تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-07-2019

جبر اور محبت

اُس کے بارے میں طرح طرح کے قصے مشہور تھے ۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ ایک جنونی ہے ۔کبھی تو وہ حد سے زیادہ مذہبی ہو جاتا ہے اور کبھی کھلم کھلا شریعت کی نفی کرنے لگتا ہے ۔ آخر ایک روز اس شدت پسند روّیے کے بارے میں ‘ میں نے اس سے سوال کیا ۔ اُس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ۔ اُس نے کہا : میں ایک مذہبی متصوف گھرانے میں پیدا ہوا۔ میری عمر پانچ سال تھی ‘ جب مجھے ایک صوفی بزرگ کے پاس لے جایا گیا۔ کچھ دیر وہ مجھے دیکھتے رہے ۔پھر انہوں نے کہا کہ خدا نے اس بچّے کو اپنے لیے چن لیا ہے ۔ مذہبی پس منظر کی وجہ سے شروع سے میرا رجحان عبادت کی طرف مائل تھا۔ میں شرعی فرائض کے علاوہ نفلی عبادات میں بھی مشغول رہتا ۔ میرا مزاج ایسا تھا کہ میں ہر کام مکمل سپردگی اور شدت کے ساتھ کرنے کا عادی تھا۔ میں بچپن سے خدا کے بارے میں سن رہا تھا۔ اُس کے بارے میں بے انتہا تجسس میرے اندرپیدا ہو چکا تھا ۔ میں عبادت میں مشغول ہوتا تو مجھے یقین ہوتا کہ ایک روز میں خدا سے ملوں گا ۔ اکثر میں حیرت سے سوچتا کہ مٹی سے بنے ایک کمزور لڑکے سے خدا کو کیا مطلب ہو سکتاہے ؟ آخرخدا مجھ سے چاہتا کیا ہے ؟اگر ‘اُس نے مجھے اپنے لیے چن لیا ہے تو مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا؟
وقت گزرتا گیا ۔میں ترستا رہا‘ خدا سے میری ملاقات نہ ہو سکی؛ حتیٰ کہ میری زندگی کے دو عشرے مکمل ہو گئے۔ آخر میرے اندرکی شدت ابل پڑی۔ میں نے اعلانِ بغاوت کر دیا ۔ یہ میری زندگی کا دوسرا دور تھا۔میں نے ڈاڑھی منڈوائی ۔ میوزک سننا شروع کیا ۔ میں ہر قسم کے گناہوں میں مشغول ہو گیا ۔میرے مذہبی گھرانے کے لیے یہ بڑی بدنامی کی بات تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ‘ لیکن میرے اندر ایک شدید تجسس تھا کہ دیکھوں اب ‘خدا میرے ساتھ کیا کرتا ہے ۔ کیا وہ مجھے روکنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں ۔
وقت گزرتا گیا ۔کسی غیر مرئی قوت نے مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ میں تیس برس کا ہو چکا تھا ۔ گناہ اور بغاوت کے ایک بھرپور عشرے نے مجھے تھکا دیا تھا ۔مجھے تنہائی محسوس ہونے لگی تھی ۔ آخر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اب اپنا گھر بسایا جائے ۔
میں نے شادی کر لی ۔پھر میرا بیٹا پیدا ہوا ۔اس کے ساتھ ہی میری زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا۔ آہستہ آہستہ مجھے اپنے اس بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہو تی چلی گئی۔ اب‘ میں خدا کو بھول چکا تھا ۔ مجھے گناہ و ثواب بھول چکے تھے ۔میری زندگی کا محور و مرکز صرف اور صرف میرا بیٹا تھا ۔ صبح سویرے اپنے بیٹے کو اٹھا کر میں باہر نکلتا ۔ میں اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر دوڑ لگایا کرتا۔ یہ اُس کے لیے بھرپور تفریح کا وقت ہو تا ۔دوڑ شروع کرنے سے پہلے میں اسے کہتا ''بابا کو ایک پاری ‘‘ اور اپنا منہ اس کے پاس لے جاتا ۔تفریح کی آرزو سے بے تاب بچہ جلدی سے میرا منہ چوم لیتا‘ پھر میں اسے کندھے پہ بٹھا کر دوڑ لگا تا؛حتیٰ کہ میں تھک جاتا۔ اب میں اسے نیچے اتارتا ‘ اپنا منہ اس کے پاس لے جاتا اور دوبارہ کہتا '' بابا کو ایک پاری ‘‘ اس بھرپور تفریح کے عوض ایک بار پھر وہ میرا منہ چوم لیتا ۔
ایک دن جب میں دوڑ لگانے نکلا تو نجانے میرے دل میں کیا آئی کہ اُس روز میں نے اسے اپنا منہ چومنے کا نہیں کہا ؛البتہ معمول کے مطابق ‘اسے اٹھا کر دوڑتا رہا۔اس دن کے بعد سے میں نے دوبارہ کبھی اسے اپنا منہ چومنے کا حکم نہیں دیا۔
دن گزرتے چلے گئے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ ایک ابر آلود دن تھا۔ دوڑ لگانے کے بعد اپنی سانس بحال کرنے کے لیے میں ایک بنچ پر بیٹھاہوا تھا۔ میں دل کی دھڑکن معمول پہ آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ اسی وقت یہ واقعہ رونما ہوا۔ یکا یک میرا بیٹا خود ہی آگے بڑھا اوربن کہے ‘اس نے میرا منہ چوم لیا ۔
مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔میں نے دیکھا کہ میرے بیٹے کی آنکھ میں میری محبت انگڑائی لے رہی تھی ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت میرا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ میرے کہنے پر اُس نے اَن گنت دفعہ میرا منہ چوما تھا‘ لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ من مانگے ملنے والا یہ ایک بوسہ مانگ کر ملنے والے ہزاروں بوسوں پہ حاوی تھا ۔
''آخر کیوں ؟ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا ۔'' اس بوسے میں ایسی خاص بات کیا ہے ؟ ‘‘۔ '' اس میں جبر اور لالچ شامل نہیں ۔ یہ جبر نہیں‘ بلکہ محبت کا نتیجہ ہے ‘‘ مجھے جواب ملا۔ اُس نے کہا : پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ جبر سے حاصل ہونے والی چیز اور محبت سے حاصل ہونے والی شے میں کتنا فرق ہوتاہے ۔ دونوں صورتوں میں یہ ایک بوسہ ہی تھا‘ لیکن اُس چھوٹے سے دماغ نے اپنی مرضی سے فیصلہ کر کے جب میرا منہ چوما تو میرے رگ و پے میں مسرت کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ حکماً اور جبراً وہ ایک لاکھ دفعہ بھی میرا منہ چومتا رہتا تو اتنی خوشی مجھے کبھی بھی حاصل نہ ہو سکتی تھی ۔
اُ س وقت مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا‘ جیسے آسمان سے مجھ پر ایک تجلّی آگری ہے ۔ایک دم جیسے میرا دماغ کھل سا گیاتھا۔ ایک لمحے میں میری زندگی کی سب سے بڑی پہیلی حل ہو گئی ۔مجھے سمجھ آگئی کہ خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے ۔وہ ہر قسم کی مخلوقات پیدا کر رہا تھا او ریہ سب مخلوقات ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس کی تسبیح میں مصروف تھیں ‘ لیکن پھر اس نے ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا سوچا ‘ جو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہو ۔جس نے اُسے دیکھ نہ رکھا ہو ۔ جس پر ایمان جبر نہ ہو ۔ جس نے اپنی مرضی سے عبادت اور گناہ میں سے ایک کاانتخاب کرناہو ۔اُس کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ سات ارب انسان پیدا کرکے اُس نے انہیں ان کی مرضی پہ چھوڑا ہوا تھا ۔ان میں سے کتنے تھے ‘ صبح شام جو شریعت کا مذاق اڑانے میں مشغول تھے ۔ اِدھروہ خود پہ حجاب ڈالے ‘ اپنا دروازہ کھولے بیٹھا تھا ۔
اُس نے کہا : اُس لمحے میں نے اُس بڑے دوست کی موجودگی کو محسوس کیا۔ وہ میرے سامنے موجود تھا ۔وہ میرے اندر ‘ میری نس نس میں تھا ۔وہ میرے ماں باپ میں تھا ۔ وہ میرے خاندان میں تھا۔ وہ میری اولاد میں تھا ۔ وہ میرے حالات میں تھا۔ اُس کی نشانیاں چہار سُو اس طرح سے بکھری ہوئی تھیں کہ وہ اس کا وجود اظہر من الشمس تھا۔ ہر شے تخلیق کرنے والی یہ ہستی اس قدر عالیشا ن تھی کہ سات آسمان اس کی ایک مٹھی میں تھے۔ اس کے باوجود وہ میرا منتظر تھا کہ حالات کا مارا ہو ا ایک خاکی وجود اُس کی نشانیاں دیکھتا ہوا ‘اُس کی طرف آئے ۔
اُس نے کہا ''جس لمحے میرے بیٹے نے اپنی مرضی سے آگے بڑھ کر میرا منہ چوما‘ اس کے بعد میری زندگی کا چوتھا دور شروع ہوا۔ یہ دور ہے خدا سے محبت کا ‘ جس نے میرے بیٹے کواُس روز حکم دیا تھا کہ وہ آگے بڑھ کر میرا ایک بوسہ لے ۔میں نے جان لیا کہ خدا ہی حقیقت ہے ‘ باقی سب سراب ہے۔ ‘‘
میں نے دیکھا کہ اُس کے چہرے پر ایک نور چمک رہا تھا اور خاص قسم کا اطمینان تھا۔ میں نے دیکھا کہ اُس نے اپنے رب کو پا لیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved