The Israeli role was never fully divulged,without external help from the US & Israel,India was totally doomed to lose all of Kashmir.
متذکرہ بالا الفاظ کسی ایسی ویسی شخصیت کے نہیں‘ بلکہ اُس لیفٹیننٹ جنرل کے ہیں ‘جو معرکہ کارگل کے دوران سری نگر میں بھارت کی 15 ویں کور کی کمان کر رہا تھا۔ چار جون 2010 ء کو انڈین آرمی کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کشن پال نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت‘ کارگل میں پاکستان سے مکمل شکست کھا چکا تھااور یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کا کارگل میں مقابلہ اکیلے بھارت سے نہیں‘ بلکہ جنرل کشن پال کے بقول؛ امریکہ اور اسرائیل سے بھی تھا۔اس کو ستم ظریفی کہیے یا اپنے شہیدوں اور غازیوں کے ساتھ بے وفائی کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ہمارے اس وقت کے سیاسی قائدین‘ بھارت کے آکاش وانیوں کی زبان بولتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں جھجکے کہ ہماری سکیورٹی فورسز تو کارگل میں شکست کھا گئی تھیں‘وہ تو ہم تھے‘ جنہوں نے پرویز مشرف کے کہنے پر امریکی صدر کلنٹن کے پاس جا کر اپنی فورسز کو بچایا۔ اس قسم کے جھوٹ بولنے والی پاکستان کی اندرونی اور بیرونی قیادت‘ جو آکاش وانیوں کی زبان بولتی رہتی ہے‘ان کی خدمت میں بھارت میں اسرائیل کے سابق سفیر مارک سوفر کے مشہور بھارتی جریدے'' آئو ٹ لُک‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
مارک سوفر نے اپنے انٹر ویو میں کہا ہے کہ '' ہم کارگل جنگ میں بھارت کی مدد کر کے سچا دوست ہونے کا ثبوت دیا ۔ ہماری مدد نے کارگل جنگ کا پانسہ پلٹ کر بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ سچا دوست وہ ہوتاہے‘ جو مصیبت میں کام آتا ہے ‘ تاہم کارگل جنگ میں بھارت کی خفیہ مدد کا حصہ راز ہی رہے گا‘‘۔ اگر‘ کسی کو اس انٹرویو کی بابت شک ہے تو وہ 7‘ 10 اور 20 فروری 2008ء کے پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات میں مارک سوفر کے اس انٹرویو کی اشاعت ِمکرر کو دیکھ سکتا ہے۔واضح رہے کہ آکاش وانی بھارت کے اس اندرونی اور بیرونی میڈیاسینیٹر زکا نام ہے‘ جو1964ء سے بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں گھڑنے اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ جس طرح ہٹلر اور اس کے ساتھی یہودیوں کے دشمن تھے‘ اسی طرح بھارت کی گھٹی میں پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔اب‘ معرکہ کارگل کے بیس برس گزرنے پر بھارت کے آکاش وانی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ کارگل میں پاکستان کو ہم نے شکست دی تھی۔اس مضمون میں میری کوشش یہی ہے کہ معرکہ کارگل میں بھارتی شکست کے اعترافات اس کے جرنیلوں اور فوجی افسروں کی زبان سے سامنے لائوں ‘تاکہ بھارت اور اس کی حامی پاکستانی آکاش وانیوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سچ سامنے لا یا جا سکے۔
'' آپریشن البدر‘‘ جو پاکستان فورس کا کارگل مشن کیلئے کوڈ نام تھا۔اس کی سب سے بڑی خوبی اور کامیابی یہ تھی کہ اس نے امریکی ''سی آئی اے‘‘ اسرائیل کی ''موساد‘‘ اور بھارت کی ''رائ‘‘ سمیت دنیا بھر کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسیوں کو چکرا کر رکھ دیا ۔ معرکہ کارگل کے وقت ہندوستان کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک بھارت کے تمام خفیہ اداروں کی ناکامی اپنی کتاب''سرپرائز ٹو وکٹری‘‘ میں اس طرح بیان کرتے ہیں ''کارگل پر بنائی گئی ہماری ریویو کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان نے بھارت سمیت دنیا بھر کی ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کارگل پر بھارت کی آخری چوٹی سمیت تمام چوٹیوں پر قبضہ کر لیا‘‘ ۔ کارگل پر بھارت کی ریویو کمیٹی کی رپورٹ کے صفحہ13 اور دوسرے پیر اگراف ایک میں لکھاہے: '' پاکستان کے ناردرن ایریا سے ملنے والی انٹیلی جینس رپورٹس نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا کہ اس حملہ کیلئے پاکستانی فوج نے اس علاقے کو میڈیا کی پہنچ سے دُور رکھا؛ حتیٰ کہ مقامی سول آبادی کو بھی اس کی بھنک نہ پڑنے دی اور یہاں سے کارگل کی بلندیوں کی طرف جانے والے ضروری سامان کو اس طرح کیمو فلاج کیا کہ ہمارے آدمیوں میں سے کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ ان میں کیا لے جایا جا رہا ہے ‘‘ ۔بھارت کی جائنٹ انٹیلی جینس کمیٹی کہتی ہے ''پاکستان کی قومی خفیہ ایجنسی اور ملٹری انٹیلی جینس نے ہمیں جو شکست دی‘ وہ ہمارے اداروں کی نااہلی کے سوااور کچھ نہیں کہ کارگل آپریشن سے قبل پاکستان کی وہ ریزرو بٹالین ‘جو ہمیشہ گلگت میں موجود ہوتی تھیں ‘انہیں لائن آف کنٹرول کے ان سیکٹروں پر پورے سازو سامان سمیت ایسی خاموشی سے پہنچا یا گیا کہ ہم میں سے کسی ایک کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو ئی اور ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ بھارت کے تین انفینٹری ڈویژن کی انٹیلی جینس اور ''را ئ‘‘ بھی اس موومنٹ سے مکمل بے خبر رہی‘‘ یعنی ''البدر آپریشن ‘‘کا مقصد یہ تھا کہ FCNA اور پاکستانی فورسز نے مجاہدین کی مدد سے بھارت کی نیشنل ہائی وے1-A جو سری نگر کولیہ براستہ کارگل ملاتی ہے‘ کاٹ دینا تھا ‘جس سے بھارت کی 15 اور16کور کی سیاچن اور اس سے ملحقہ سیکٹروں میں تعینات پانچ ڈویژن سے زائد فوج نے بھوک پیاس اور ایمونیشن کی کمی سے با لکل اسی طرح ہتھیار ڈالنے تھے ‘جس طرح 6 مئی1972ء کو چک پترا پہاڑ پر کرنل حق نواز کیانی شہید اور میجر جمشید گلزار نے دشمن کی پوری کمپنی سے ہتھیار ڈلوائے تھے ‘لیکن پاکستان میں موجود آکاش وانی ‘ بھارتی سیاست کے چانکیہ کے اس قول پر عمل کر رہی ہیں:
An archer letting off an arrow may or may not kill a single man but a wise man using his intellect can kill even into[the] very womb.
''آپریشن البدر ‘‘کارگل کے ذریعے چالیس ہزار سے زائد بھارتی فوج کو گھیرے میں لینے کی میری رپورٹ غلط ہے اور ''آپریشن البدر‘‘ کے ذریعہ پاکستانی فوج اور مجاہدین کہاں تک پہنچ گئے تھے؟ اس کی تصدیق کیلئے بھارتی فوج کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک کی کتاب'' Kargil-From Surprise TO Victory‘‘ کا صفحہ149 ملاحظہ کریں‘ـ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ '' ہمارے لیے سب سے پریشان کن بات یہ تھی کہ پاکستان نے دراس سیکٹر میں تولو لانگ درے پر قبضہ کر لیا تھا‘ جو اس سڑک سے صرف پانچ میل کے فاصلے پر تھا جو لیہ ‘ کارگل اور سری نگر ہائی وے کو آپس میں ملاتی ہے ۔یہ بھارت کی دفاعی لائن کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ یہ قبضہ لائن آف کنٹرول کے اس سیکٹر میں ہماری تمام نقل و حرکت کیلئے تباہ کن تھی۔بھارتی فوج کے پاس کارگل دراس بٹالک کی انتہائی سردچوٹیوں پر پاکستان کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہتھیار اور وردی ہی نہیں تھی اور پاک فورس کی فوجی ایجنسیوں کے پاس بھارت کی اس کمزوری کی ایک ایک اطلاع تھی ۔ اگر‘ بھارتی فوج منفی 30 درجہ حرارت میں لڑنے کیلئے اس کیلئے درکار ہتھیار اور لباس سیاچن سے منگواتے تو وہاں پاکستانی فوج دشمن کی بھارت کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے بالکل تیار بیٹھی تھی اور یہی جنرل پرویزمشرف کا پلان تھا‘‘۔
بھارتی فوج کے آرمی چیف اپنی فورسز کی اس خامی اور انتہائی سرد ترین بلندیوں پر جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور لباس کی کمی کو خود تسلیم کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 288 میںلکھتے ہیں : '' میں اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کارگل میں زخمی ہونے والی بھارتی فوج کے سپاہیوں کی عیادت کیلئے ایک ملٹری ہسپتال گئے۔ وہاں زیر علاج ایک شدید زخمی سپاہی نے واجپائی سے کہا: جسم کو کاٹ دینے والی سردی کیلئے وہاں لباس پہنچائیں۔ بھارتی فوج کے ریکارڈ اور کیبنٹ کمیٹی برائے سکیورٹی اور کارگل ریویو کمیٹی میں ان کے کمانڈر انچیف نے کہا '' کس کس کمزوری کا ذکر کروں؟ ایک طرف اگر‘ ہمیں مو ثر ہتھیاروں کی کمی کا سامنا تھا ‘تو دوسری طرف ان ہتھیاروں کا ایمو نیشن بھی انتہائی کم تھا۔ ٹرانسپورٹ فلیٹ ہماری کئی آرمی یونٹس میں کمزور اور نا کارہ تھا ۔لگتا ہے کہ پاکستان کو ہماری اس کمزوری کابخوبی علم تھا کہ ہمارے پاس اس ایریا میں اگر ایک طرف پٹرول ٹینکرز کی کمی تھی ‘تو ساتھ ہی گاڑیوں کیلئے موبل آئل ‘انجن آئل اور گریس وغیرہ کی بھی انتہائی کمی تھی‘‘۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کا یہ خط بھارتی وزارت ِدفاع میں موجود ہے۔ (جاری )