تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     01-08-2019

دوٹوک

ا س وقت سابق آئی جی موٹروے پولیس ذوالفقار چیمہ کے کالموں پہ مشتمل کتاب''دوٹوک‘‘میرے سامنے ہے‘جس میں شامل قومی اورسماجی مسائل پہ بے لاگ تبصروں اورسیاسی ایشوز پر ان کے بیباک خیالات کو پڑھ کے میرے احساسات کو نئی تازگی ملی ہے۔ان کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ وہ محض اچھے منتظم اور فرض شناس پولیس آفیسر ہی نہیں ‘بلکہ زندگی کے شعور سے لبریز اورخیر و شر میں تمیز کرنے والی قوت ِمشاہدہ کے حامل بہترین نقاد بھی ہیں‘جس کا عکس ان کے ''ایک‘خطرناک‘ مگر یاد گار تقریر‘‘اور''کیس تو ٹریس ہے‘‘جیسے کالموں میں صاف نظر آتا ہے۔
ذوالفقارچیمہ صاحب سے میرا پہلا تعارف مارچ2005 ء میں ڈی آئی جی آفس ڈیرہ اسماعیل خان کے سبزازار پہ ہوا‘جب وہ پہلی بار بطور ڈی آئی جی یہاں تعینات ہوئے تھے اور پھر یہی تعلق رفتہ رفتہ ذہنی ہم آہنگی اور فکر ی گانگت کے لافانی رشتوں میں ڈھلتا گیا۔16 سال پہ محیط یہی مشترکہ ذہنی سفر‘ اب بھی رواں دواں ہے‘ بلکہ میرے لئے ان کی مستقل مزاجی اور مہرباں فطرت کا متاثر کن پہلو یہی تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تبدیل ہونے کے بعد بھی پورے خلوص کے ساتھ وہ ان ذہنی رشتوں کو نبھاتے رہے ۔
جس ذوالفقار چیمہ کو ہم جانتے ہیں ‘ان کی اصل شناخت ؛اگرچہ فرض شناسی اورپیشہ ورانہ مہارت ہو گی‘ لیکن وہ اپنی ذہنی لچک اورکردار کی بوقلمونی کی وجہ سے ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں‘جو اس فانی زندگی کے ہر پہلو میں رنگ بھرنے کا سلیقہ جانتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان رینج میں تعیناتی کے دوران فرض کی ادائیگی کے علاوہ انہوں نے یہاں فوجداری نظام عدل کی تفہیم کیلئے اعلیٰ سطح کے سیمینارز کروائے‘سماجی انصاف کی فراہمی کا طریقہ کارمتعارف کروانے کی کوشش کے علاوہ معاشرتی تنظیم کی بحالی ‘فن و ادب کی آبیاری‘فلاحی کاموں کے ذریعے انسانی دکھوں کے مداوا کی سعی اورسوسائٹی کی اجتماعی فلاح کی خاطرگراں قدر خدمات انجام دیں۔ڈیرہ اسماعیل خان میں انہوں نے گومل تھینکرفورم کی بنیاد رکھ کے مقامی دانشوروں کو انسانی دکھوں کو سمجھنے اور حیات اجتماعی کے مسائل پہ غور و فکری کرنے کی راہ دیکھائی۔یہ ذوالفقار چیمہ ہی تھے‘ جنہوں نے اسی گومل تھنکر فورم کے پلیٹ فارم سے25 سال بعد اس شہر میں کل پاکستان مشاعرہ کا انعقاد کر کے مقامی ادب کی قدیم روایات کو زندہ کر دیکھایا۔بلاشبہ ان کا پیکر خاکی زندگی کی توانائیوں کا حامل‘ان کا دل و دماغ سماج کی سچی خیر خواہی سے لبریز ہے۔
ذوالفقار چیمہ صاحب کے کالموں کا پہلا مجموعہ''دوٹوک باتیں‘‘جب شائع ہوا تو کتاب پہ تبصرہ کیلئے انہوں نے ایک نسخہ مجھے بھجوایا‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس وقت وہ آئی جی موٹروے پولیس تھے ۔اس لیے مصنف اور کتاب کے بارے میں لکھنے کی وہ اہمیت نہ ملتی ‘جو اس وقت مل سکتی ہے‘ جب وہ سروس سے ریٹائرڈ ہوکر زندگی بسر رہے ہیں۔حالیہ 25 جون کو اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ پہ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے کالموں کے دوسرے مجموعہ''دوٹوک‘‘ کی کاپی مجھے پیش کی تو اسی وقت ہم نے اس پہ تبصرہ لکھنے کا ارادہ کر لیا۔اس کتاب میں شامل ان کی تحریروں کی زبان بہت سادہ ‘ مگر ان کا پیغام نہایت واضح اور مرکزی خیال مقصدیت سے لبریز ہے۔وہ ہماری طرح کے پیشہ ور صحافی کی مانند واقعات کے صرف گواہ نہیں بنتے‘ بلکہ وہ خود کو واقعات کے بہاؤ کا حصہ سمجھتے ہوئے ابلاغ حق کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔وہ نہایت دلیرانہ انداز میں مقتدر لوگوں کے کردار پہ بے لاگ تنقید سے بھی نہیںہچکچاتے ؛ اگرچہ ہمارے روایتی انداز سے ہٹ کے ان کا تنقیدی شعورہمدردانہ ہے اور ہر کالم لفظوں کے ادراک سے بہرور ہے‘ لیکن صاف گوئی کی بدولت کئی اخبارات نے ان کے کالموں کی اشاعت روک دی تھی۔شاید اسی لئے وہ مرکزی دھارے کے قومی میڈیاکی پالیسی اورپیشہ ور صحافیوں کی صداقت کے ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر کے مصلحت کی تنگ و تاریک گلیوں میںپناہ لینے کی روش کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں۔بلاشبہ روح کی رفعت اس وقت مرجھا کے ذلت و خواری میں غرق ہو جاتی ہے‘ جب انسان فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں کھو کے لافانی قوتوں کی نشو ونما بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔
''حرف کی حرمت‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم کی ابتداء وہ ان الفاظ سے کرتے ہیں: ''اتنا بڑا صاحب نظر ٹھیک ہی کہتا ہے کہ ہمارے بحرانوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لکھنے اور بولنے والے حرف کی حرمت قائم نہیں رکھ سکتے----- بولے ہوئے لفظ کا اعتبار ہے ‘نہ لکھے ہوئے کا-----گفتار بے وقار اور تحریر بے توقیر ہے-----حرف اور صُوت دونوں سچائی کے جوہر سے محروم ہیں‘‘۔اسی مضمون میں آگے چل کے لکھتے ہیں: ''قلم کے تقدس کی خود خالق کون و مکاں نے قسم کھائی-----قلم ! جس کی عزت و عصمت کو صاحبان دانش نے ماں اور بیٹی کی عزت وعصمت کے برابر قرار دیا‘اسے ہم نے ادنی ترین مقاصد کا نگہبان بنا لیا‘‘۔اگلے پیراگراف میں حسن بیاں کا سہارا لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حرف کی یہ شان ہے کہ وہ وقار و اعتبار کے لبادے میں ملبوس اور سچائی کے نور میں لپٹا ہو اور اس کے سر پر حقائق کا تاج سجا ہو-----حرف کا اعتبار ہی قلم کو طاقت بخشتا ہے۔قلم کی ایسی ہی طاقت سے مقتدرافراد اور اداروں کا احتساب بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔اس مضمون کا اختتام وہ ان الفاظ پہ کرتے ہیں کہ جس دن اخبار میں لکھا جانے والا اور سکرین پہ بولا جانے والا لفظ بااعتبار قرار پایا ‘وہی قوم کیلئے مبارک دن ہو گا-----کہ پھر حرف خود قوم کی سمت متعین کرے گا -----اور قلم خود وطن عزیز کا دفاع کرے گا‘‘علیٰ ہذالقیاس!
''ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ‘‘،''پاکستانی قوم کو لاحق پانچ خطرناک امراض‘‘،''دل فریب ہنر اورجرنیل روتے نہیں‘‘جیسے کئی معرکۃ الآراء کالم لکھ کے ایک بیدار مغز سماجی سائنسدان کی مانند انہوں نے قومی قیادت‘حکمراں اشرافیہ‘ سول سرونٹ‘ فوجی قیادت اور پولیس کی کمانڈ کو نہایت دلنشیں انداز میں فرض کی ادائیگی اور ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔اپنی تحریروں کے ذریعے وہ تنقید ہی نہیں کرتے‘ بلکہ مسائل کا حل بھی بتاتے ہیں۔وہ ملک سے بے روزگاری کے خاتمہ اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو کارآمد بنانے کی خاطر سکل ڈویلپمنٹ کے منصوبہ پہ بات کرتے ہیں۔ملک کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ‘کے عنوان سے لکھے گئے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ترقی کی دور میں ایشیا اور افریقا سے آگے نکل جانے والے ملکوں نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر اپنے نوجوانوں کو بی اے‘ ایم اے کی طرف نہیں دھکیلا۔انہوں نے سکل ڈویلپمنٹ کی طرف فوکس کیا۔صرف میٹرک میں اعلیٰ گریڈ لینے والوں کو کالجز اور یونیورسٹی کی تعلیم کی طرف جانے دیا۔دوسروں کو فنی اور ووکیشنل تعلیم و تربیت کے اداروں میں بھیجا۔
''تھانہ کلچر کیا ہے اور کیسے تبدیل ہوگا‘‘کے عنوان سے لکھے مضمون میں کہتے ہیں کہ ''تھانہ کا موجودہ کلچر جرائم نواز ہے۔مجرم اور بدمعاش خود کو تھانہ میں آسودہ محسوس کرتے ہیں اور مظلوم و متاثرین کے لئے تھانہ کا ماحول غیردوستانہ ہے؛حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہونی چاہیے تھی‘‘۔
بلاشہ ذوالفقار چیمہ ایک سچا محب الوطن‘اعلیٰ پائے کا دانشور‘بیباک لکھاری اور قابل پولیس آفیسر ہونے کے علاوہ دلِ دردمند رکھنے والا ایک شفیق دوست بھی ہے‘ جن کی بے ریا انکساری‘ہر غرض سے بالاتر وفاداری اور سچی ہمدردی کو ہم کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ اللہ کرے‘ زورِ قلم اور زیادہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved