڑے ہاتھوں لیا‘ وہ مُلّاکسی فرد کا نہیں ‘بلکہ اُس ذہن کا نام ہے‘ جو تنگ نظری‘فرقہ پسندی‘ علم دشمنی‘ جاہلانہ تعصب‘کم ظرفی اور اندھی تقلید کے اجزا سے تشکیل پاتا ہے۔ ناانصافی ہوگی کہ ملائیت کے بے حد ناقص‘ نیم اور پسماندہ شعور کے خلاف جہاد کرنے والوں میں علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کی گراں قدر خدمات کا ذکر نہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے ان کی سیاسی ناکامی نے ان کے فکری کارناموں کو بھی گرد آلود کر دیا اور وہ بھی اتنا کہ آج نوجوان نسل کو نہ اُن کے نام کا پتا ہے اور نہ کام کا۔ اقبالؔ کی ایک شاہکار نظم (ساقی نامہ) میں مذکورہ بالا کتاب کے مؤقف کی تائید اس شعر میں ملتی ہے۔؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
اقبالؔ اپنے بارے میں چاہے جو بھی کہیں‘اس کا انہیں حق حاصل ہے‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ خدا نے انہیں نفسِ جبریل سے اس حد تک نوازا تھا کہ صرف انہیں نظر آیا کہ اُن کے دور میں ایک پوری نسل کا گلا اہل ِمدرسہ نے اتنی برُی طرح اور اتنی سختی سے گھونٹا کہ وہاں سے پہلے کلمہ کی آواز بھی نہیں نکلتی۔ ترکی‘ ایران اور ملائیشیا‘ ان تینوں ممالک میں عوام دوستی پر مبنی سماجی اور سیاسی تبدیلی کی تحریکیں صرف اس لئے کامیاب ہوئی ہیں کہ وہاں نا صرف محنت کش اور متوسط طبقات ‘بلکہ مذہبی اور ترقی پسند حلقے ایک دوسرے کے ساتھی مددگار اور ہم رکاب بن گئے۔ ہم ایک بار پھر اس دہلیز کو عبور کریں گے(جس طرح 1970 ء میں یہ کارنامہ پیپلز پارٹی نے سرانجام دیا تھا)تو ہماری کایا پلٹ جائے گی۔ یقین کیجئے گا۔
بچپن میں پڑھا تھا کہ رات بیت گئی ‘مگر کہانی ختم نہ ہوئی۔ کالم نگار بوڑھا ہوا اور کالم لکھنے لگا تو اُسے پتا چلا کہ کالم کی جگہ ہمیشہ ختم ہو جاتی ہے‘ مگر اُس کی کتھا کا ایک حصہ رہ جاتا ہے۔ آج کے کالم کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ کالم کی مقررہ جگہ ابھی پوری طرح استعمال نہ ہوئی اور نفسِ مضمون مکمل ہو گیا۔ مناسب ہو گا کہ میں بچ جانے والی جگہ کو بھی خامہ فرسائی کی زد میں لائوں اور اپنے قارئین کو تبصروں کی بجائے تین خبریں سنائوں ‘جن کا تعلق برطانیہ سے ہے؛ پہلی خبر لکھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہوگی کہ اس کا مسلم لیگ (ن) کے سیاسی کردار‘ مالیاتی دیانت اور طرزِ حکمرانی کے بارے میں کالم نگار کی ذاتی رائے سے کوئی تعلق نہیں۔ بطور ِبیرسٹر میں اس قانون سے بخوبی واقف ہوں کہ اگر کوئی غیر ملکی شخص برطانیہ میں ہتک عزت (Defamation) کا دیوانی مقدمہ دائر کرنا چاہے ‘تو اُسے دس لاکھ پائونڈ بطور زرِ ضمانت (Security) پہلے جمع کرانے پڑتے ہیں‘ تاکہ مقدمہ ہار جانے کی صورت میں وہ فریق مخالف کے سارے اخراجات ادا کر سکنے کا پابند ہو۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے ‘جو میاں شہباز شریف کو برطانوی اخبار ڈیلی میل کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے روک رہی ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم بورس جانسن کو یہ عہدہ قبول کرنے کی وجہ سے ساڑھے چھ لاکھ پائونڈ سالانہ آمدنی سے محروم ہونا پڑے گا‘ جو وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے کماتے چلے آئے ہیں اور اب وہ اُن کے لئے شجرِ ممنوعہ بن گئی ہے۔ تیسری خبر یہ ہے کہ برطانوی کابینہ کے تین بڑے اور کلیدی عہدوںمیں سے دو پر ایسے افراد فائز ہوئے ہیں ‘جن میں ایک کا تعلق پاکستان سے ہے اور دوسرے کا بھارت سے۔ ساجد جاوید نئے وزیرخزانہ ہیں اور Pirity Paterوزیر داخلہ (ہوم سیکرٹری)۔ لندن کے لارڈ میئر صادق خان بھی پاکستانی ہیں۔ برطانوی صحافی اب مذاقاً ایشیائی تارکین ِوطن کو اُس اونٹ کی جدید شکل کی صورت میں بیان کر تے ہیں‘ جو آہستہ آہستہ خیمے کے اندر اس طرح داخل ہوا کہ اُس پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مالک کو خیمے سے باہر نکلنا پڑا۔ مذاق اپنی جگہ‘ مگر ایک مثال یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مغرب کا جمہوری نظام اپنی خامیوں کے باوجود اسی لئے کامیاب رہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved