حکومت سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ سے باز رہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ سے باز رہے‘‘ اور اگر اس سے باز نہیں رہ سکتی تو میری فائل کھولنے سے باز رہے‘ کیونکہ کسی کے پرائیویٹ معاملات میںدخل اندازی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس لیے اسے زرداری صاحب ہی کی فائلوں پر اکتفا کرنا چاہیے‘ کیونکہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے‘ نیز وہ جیل سے نہیں ڈرتے ‘جو اُن کا دوسرا گھر ہے‘ جبکہ جیل میرا دوسرا یا تیسرا گھر ہرگز نہیں ہے ‘جبکہ کافی مدت سے میری فائلیں کھولنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں‘ جنہیں میں گیدڑ بھبکیاں سمجھتا رہا‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے گیدڑ کی کھال اتار کر شیر کی کھال پہن لی ہے؛ حالانکہ آدمی کو گیدڑ یا شیر کی کھال کی بجائے اپنی کھال ہی میں رہنا چاہیے ‘جبکہ کھال صرف عوام کی اتارنی چاہیے‘ جو اپنی کھال سے ویسے ہی بیزارر ہتے ہیں اور حکومتوں کو عوام کی اس بیزاری کا علاج کرتے رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم میدانِ سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم میدانِ سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں‘‘ اور‘ اتنے پرانے کہ ازکار رفتہ ہو چکے ہیں اور اب ہمارا گزارہ ملین مارچ نکالنے اور اسلام آباد کو بند کرنے پر ہی ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ حکومت کی سراسر قطع رحمی ہے کہ اسے کسی بھلے مانس کی ضروریات کا احساس ہی نہیں ہے اور بار بار کے احتجاج اور دھمکیوں کے باوجود اس کی موٹی کھال پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا اور یہ جو اپوزیشن والے مجھے اپنا لیڈر بنائے پھرتے ہیں‘ اس پھوکی معتبری سے بھی کسی کا پیٹ نہیں بھرتا اور یہ معتبری بھی اس وقت تک ہی ہے‘ جب حکومت کے ایک اشارے پر دونوں بڑی جماعتیں یا ایک برف میں لگ کر بیٹھ جائیں گی‘ اور میں دیکھتا کا دیکھتا رہ جاؤں گا اور میرے ساتھ میرے مدارس کے سینکڑوں طالب علم بھی ‘جبکہ حکومت کوئی بھی ہو‘ میں نے ہر حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے ‘لیکن موجودہ حکومت سے زیادہ بے حس حکومت میں نے نہیں دیکھی ۔آپ اگلے روز عرفان صدیقی کے گھر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن کے اگلے فیصلوں سے حکومتی
ایوانوں میں بھونچال آ جائے گا: نیئر بخاری
پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے اگلے فیصلوں سے حکومتی ایوانوں میں بھونچال آ جائے گا‘‘ اگرچہ بھونچال سے شہروں کے شہر اُدھڑ جاتے ہیں ‘لیکن یہ بھونچال ایسا ہوگا کہ جس سے صرف حکومتی ایوان اُدھڑیں گے‘ اس لیے اگر‘ حکومت کو اپنی جان بچانا مطلوب ہے تو اسے چاہیے کہ یہ ایوان خالی کر کے ہمارے سپرد کر دے‘ جس کی ہمیں اس لئے بھی ضرورت ہے کہ بہت جلد ہمارے گھر ایک ایک کر کے نیلام کر دیئے جائیں گے‘ جس کی ابتدا اسحق ڈار کے گھر سے ہو چکی اور شریف برادران‘ بلکہ پوری شریف فیملی کے گھروں کی باری بھی آنے والی ہے جو خود تو جیلوں میں ہوں گے‘ جبکہ باقی ماندہ افراد سڑکوں پر تمبو لگا کر بیٹھ جائیں گے‘ جبکہ حکومتی افراد کو اپنی جان بچانے کیلئے بھی یہ ایوان خالی کرنا ہوں گے‘ کیونکہ بھونچال سے یہ ایوان اُدھڑ سکتے ہیں اور جس کے ملبے سے اسے ہمیں ہی نکالنا پڑے گا؛ اگرچہ ہم سب اُس وقت جیل میں ہوں گے ‘اس لیے اس کارِ نیک سے محروم ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت سبز باغ دکھا رہی ہے‘ کفن بھی مہنگا کر دیا گیا: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت سبز باغ دکھا ہی ہے‘ کفن بھی مہنگا کر دیا گیا‘‘ اس لیے مرنے والے خواتین و حضرات کو چاہیے کہ اپنا اپنا سفر آخرت فی الحال معطل کر دیں‘ جب تک کہ روٹی سستی کرنے کی طرح حکومت کفن بھی سستا نہیں کر دیتی اور اس وقت تک حکومت کے دکھائے ہوئے ان سبز باغوں میں سیر سپاٹا کرتے رہیں‘ جو کہ ان کی صحت کیلئے بیحد ضروری ہے‘ جبکہ میری اپنی صحت بھی کچھ ایسی ویسی ہی رہتی ہے اور صبح کی واک میرا ان باغوں ہی میں کرنے کا ارادہ ہے‘ کیونکہ میری صحت کے ساتھ پوری جماعت کی صحت کا دارو مدار بھی ایسے باغات میں سیر پر ہی ہے‘ اس لیے اس معاملے پر حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے‘ جس سے سب لوگ کفن کے سستا ہونے کا انتظار بھی کر سکیں گے؛اگرچہ انتظار موت سے بھی شدید ہوتا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے حسب ِ عادت اپنا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اے چشم ِ تماشا!
یہ سعید اکرم کا مجموعۂ کلام ہے‘ جس میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں اور جسے دارالنوا در‘ لاہور نے شائع کیا ہے۔ دیباچے پروفیسر یوسف حسن اور ارسلان احمد راٹھور نے لکھے ہیں۔ انتساب جانِ پدر محمد احمد سعید کے نام ہے۔ دیباچوں میں درج شاعر کے منتخب اشعار ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعری میں نہیں‘ بلکہ شاعری کی کتابوں میں اضافہ ہے؛ اگرچہ مرنجاں مرنج شاعری کرنا کوئی جرم نہیں ہے‘ لیکن شاعری کی کتاب ایک چیلنج ہوتا ہے کہ کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے! اس لیے شاعری محض قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے؛ چنانچہ ایسی کتابوں کی اشاعت سے صرف شاعر کے جاننے والوں ہی کا بھلا ہو سکتا ہے‘ کیونکہ یہ روٹین کی شاعری ہے؛اگرچہ ہمارے ہاں روٹین کی شاعری سے لطف اندوز ہونے والے روٹین کے قارئین کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔اس لیے ایسے شعراء کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے‘ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ دنیائے شعر و ادب میں اس سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں ‘جبکہ یہ ایک شوق بھی ہے‘ جسے پورا ہوتا رہنا چاہیے۔
آج کا مطلع
وہی منظر برف برسنے کے‘ وہی گھڑیاں دھوپ نکلنے کی
وہی سلسلہ وار سبیلیں ہیں ترے موسمِ راز میں ڈھلنے کی