تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-07-2019

آپریشن دوارکا اور چودہ اگست

6 ستمبر 1965 کے روز گیارہ بجے صبح کا وقت ہو گا جب ٹرانسسٹر پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی ''میرے ہم وطنو! لا الٰہ الا اﷲ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کی توپوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دو‘‘ کی پہاڑ شکن آواز گونجی اور پھر پاکستان بھر کی سڑکوں اور بازاروں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مورچوں میں سر بکف مجاہدوں کے گروہ، فضائوں میں آسمان کو چھوتے لڑاکا جہازوں کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ شاہین صفت جانباز بدر کی عظمت کو زندہ رکھنے کے لئے صف آرا تھے اور پاکستان کے سمندروں کے اوپر اور گہرائیوں میں جذبہ ایمانی کو سینوں میں بھرے ہوئے غزوہ خندق کے شہدا اور غازیوں کی یادیں تازہ کرنے کیلئے دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہو چکے تھے۔ جیسے ہی بھارت کے لاہور پر حملے کی خبر ملی تو بری، بحری اور فضائی افواج کے ہر افسر اور جوان کی نظر کے سامنے 14 اگست 1947 کے لٹے پٹے قافلوں، پیٹ چاک حاملہ مائوں، پاک باز بیٹیوں کے دریدہ جسموں، نیزوں پر ٹنگے ہوئے شیر خوار بچوں کے دلدوز مناظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے تھے‘ اپنے ماں باپ اور بچے کھچے بہن بھائیوں اور بچوں کے ساتھ پاکستان کی مٹی کی جانب جاں گسل سفر کی داستانیں گھومنے لگیں۔ دشمن کے پاکستان پر حملے کا سن کر لمحے بھر میں وہ جان گئے کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بزدلی یا سستی سے کام لیا۔ کسی ایک نے بھی اپنی دنیاوی خواہشات کو وطن سے پیارا سمجھا تو وطن انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس تصور نے پاکستان کی افواج اور پوری قوم کے اندر ملک کی سلامتی اور حفاظت کا جذبہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کی مانند بلند کر دیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سارا پاکستان نعرہ تکبیر 'اﷲ اکبر‘ کی پُر شکوہ آوازوں سے گونجنے لگا‘ اور اﷲ اکبر کی اسی گونج نے پاکستان کی ننھی منی بحریہ کو وہ ہمت اور طاقت عطا کر دی کہ اس نے دنیا کی جنگی تاریخ کی ان مٹ اور حیران کن داستانیں رقم کیں کہ اس کی یہ داستانیں سن کر ایک عالم حیران رہ گیا۔
جنگ ستمبر شروع ہونے سے پہلے ہی پاک بحریہ کو اگست میں اپنے خفیہ ذرائع سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارت خاموشی سے اپنی بھاری بھرکم نیوی حرکت میں لا رہا ہے تاکہ پاکستان کی بری افواج کو لاہور کے محاذ پر مصروف کر کر کے سمندر میں اسے شکست دی جا سکے۔ لیکن پاکستانی بحریہ انڈین نیوی کے فریگیٹس، INS Vikrant اور دوسرے تباہ کن جہاز INS DELHI کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی اور ہر حوالے سے پوری طرح الرٹ تھی تاکہ اس کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ پاک بحریہ کے انٹیلیجنس ذرائع نے اطلاع دی کہ پانچ ستمبر کو بھارت کا طیارہ بردار جہاز وکرانت جام نگر پہنچ چکا ہے۔ جیسے جیسے اس حوالے سے مزید اطلاعات مل رہی تھیں پاک بحریہ میں گھبراہٹ نہیں بلکہ اپنے ازلی دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا جوش اور جذبہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک عجیب ولولہ ان دنوں پاکستان بحریہ کے ہر افسر اور سپاہی میں نظر آتا تھا۔ ان اطلاعات کے بعد بھارت کا سمندر میں ہر جگہ مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی بحریہ نے پی این ایس بابر‘ پی این ایس خیبر، پی این ایس بدر، پی این ایس ٹیپو سلطان‘ پی این ایس جہانگیر‘ پی این ایس شاہ جہان‘ پی این ایس عالمگیر سمندر میں پہنچا دیئے۔ پی این ایس بابر کی کمان کیپٹن ایم اے کے لودھی، پی این ایس خیبر کی کمان کیپٹن اے حنیف، پی این ایس بدر کی کمان کمانڈر آئی ایچ ملک‘ پی این ایس ٹیپو سلطان کی کمان کمانڈر عامر سلیم، پی این ایس جہانگیر کی کمان کمانڈر کے ایم حسین، شاہ جہان کی کمانڈ کمانڈر ظفر شمسی اور پی این ایس عالمگیر کی کمانڈ کمانڈر قادر کر رہے تھے۔ یہ سب جذبہ شہادت اور وطن کے ایک ایک چپے کی حفاظت کا عشق اور جنون لئے پاکستان کے سمندروں کی حفاطت کیلئے اپنے مقامات پر تیار تھے۔
اس وقت پاکستان کے پاس ایک ہی آب دوز تھی‘ غازی۔ پاکستان نیوی کی یہ واحد آبدوز غازی‘ جس کی کمان کے آر نیازی کر رہے تھے‘ تین ستمبر کو ہی کراچی سے اپنی طے شدہ حدود کی جانب روانہ ہو چکی تھی تاکہ اگر دشمن سمندر کے راستے حملہ آور ہونے کی کوشش کرے تو اس کا نہ صرف بر وقت پتہ چلایا جا سکے بلکہ اس کا راستہ بھی روکا جا سکے۔ چار ستمبر کو غازی کو حکم ملا کہ وہ ممبئی سے پچاس میل کے فاصلے پر خود کو ڈیپلائے کر لے۔ سات ستمبر کو پاکستان کے سمندروں میں موجود ساتوں فلیٹ حکم ملتے ہی دوارکا کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے‘ جو کراچی سے کم وبیش 200 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے اور جہاں نصب ریڈارز پاکستان پر حملہ آور بھارتی بم بازوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ 
حملہ شروع ہوا تو بھارتی نیوی کی جانب سے پھینکے گئے پچاس گولوں میں سے صرف دس گولے ہی پھٹ سکے جس سے صرف ایک گائے ہلاک ہوئی‘ جبکہ انڈین نیوی کے ریکارڈ میں ہے کہ اس کی نیوی کے پچاس لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ گجرات کے مشہور مندر کے نام سے منسوب دوارکا سے کوئی چھ ناٹیکل میل کے فاصلے سے داغے گئے 9 گولے سیدھے انڈین ریڈارز پر گرے‘ جس سے اس کا بہت سا حصہ تباہ ہو گیا اور اس پہلے ہی حملے میں بھارتی نیوی کے دو افسروں سمیت 9 سیلر ہلاک ہوئے۔ پھر غازی نے انڈین نیوی کا غرور دوارکا میں اس طرح خاک میں ملایا کہ وہاں موجود بھارت کا ریڈار اور Installations Beamer کا صفایا کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد بھارت کا ایک بھی فائٹر اور بمبار کراچی کا رخ کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔
بھارتی نیوی نے اپنی خفت مٹانے کے لئے تکرار شروع کر دی کہ دوارکا میں تو کوئی ریڈار ہی نہیں ہے لیکن یہ جھوٹ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ انڈین نیول فورس کی جانب سے یہ مضحکہ خیز کہانی پیش کی جانے لگی کہ سائوتھ بلاک نئی دہلی سے انڈین وزارت دفاع نے ان کے ہاتھ باندھتے ہوئے تھے اور حکم دے رکھا تھا کہ انڈین نیوی پاکستانی Flotilaکے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔ انڈین وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک فائل پر اپنے لکھے گئے نوٹ کے ذریعے دو ستمبر کو نیول چیف وائس ایڈمرل BS Soman کو حکم دے رکھا تھا کہ NOT TO TAKE OR INITIATE OFFENSIVE ACTION AT SEA AGAINST PAKISTAN FORCES UNLESS FORCED TO DO SO'' ''اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔
پاکستانی بحریہ کا یہ کمال ہے کہ اس نے آج تک سندھ اور بلوچستان سے ملحقہ 700 کلو میٹر طویل پاکستان کی سمندری حدود کے اندر دشمن کے کسی جنگی جہاز کی لہر کو بھی داخل ہونے کی ہمت نہیں ہونے دی۔ میرا شاہ بندر سے کشتی کے ایک طویل سفر کے ذریعے سرکریک میں نیوی کی آخری لیاقت چیک پوسٹ جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں نیوی کے افسروں اور جوانوں کو سینہ تان کر ڈٹے ہوئے دیکھ کر سیاچن کے مجاہدوں کی یاد آ گئی۔ اس وقت اﷲ کی مدد اور اس کے دیئے ہوئے جذبۂ ایمانی کے تحت پاکستان نیوی ہر طرح کے جہازوں‘ آب دوزوں اور دوسرے ضروری اسلحہ اور میزائلوں سے پوری طرح مسلح ہو چکی ہے اور اﷲ کی عطا کی ہوئی طاقت اور ذہانت سے اس پاک وطن کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کے یہ بیٹے دشمن کو خاک چٹانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور آئے روز اپنی جوانیاں اور زندگی کی بہاریں پاک وطن پر قربان کر رہے ہیں۔
پاکستانی بحریہ کی بھارت کے خلاف پہلی فتح اور اس کے سمندر کے اندر جا کر دوارکا شہر میں کئی پردوں میں چھپا کر نصب کئے گئے ریڈارز کی تباہی کے ایک ایک لمحے کو ڈرامہ کی صورت میں فلمایا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ آج بھی پی ٹی وی کے پاس محفوظ ہو گا۔ نئی نسل کو نیوی کی بہادری اور مہارت سے آگاہ کرنے کا یہ انتہائی مناسب وقت ہے۔ ''آپریشن دوارکا‘‘ 8 ستمبر یعنی یوم بحریہ کے موقع پر پی ٹی وی سمیت ملک کے نجی چینلز پر دکھایا جانا چاہئے تاکہ نئی نسل پر واضح ہو سکے کہ پاک فوج کے جوان وطن کے چپے چپے کی حفاظت کے لئے کس طرح دن رات کوشاں رہے اور اب بھی مصروفِ کار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved