شرفا سے یہ پوچھنااخلاقی طور پر درست نہیںہے کہ وہ کس کو ووٹ دیںگے۔ اگر آپ یہ جسارت کریںگے تو شاید وہ آپ کو ڈانٹ کر منہ بند رکھنے کے لیے کہیں دیں۔ ان سے یہ دریافت کرنا بھی اپنی بے عزتی کرانے کے مترادف ہو گاکہ کیا وہ الیکشن والے دن ووٹ ڈالنے کے لیے گھرسے باہر نکلیںگے یا نہیں۔ یہ دونوں سوالات بے محل ہیںکیونکہ وہ لوگ جو اپنے صاف ستھرے گھروںکے پرسکون ماحول میں سیاسی معاملات پر بحث کرتے رہتے ہیں‘ اُس دن تھوڑی دیر کے لیے لائن میں کھڑے ہو کر اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں کریں گے۔ اس فہرست میں قومی اور بین الاقوامی جائزے لینے والی ’’گمنام ‘‘شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جائزے لینے والے غیر جانبدار اور آزاد رہنا چاہتے ہیں؛ تاہم دیگرممالک کے مقابلے میںپاکستان میں ان کی تعداد کم ہے ۔ ایسے افراد یا اداروں کا طریق ِ کار ان کے نظریات کے مطابق ہو تا ہے، اس لیے اُن کی معروضیت سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ کچھ سروے کرنے والے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ کچھ کو بائیں بازو کے لبرل اور سیکولر افراد کے جیتنے کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے جائزے سائنسی اور معروضی بنیادوں پر نہیں ہوتے، اس لیے ان کے نتائج بھی پسند و ناپسند کے تعصبات سے مبرا نہیں ہوتے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ایسے جائزوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اب جبکہ پاکستان میں عام انتخابات ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں، اکثر تجزیہ کاروں کی نظریں پنجاب میں ہونے والی انتخابی محاذآرائی پر مرکوز ہیں۔ میںنے فاطمہ پارک اسلام آباد میں پنچ پر بیٹھے ایک سفید ریش شخص سے، جو ناخواندہ اور غریب دکھائی دیتا تھا، پوچھا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے؟جواب ملا ۔۔۔’’میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دوں گا‘‘۔ جب اس کی وجہ دریافت کی تو جواب دیا ۔۔۔’’میں لاہور سے آیا ہوں اور رائے ونڈ کے محل کے قریب رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے (نواز شریف خاندان کے)لندن میں بھی محل ہیں لیکن میں ووٹ انہی کودوں گا۔‘‘جب میںنے اس کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہاکہ وہ برادری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ اگر وہ کسی اور کو ووٹ دے گا تو برادری اُس کا ’’حقہ پانی‘‘ بند کر دے گی۔ اس ’’منطق ‘‘ پر ہماری گفتگو اختتام پذیر ہوگئی۔ قریب ہی کالج کے چار طلبہ ایک چھوٹے سے بنچ پر بیٹھے بڑی خوشدلی سے باتیں کرتے ہوئے پرسکون ٹھنڈی ہوا اور لکش سبزے سے محظوظ ہورہے تھے۔ میںنے اُن سے وہی سوال پوچھاجو بڑے میاںسے پوچھ چکی تھی۔ چاروںنے بیک زبان جواب دیا کہ اُن کی عمر ابھی اٹھارہ سال سے کم ہے ،اس لیے اُن کے ووٹ نہیں بنے ہیں، تاہم وہ عمران خان کے پرجوش حامی ہیںکیونکہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اُنہوںنے بتایا کہ اُن کے اہل ِخانہ عمران خان کو ہی ووٹ دیںگے ۔ کچھ دوست جن کے گھر مارگلہ روڈ پر واقع تھے کا خیال مختلف تھا۔ ان کے علاقے میں ٹیوشن سنٹر چلانے والا شخص پی ٹی آئی کا رکن ہے اور وہ پارٹی کی بھر پور معاونت بھی کر تا ہے۔ اُس کاخیال ہے کہ اگرعمران خان جیت گئے تو وہ سینیٹر بن جائے گا۔ اسلام آباد کے علاقے ایف ٹین میں، میںنے الیکٹرانکس کی دکان کے مالک سے جو خود بھی الیکٹریشن ہے‘اُس کی سیاسی وابستگی کے بارے میں پوچھا۔ اُس کا جواب تھا کہ وہ اپنے اور اپنے بچوںکے مستقبل کے لیے عمران خان کو ووٹ دے گا کیونکہ صرف پی ٹی آئی ہی پاکستان کو بچا سکتی ہے۔ اس نے اپنے مالی مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب پانچ سال پہلے پی پی پی کی حکومت اقتدار میں آئی تھی تو اس دکان کا کرایہ 35,000 روپے تھا جو بڑھ کراب 150,000 روپے ہوچکاہے جبکہ کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ اُس نے کہا اگر آپ کسی بھی شخص سے اُس کے کاروبار کا حال دریافت کریں تو وہ خوفناک اور دل شکن کہانیاں سنائے گا۔ پھر اُس نے وہاں لگے ایک انتخابی پوسٹرکی طرف اشارہ کیا جس پر بڑی بڑی مونچھوں والے ایک شخص کی تصویر تھی اور بتایاکہ اس شخص نے 2008ء کے انتخابات میں ایک پارٹی کی ٹکٹ ’’صرف ‘‘ مرسڈیز گاڑی پیش کرکے حاصل کی تھی۔ وہ سستا زمانہ تھا، لیکن اس مرتبہ سننے میں آیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت نے جسے اپنی کامیابی کا یقین ہے، قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے لیے اس سے دو کروڑروپے لیے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے حلقے سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے جو امیدوار آمنے سامنے ہیں ان کا ماضی مشکوک ہے۔ ایک جماعت کا نمائندہ گیسٹ ہائوس کامالک ہے اور اسے ٹکٹ ملنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے گیسٹ ہائوس کے دروازے اہم مواقع پر پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں جبکہ دوسری جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار پر چھ ارب روپے مالیت کی زمین کے فراڈ کا کیس درج ہوا تھا۔ اس کیس کی رپورٹ ایک انگریزی اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی تاہم ایف آئی اے کی طرف سے آنے والی رپورٹ نے اسے بے گناہ قرار دیا تھا۔ اس کیس کو بعد میں عدالت کی مداخلت پر کھولا گیا لیکن گزشتہ دنوں ریٹرننگ آفیسر نے اسے بھی الیکشن لڑنے کے اہل قرار دے دیا ہے۔ اس ملک میں مشکوک کردار والے افراد، جرائم پیشہ اور قومی دولت لوٹ کر ملک کو کنگال کرنے والے افراد انتخابات لڑ کر قوم کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہاں سنگدل افراد پرندے پکڑ کر بیچ رہے ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ میںنے پرندے بیچنے والے ایک شخص سے پوچھا کہ وہ ایسا ظلم کیوں کرتا ہے تو اُس نے کہا کہ لوگ ان پرندو ں کی قیمت ادا کرکے صدقہ دیتے ہیں۔ جب میںنے پرندوںکی قیمت پوچھی تو اُس نے فی کس ایک سو پچاس روپے بتائی۔ چونکہ مجھ سے ننھی چڑیوں کی اذیت برداشت نہیںہورہی تھی اس لیے میںنے گن کر اُسے پیسے دے دیے اور کہا کہ وہ ان کا دروازہ کھول دے۔ جب اُس نے ایسا کیا تو چھوٹے سے پنجرے میں سے سینکڑوں چڑیاں جن کاتقریباً دم گھٹ چکا تھا، اُڑیں اور قریب ہی درختوں پر بیٹھ گئیں ۔ تین چڑیاں وہیں بیٹھی رہیں کیونکہ وہ نہیں جانتی تھیںکہ وہ ’’آزادی ‘‘ کا کیا کریں۔ اتنی دیرمیں تین اور پرندہ فروش بھاگے بھاگے آئے‘ مجھے ’’مال ‘‘ دکھایا اور کہا وہ بھی پرندے بیچ رہے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا اُس کے پاس طوطے کے بچے ہیں (یاد رہے کہ ہمارے ملک سے دیسی طوطا تیز ی سے ناپید ہوتا جارہا ہے) اور اُن کی عمر دو دن ہے۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ غیر قانونی طور پر پیسہ کمانے کا دھندہ ہے۔ راولپنڈی کے راجہ بازار میں پرندوں کی ہول سیل مارکیٹ ہے جہاں سے یہ پرندہ فروش نقد یا ادھار مال لے آتے ہیں اور لوگوں کی ہمدردی کو آزمائش میں ڈالتے ہوئے پیسہ کماتے ہیں۔ جب میںنے سرزنش کی تو انہوں نے کہا: ’’ہم بہت غریب لوگ ہیںاور اس کام سے بمشکل پانچ سو روپے یومیہ ہی کماسکتے ہیں۔ ہم ان پرندوں اور ان کے بچوںکو فروخت کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیںکرسکتے ۔‘‘اس سے مجھے یاد آیا کہ شاید سیاست دان بھی جو عوام کا خون نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھررہے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ فریال علی غیور نے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے نام ایک کھلے خط میں درخواست کی ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران انتخابی نشان بننے والے جانوروںپر ہونے والے ’’ظلم ‘‘ کا نوٹس لیا جائے اور زندہ شیروں کو عوامی جلسوں میں لانے پر پابندی عائد کی جائے۔ اب جب کہ الیکشن ہونے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد میں بننے والی اگلی حکومت جانوروں اور پرندوں پر ظلم کا نوٹس لے گی؟ کہا جا سکتا ہے کہ جب اس ملک میں انسانی لہو ارزاں ہو چکا ہے‘ بھوک اور غربت سے انسان مررہے ہیں تو پرندوں اور جانوروں پر ظلم کی فریاد چہ معانی دارد؟تاہم فیض صاحب کا ایک مصرع ذہن میں آرہا ہے۔۔۔’’لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیے‘‘ اس دیس میں جیسے تیسے ہمیں بھی زندہ ہنا ہے اور پرندوں کو بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved