تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-08-2019

سٹائل

آپ نے اکثر گھروں میں دیکھا ہوگا کہ مائیں بچوں کے لیے آخری حد تک قربانیاں دیتی ہیں ۔بچّے کو جنم دیتے ہوئے جس تکلیف سے عورت گزرتی ہے ‘ مرد کبھی اس درد کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا ۔ باپ کمانے نکل جاتا ہے ۔ بچّے کی ساری دیکھ بھال ماں کرتی ہے ۔ بار بار اس کا گند صاف کرتی ہے ۔ اسے دودھ پلاتی ہے ۔ راتوں کو اس کے ساتھ جاگتی ہے ۔ گیلا بستر اور کپڑے تبدیل کرتی رہتی ہے کہ اسے سردی نہ لگ جائے ۔ یہ بات نہیں کہ باپ کچھ نہیں کر رہا ہوتا‘ لیکن بچّے سے 90فیصد واسطہ تو ماں ہی کا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود جب یہ بچّہ بڑا ہوجاتا ہے توزیادہ تر کیسز میں وہ ماں سے نہیں ‘باپ سے ڈرتا ہے ۔ کئی بچّے ماں کو ڈانٹنا بھی شروع کر دیتے ہیں ‘ خصوصاً لڑکے۔ جب وہ سکول جانے کے لیے باہر جانے لگتا ہے تو ماں دودھ کا گلاس اٹھائے اس کے پیچھے لپکتی ہے ۔ اس پر وہ بجائے احسان مند ہونے کے غصے کا اظہار کرتا ہے ۔ ہماری مائوں کی جو ایک نسل گزری ہے ‘ اُس تک تو حالات ایسے ہی تھے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ نفس کو سٹائل پسند ہے ۔ سادہ ‘ مکمل طور پر کھل جانے اور مکمل طور پر اپنے سامنے بچھ جانے والے لوگوں کی ‘اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے۔ 
یہ صرف مائوں تک محدود نہیں ۔ بے شمار لوگ ہیں ‘ جو محبوب کی خاطر اپنی نسیں کاٹ دینے کی کوشش کرتے ہیں ‘لیکن محبوب ہے کہ اس کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی ‘بلکہ الٹا وہ کوفت کا شکار ہو رہا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ نفس کو سٹائل پسند ہے ۔جب اسے ذرا سا اندازہ ہو جائے کہ یہ بندہ میرے سامنے مکمل طور پر بچھنے کو تیار ہے ‘تو فوراً وہ اسے for grantedلینا شروع کر دیتا ہے ۔ 
ا س کا مطلب بہت سادہ ہے ۔ کبھی بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر کھول کر کسی کے سامنے پیش نہ کریں ۔ کبھی کسی کو یہ نہ کہیں کہ آپ ٹوٹ چکے ہیں ‘ آپ بکھرنے والے ہیں اور کوئی سمیٹنے والی ہستی درکار ہے ۔ آپ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کرنا چاہیے اور کون سا راستہ چننا چاہیے۔ 
بچّے باپ سے اسی لیے ڈرتے ہیں کہ ناصرف وہ قوت میں ان سے زیادہ ہوتا ہے ‘بلکہ اس کے ہاتھ میں معاملات ہوتے ہیں ۔ فیصلہ سازی اس نے کرنی ہوتی ہے ۔ وہ بچّوں کو کبھی نہیں کہتا کہ میں مر گیا ‘ لٹ گیا ‘ یہ ہو گیا‘ وہ گیا‘ وغیرہ وغیرہ۔ 
جس لمحے آپ کسی شخص کو یہ احساس دلا دیتے ہیں کہ آپ اس کے بغیر کچھ نہیں ‘ اس کے بعد آپ اس شخص کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں‘ جبکہ سیانے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو کسی انسان کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا انتہائی بے وقوفی ہے ۔ 
اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ انسان کو اپنا ایک سٹائل برقرار رکھنا چاہیے ۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ایسی ہوتی ہے ‘جو کہ دوسروں سے اسے ممتاز کرتی ہے ‘ اس پر اسے کام کرنا چاہیے ۔ ماں تو خیر خدانے پیدا ہی اس لیے کی ہے کہ اس کے بغیر اولاد کبھی زندہ نہ رہتی ‘لیکن پھر بھی اپنا ایک الگ تشخص برقرار رکھنا چاہیے ۔ انسان ذہن یا جسے ہم نفس کہتے ہیں ‘ وہ اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ جس چیز کو وہ مکمل طور پر جان لیتا ہے ‘ اسے پھر اس میں کوئی بھی دلچسپی باقی نہیں رہتی ۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں ؛ ایک عورت گھر کے سارے کام کرتی ہے اور بہت اچھا کرتی ہے‘ یہ سب کچھ کر کے‘لیکن اسے وہ اہمیت کبھی نہیں ملتی‘پھر پچاس سال کی عمر میں وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں نے ڈرائیونگ سیکھنی ہے اور وہ ڈرائیونگ سیکھ لیتی ہے ‘ پھر وہ خود گاڑی چلا نا شروع کردیتی ہے ۔ وہ راستے یاد کرلیتی ہے ۔ اپنے ضروری کام خود کرنے لگتی ہے ۔ اب نفس کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ لاشعوری طور پر بچے اور شوہر اسے پہلے کی نسبت زیادہ اہمیت دیں گے ۔ اب‘ اس سے ایک قدم آگے چلیں ۔ یہی عورت انگریزی بولنا سیکھتی ہے اور پھر وہ برطانوی یا امریکن لہجہ (Accent)سیکھتی ہے ‘ پھر وہ آن لائن ڈپلومے وغیرہ کرتی ہے ۔ اپنی انگریزی بولنے کی صلاحیت کو استعمال کرتی ہے ۔ اب‘ اس کے شوہر اور بچوںمیں کوئی ایسا نہیں ہوگا ‘ جو اسے اہم نہ سمجھے ۔ 
بہت کم شوہر ہوتے ہیں ‘ جو اپنی بیوی کو بچوں کی نظر میں اہم بننے میں مدد دیتے ہیں ۔ اگر‘ تو ایک عورت کو ایسا شوہر ملا ہے تو پھر تو کیا کہنے! لیکن اگر‘ اس کے برعکس ہو تو پھر اپنی کوئی تو شناخت اور کوئی تو حیثیت اس عورت کے پاس ہونی چاہیے ۔ دنیا میں ہر قسم کی مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ عورت ڈرائیونگ ہی کرے اور انگریزی ہی بولے۔ وہ پینٹنگ بھی کر سکتی ہے۔ عورتوں کو اللہ نے اتنا ہی دماغ دیا ہے ‘جتنا کہ مردوں کو ۔ پڑھائی میں اکثر پہلی پوزیشنیں لڑکیاں لے جاتی ہیں ‘لیکن ظاہر ہے کہ بچّے عورت نے ہی پیدا کرنے ہیں ۔ شیر خوار بچّے کی ضروریات عورت ہی پوری کر سکتی ہے ۔یہ اُس کی مجبوری ہے ۔نسلِ انسانی کی بقا (survival)یقینی بنانے کے لیے اللہ نے عورت میں نسوانیت کی شکل میں نرمی اور خوبصورتی پیدا کی‘ لیکن پھر بھی دماغ مرد جتنا ہی دیاہے ۔ 
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر عورتوں کے شوہر اس وجہ سے انہیں اہمیت نہیں دیتے کہ عورت اپنے شوہر اور بچوں کے سامنے ایک کھلی کتاب ہوتی ہے ۔ میری یہ مراد ہرگز نہیں کہ عورت کو مرد کے مقابلے میں اتر آنا چاہیے‘ لیکن اُسے اپنے آپ کو مکمل طور پر مرد کے رحم و کرم پہ چھوڑ نہیں دینا چاہیے ۔ اسے خوبصورت اور فیشل ایبل نظر آنا چاہیے ۔ اسے مطالعہ کرنا چاہیے ۔ جس زمانے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ‘ اس کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے ۔ اسے پتا ہو کہ وائی فائی کیا ہوتا ہے ۔ گوگل میپ استعمال کر کے اپنی منزلِ مقصود پہ پہنچنے کی سمجھ ہو ۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں ‘ جو مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر کسی بھی عمر میں سیکھی جا سکتی ہیں اور اسے سیکھنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے ۔
اللہ ایسی اولاد سب کو دے جو ماں باپ کی فرمانبردار ہو ۔ ہمیں اپنے ماں باپ کا فرمانبردار بنائے اورہماری اولاد کو بھی‘ مگر انسانی دماغ کی تشکیل ہی ایسی ہے کہ اسے جب محسوس ہوتا ہے کہ سامنے موجود شخص کو کسی چیز کا کوئی علم نہیں اورمعاملات اس کے ہاتھ میں نہیں تو پھر اسے اس کی سادہ سادہ باتوں پر غصہ آنا شروع ہو جاتا ہے ۔بالکل وہی بات ایک فیشن ایبل شخص کہے تو بالکل برعکس اسے وہ اہمیت دیتا ہے ‘ کیونکہ نفس سٹائل کو پسند کرتا ہے۔ 
دماغ کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ یہ سامنے موجود شخص کی صرف ظاہری شکل و صورت نہیں دیکھتا ‘بلکہ یہ اس کی عقلی شکل و صورت کا بھی اندازہ لگاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ شروع شروع میں انسان ایک خوبصورت شخص کی بونگیاں بھی برداشت کر لیتا ہے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اُس کی عقلی شکل و صورت کی بد صورتی اس پہ کھلتی ہے تو پھر اسے اُس کی بے وقوفی کی باتوں پر غصہ آنے لگتا ہے ۔اور یہ ضروری نہیں کہ انسان بول کر ہی اپنے آپ کو عقلمند منوا سکتاہے ۔ اکثر صورتوں میں خاموش رہنا عقلمندی ہوتی ہے ۔
آخر میں صرف یہی عرض ہے کہ انسان کو بالکل سٹائل سے تہی نہیں ہونا چاہیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved