کرۂ ارض پر نسلِ انسان کی وسیع تر اکثریت ذلت‘ محرومی‘ ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی اور خونریزی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ حکمران طبقات اور کارپوریٹ سیکٹر شدت سے نان ایشوز پر مبنی نسلی، مذہبی، قومی اور دوسرے رجعتی تعصبات کو ابھار کر محنت کش عوام میں پھوٹ اور منافرتیں پھیلا رہے ہیں۔ آج کی شناخت (Identity) کی سیاست حکمرانوں کی ناکامی اور نظامِ زر کی معاشرے کو ترقی دینے کی نا اہلی کی غمازی کرتی ہے۔ ساتھ ہی جبر کی نئی انتہائیں اور زہریلی وارداتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ مزاحمت کو کچلنے کیلئے ریاستی دہشت نے نئی ترکیبیں اور عیاریاں اختیار کر لی ہیں۔ ایسے میں کارپوریٹ سیکٹر جس مکاری سے حاکمیت کو مسلط کروا رہا ہے اس کے بڑے بڑے تجزیہ کاروں کی بے ضمیری اور عوام کے معاشی قتل عام میں ان کے ملوث ہونے کا انتقام تحریکیں لے کر چھوڑیں گی۔ آج جو جو ملوث ہے ان کا حساب کتاب بھی یہیں پہ ہو گا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دولت کا یہ نظام مزید چلنے کی سکت نہیں رکھتا اور لہو بہا کر اس کو زبردستی عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے‘ لیکن کب تلک! عالمی طور پر 2007-8ء کے کریش کے بعد سرمایہ دارانہ بحالی کا یہ عہد انتہائی کمزور، کھوکھلا اور سماجی ترقی سے عاری رہا ہے۔ ''اکانومسٹ‘‘ اور ''وال سٹریٹ جرنل‘‘ جیسے بورژوازی کے سنجیدہ جرائد سمیت مشہور بورژوا معیشت دانوں نے ان 11 برسوں میں مسلسل زوال یا نئے کریش کے خوف بھرے تجزیے ہی پیش کیے ہیں۔ جس سے اس نظامِ زر کے بارے میں ان کے ماہرین اور نمائندوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی ظاہر ہوتی ہے۔ اس عرصے میں اگر بڑا زوال نہیں آتا تو تمام تر معاشی پالیسیاں محض کریش اور زوال کو ٹالنے یا اس میں تاخیر پر مبنی نظر آتی ہیں۔ ان میں ایک ذریعہ قرضوں کا لا متناہی سلسلہ تھا جس نے تاریخی طور پر ہر ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ سرمایہ داری کی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ آج کوئی ایسا ملک نہیں ہے‘ جو مقروض نہ ہو اور اس میں قرضے اتارنے کی صلاحیت کا کوئی امکان نہ ہو۔ اس اقدام کی وجہ یہ بھی بنی ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ لگانے کی بجائے قرضوں کے ذریعے معمولی سرمایہ کاری کی۔ لیکن بعد از کریش کے دور کی ''بحالی‘‘ والی یہ سرمایہ داری اتنی بیمار ہے کہ اب نئی صنعتی یا پیداواری سرمایہ کاری کی شرح بری طرح گر گئی ہے۔ آف شور کمپنیوں اور سرمایہ چھپانے والے دیگر ٹھکانوں میں ملکی قرضوں کی نسبت نقد رقوم یا قیمتی نوادرات کی مقدار اور معیار کہیں زیادہ ہے۔ اب تو مصوری کے تاریخی فن پاروں سے لے کر سنگ تراشی کے قدیم نوادرات تک پر قرضے لینے کا رجحان مزید ابھر آیا ہے۔ صرف 2017ء میں امریکی سیٹھوں نے اپنے جمع کردہ فن پاروں (جو اب اثاثوں میں تبدیل ہو چکے ہیں) پر 20 ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ حاصل کیا۔ اس ''کالے‘‘ کاروبار میں اب مزید شدت آ گئی ہے۔ مستند بنیادوں پر ان کے جدید اعداد و شمار ظاہر ہی نہیں ہوتے لیکن اس کاروبار کے سوداگروں اور ماہرین کے مطابق اس میں ڈبل ڈیجٹ اضافہ ہوا ہے۔ اب تو بینکوں اور سٹاک مارکیٹ کے بیوپاریوں نے بھی ان نوادرات پر قرضوں کے لین دین میں زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک سرمایہ کاری کا سکڑ جانا اور اس میں تنزلی کی روش ہے۔ سرمایہ داری کا کلاسیکل انداز اب ناقابل عمل ہے۔ محنت پر مرکوز عالمی سرمایہ کاری اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ منافعوں میں بڑھوتری اور اجرتی اخراجات میں کمی کے لیے مستقل سرمائے (جدید ٹیکنالوجی، مشینری اور آٹومیشن وغیرہ) پر سرمایہ کاری کا رجحان بھی اب ماند پڑ چکا ہے، جس کا اس صدی کے پہلے چند سالوں میں بڑی شدت سے آغاز ہوا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بہت وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور پھر منڈی کے سکڑنے سے کریش اور شرح منافع کی شدید گراوٹ کا خطرہ پورے نظام کو لاحق ہو گیا تھا۔ لیکن مختلف ہتھکنڈوں اور ٹریڈ یونین کی مزدور تحریک کی کمزوری کو استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں نے مزدوروں کی اجرتوں کو نہ صرف جامد رکھا‘ بلکہ ان میں مزید کٹوتیاں بھی کی گئیں۔ ٹھیکے داری نظام اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے مزدور کے حقوق پر بڑے حملے اب بھی جاری ہیں۔ امریکہ میں بے روزگاری کی سرکاری شرح میں کمی نہ ہونے کے باوجود مزدوروں کے معیارِ زندگی اور اوقاتِ کار کی کیفیتں مزید اذیت ناک ہو گئی ہیں۔ ہر طرف غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی غربت بڑھی ہے اور غریب ممالک کی طرح یہاں بھی غربت کے ناپ تول کے لئے عیارانہ معیار لاگو کر کے معیارِ زندگی میں گراوٹ کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گو مزدور تحریک کے خوف کی وجہ سے حکمران طبقات پچھلے 70 برسوں کی جدوجہد سے حاصل کردہ عوامی مراعات کو اتنی تیزی سے ختم نہیں کر سکے لیکن پھر بھی عیارانہ حملے جاری ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام عوام کو حاصل ان سہولیات کا ''بوجھ‘‘ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے‘ جبکہ عالمی تجارتی تنازعات، محصولات اور قومی تحفظاتی پالیسیوں کا ابھار اس گلوبلائزیشن کی نفی کر رہا ہے جس کی بنا پر خصوصی طور پر 1990ء کی دہائی کے بحرانوں سے سرمایہ داری نے عارضی چھٹکارا حاصل کیا تھا۔
آج دنیا کی پہلی اور دوسری سب سے بڑی معیشتوں‘ امریکہ اور چین کے درمیان ایک تجارتی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ چونکہ دونوں طاقتوں کے اقتصادی معاملات بھی ایک دوسرے سے گہرائی میں وابستہ ہیں اس لیے یہ تجارتی جنگ ماضی کی جنگوں سے قدرے مختلف ہے۔ یہ جہاں تجارتی جنگ ہے وہاں ٹیکنالوجی کی لڑائی بھی ہے۔ اس کو ایک ''نئی سرد جنگ‘‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک نے تجارتی پابندیاں بڑھا دی ہیں اور ان کی برآمدات گر گئی ہیں۔ یہ لڑائی اتنی متضاد ہے کہ جب یہ اس تجارتی جنگ سے نکلنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہوتے ہیں تو اسی دوران یہ ایک دوسرے کی کمپنیوں کو بلیک لسٹ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے دنیا کی نئی تقسیم کو جنم دینے والی ایک نئی آہنی دیوار کھڑی ہو سکتی ہے۔ لیکن تجارتی جنگ کے آغاز کے بعد چینی اور مغربی سامراجیوں کے درمیان مالیاتی روابط بڑھ رہے ہیں اور یہ مستقبل میں مزید گہرے ہوں گے۔ اس کیفیت میں چینی حکمران بیرونی مالیاتی اجارہ داریوں کو چین میں کہیں زیادہ مراعات دے رہے ہیں۔ 2018ء کے وسط سے ان کو ملکیت کا 51 فیصد حصہ رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اب 2020ء تک مکمل ملکیت کی اجازت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس مالیاتی تعاون کے حوالے سے مغربی سرمایہ داروںکے چین کی معیشت میں 75 ارب ڈالر موجود ہیں۔ چین نے یہ رعایتیں اس لیے بھی دی ہیں کہ ماضی کی نسبت آج چین کو بیرونی مالیاتی ذخائر کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 2007ء میں چین میں موجود زر مبادلہ کے ذخائر اس کے GDP کا 10 فیصد تھے۔ اب ایک فیصد سے بھی کم کی سطح پر ہیں۔ اگر یہ بیرونی سرمایہ نہیں آتا تو چینی یوآن (کرنسی) عدم استحکام کا شکار ہو کر تیزی سے گر جائے گا۔ امریکہ اور یورپ میں قدامت پرست سخت گیر حکمران چین کے خلاف مزید پابندیوںکا پرچا کر رہے ہیں۔ لیکن گھاگ مغربی معیشت دان چین کی ان رعایتوں اور سرمائے کی کھپت کو ''لندن سٹی‘‘ اور ''وال سٹریٹ‘‘ کی منڈیوں کے لیے مددگار قرار دے رہے ہیں۔ اگر سخت گیروں کے تحت امریکی ریاست چین کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کر دیتی ہے تو چین 1945ء سے ڈالر پر مبنی عالمی مالیاتی نظام کا متبادل نظم و نسق تعمیر کرنے پر مجبور ہو گا۔ تجارت اور ٹیکنالوجی پر متحارب رجحانات رکھنے کے باوجود چین کا مغربی سرمایہ کاروں کو مراعات دینا در حقیقت عالمی سرمایہ داروں کے تحفظ کی ہی کاوش ہے۔ جہاں یہ مغربی سامراجیت سے متصادم ہے وہاں یہ پالیسی مفاداتی مفاہمت کو بھی جنم دیتی ہے۔ اقتصادی عالمگیریت نے ایک طرف گرتی ہوئی معیشتوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے جبکہ سرمایہ داری کا موضوعی بحران انہی طاقتوں کے درمیان تجارتی، ٹیکنالوجی، سفارتی اور بالواسطہ پراکسی عسکری جنگوں کو ابھار رہا ہے۔ عالمی سامراجی ماہرین جتنی بھی کوششیں کر لیں اور ترکیبیں ایجاد کر لیں‘ نظام کی تاریخی متروکیت اور اقتصادی دیوالیہ پن کرۂ ارض پر عدم استحکام، غربت، محرومی، خونریزی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔