وزیراعظم ترجمان سے کہیں شہبازشریف
پر مقدمہ چلائیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم ترجمان سے کہیں شہباز شریف پر مقدمہ چلائیں‘‘ تاکہ ان سے تو ہماری جان چھوٹے ‘کیونکہ مریم نواز جہاں اپنے بیانیے پر ذرا زور ڈالتی ہیں تو شہباز شریف اپنے ڈھیلے ڈھالے بیانیے سے اُس پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اس لیے‘ اگر وہ اس مقدمے میں دو چار سال کے لیے قید ہو جائیں تو کہیں مریم نواز کے بیانیے کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملے ‘جبکہ حمزہ شہباز کا مکو تو ٹھپنے والا ہے‘ وہ اندر ہو گئے تو مریم نواز کا راستہ بالکل ہی صاف ہو جائے گا؛ اگرچہ شہباز شریف کے پیچھے بھی لوگ لگے ہوئے ہیں ‘لیکن ان سے کوئی خاص اُمید نہیں ‘اس لئے کہ ان کے پاس نہ قابل پراسیکیوٹر ہیں‘ نہ وہ مہنگے وکیل مقرر کر سکتے ہیں‘ جبکہ شہباز شریف اپنے دائمی اثر و رسوخ کی وجہ سے گواہوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اب‘ امید کی واحد کرن برطانوی عدالت ہی رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
میں اور میری بہن والد کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میں اور میری بہن والد کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ کہ جانے دیں اور حکومت جتنے پیسے کہتی ہے‘ واپس کر دیں؛ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ میں جیل میں اے سی کے بغیر بھی رہ لوں گا‘ لیکن یہ صرف کہنے کی بات ہے۔اگر‘ ایسا ہوا تو اُنہیں لگ پتا جائے گا اور سچی بات تو یہ ہے‘ میں تو جیل میں اے سی کے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا اور نہ ہی پھوپھی صاحبہ‘ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں؛ حالانکہ وہ باہر سے ہی دلیر نظر آتے ہیں‘ اندر سے تو اتنے بیمار ہیں کہ وہاں چار دن نہیں نکالیں گے اور پھر حکومت کہنے پر بھی اے سی مہیا نہیں کرے گی اور اگر خدانخواستہ اُنہیں کچھ ہو گیا تو مجھے سیاست کے سا رے سبق کون پڑھائے گا ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سینیٹ میں سیاسی دنگل سے جماعت الگ رہے گی: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''سینیٹ میں سیاسی دنگل سے جماعت اسلامی الگ رہے گی‘‘ اگرچہ میںنے اس کے لیے تیاری کی کوشش کی تھی اور منصورہ میں ایک چھوٹا سا اکھاڑہ بھی بنوا لیا تھا‘ لیکن سنگل پسلی کا آدمی ہوں‘ ابھی میں نے پانچ سات ڈنڈ بیٹھکیں ہی نکالی تھیں کہ بیہوش ہو کر گر پڑا‘ جس کے بعد عزیزی لیاقت بلوچ کی کوششوں سے مجھے ہوش آیا‘ جبکہ میں نے تو اُس سے بھی کہا تھا کہ جماعت کے وقار کا سوال ہے‘ اس کشتی میں اگر تم شامل ہو سکو تو ہماری عزت رہ جائے گی‘ لیکن اُس نے انکار کر دیا؛ حالانکہ اچھا خاصا آدمی ہے اور اسے کسی کمزور پہلوان سے لڑایا جا سکتا ہے‘ لیکن میری بیہوشی کا اُس پر ایسا اثر ہوا اور خوف طاری ہوا کہ اس نے صاف انکار کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز جماعت اسلامی کے لاہور دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
سوانح سر سیّد---- ایک باز دید
اسے شافع قدوائی نے لکھا اور مجلس ِترقیٔ ادب‘ لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب'' شائستہ کے نام ہے‘ جن کا خود احتسابی پر اصرار ہمیشہ سرگرم عمل رکھتا ہے‘‘ حرفے چند کے عنوان سے تحریر ڈاکٹر تحسین فراقی کی قلمی ہے۔ اس کے بعد انتظار حسین نے سرسید ایک باز دید کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ہے۔ پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی نے سر سید شناسی کا ایک نیا باب کے عنوان سے مضمون پیش کیا ہے‘ جبکہ پیش لفظ مصنف کے قلم سے ہے ‘جس کے بعد سر سید کے اجداد اور عزیز و اقارب کے حوالے سے تعارفی تحریریں ہیں۔ اس کے علاوہ سر سید کی سرکاری اداروں سے وابستگی اور کمیٹیوں کی رکنیت‘ وائسرائے قانون ساز کونسل کی رکنیت‘ پبلک سروس کمیشن‘ ایجوکیشن کمیشن کی رکنیت اور حیات ِ جاوید کا مآخذ کے حوالے سے تحریریں دستیاب ہیں۔ سر سید کی زندگی کو محیط یہ ایک اہم دستاویز ہے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
گروں گا‘ گر کے سنبھلتا نکلتا جاؤں گا
میں اپنی راہ پہ چلتا نکلتا جاؤں گا
پگھل رہا ہوں ابھی آنسوؤں کی حدت سے
میں اپنی آگ میں جلتا نکلتا جاؤں گا
گھرا ہوا ہوں ابھی اپنے ہی وجود سے میں
مگر میں خود سے نکلتا نکلتا جاؤں گا
ابھی تو روکا ہوا ہے زمیں کی تہہ نے مجھے
کبھی تو پھولتا پھلتا نکلتا جاؤں گا
کوئی بھی روک سکے گا نہ مجھ کو جانے سے
ہزار رنگ بدلتا نکلتا جاؤں گا
اب آ گیا ہوں ضیاؔ عمر کی ترائی پر
سو یہ ڈھلان پھسلتا نکلتا جاؤں گا
(کلام :ضیاء الحسن ‘ سالنامہ ''مکالمہ‘‘ میں سے)
پھر مرے دریچے میں بارشوں کی سرگوشی
نرم نرم بوندوں کی آہٹوں کی سرگوشی
کھول دوں میں دروازہ‘ روز کون آتا ہے
رات کے اندھیرے میں دستکوں کی سرگوشی
سرخ سرخ دھاگوں میں کاسنی ستارے ہیں
نیم باز آنکھوں میں رتجگوں کی سرگوشی
کون پیڑ کے پیچھے بانسری بجاتا ہے
راستے میں شبنم اور پائیلوں کی سرگوشی
منتظر ہے شہزادہ دوسرے جزیرے پر
جل پری کی آنکھوں میں آنسوؤں کی سرگوشی( رفعتؔ ناہید)
آج کا مقطع
امیدِ وصل میں سو جائیں ہم کبھی تو‘ ظفرؔ
ہماری خواب سرا میں پتنگ اڑتی ہے