کون سا لمحہ ہے جو شکر کا موقع عطا نہیں کرتا؟ شاید کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں۔ جو اللہ سے بصیرت طلب کرتے ہیں انہیں دیدۂ بینا ایسی نعمت عطا کی جاتی ہے اور یوں وہ کسی حد تک شے کی حقیقت دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
جسے اللہ کی طرف سے توفیق نصیب ہوتی ہے وہ شے کی حقیقت کو دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ سے توفیق کا التماس کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ انسان دنیا کے جھمیلوں میں گم ہوکر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے تو کائنات کے خالق و مالک نے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے اُسے اپنے کلام کے ذریعے بتادیا ہے۔ ہم دنیا میں آتے ہیں‘ اسے دیکھتے ہیں اور اس کے جلوؤں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پھر کچھ یاد ہی نہیں رہتا کہ کائنات کے خالق و مالک نے ہمیں وجود کیوں بخشا ہے‘ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے‘ ہم پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ ہمیں ڈھنگ سے جینے اور رب کی مرضی کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے کیا کیا کرنا ہے۔ اگر کبھی خیال آ بھی جاتا ہے تو بس چند لمحات کے لیے۔ ایک لہر سی آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ جذبات میں ایک اُبھار سا پیدا ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
امام ابو حامد غزالی اُن علما میں سے ہیں جنہوں نے تفکر کے حوالے سے بہت کچھ دیا ہے۔ اُن کی کتاب ''کیمیائے سعادت‘‘ شرعی اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ایک اچھا روڈ میپ ہے۔ ''احیاء العلوم‘‘ میں امام غزالی نے زندگی کے تمام بنیادی اور اہم پہلوؤں پر خاصی شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ اسی کتاب میں ایک مقام پر ابو یزید بُسطامیؒ کے حوالے سے منقول ہے کہ لوگ اُن کے پاس آئے اور نمازِ استثقاء کے لیے چلنے کی استدعا کی۔ ابو یزید بُسطامیؒ نے فرمایا: ''تم لوگ اس لیے فکر مند ہو کہ پانی نہیں برس رہا۔ میں تو اس بات پر شکر ادا کرتا ہوں کہ پتھر نہیں برس رہے!‘‘ عارف جس مقام پر ہوتا ہے کہ وہاں اُسے ایسا بہت کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے جو عام آدمی کی نظر سے مکمل طور پر اوجھل ہوتا ہے۔ ہم اللہ سے بہت کچھ چاہتے ہیں۔ چاہنے میں کچھ قباحت نہیں کہ اللہ سے خیر ہی کی امید وابستہ کرنی چاہیے مگر اللہ نے ہم پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں اُن سے سبک دوش ہونا بھی تو لازم ہے۔
دیکھنے والی نظر بہت کچھ دیکھتی ہے۔ عام آدمی جس صورتحال کو اپنے لیے عذاب کی ایک صورت سمجھتا ہے اُسے عارف کی نظر اللہ کی نعمتوں میں شمار کرتی ہے۔ جن پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے وہ ہر الجھن کو نعمت سمجھتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں کہ جو کچھ سہنا پڑا ہے اُس سے کہیں زیادہ سہنا پڑسکتا تھا! جس وقت لوگ پانی کے نہ برسنے کو مصیبت شمار کر رہے تھے تب اللہ کے عارف کی نظر نے دیکھا کہ پتھروں کا نہ برسنا مقامِ شکر ہے۔ ہمارے اعمال تو ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو مصیبت نازل ہو سو کم ہے۔
اپنے اعمال پر نظر کرنا اور انہیں شناخت کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا خواستگار ہونا بھی سب کے نصیب میں نہیں لکھا ہوتا۔ اس کی توفیق بھی اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ توفیق اُسے عطا ہوتی ہے جو طلب کرتا ہے۔ عام آدمی سَر سے پاؤں تک خطاؤں میں لپٹا ہوا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اپنے حال پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور وہ بلا جواز طور پر ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھا رہتا ہے۔ عام آدمی دین سے دوری کے باعث بہت سی ایسی باتوں پر غور نہیں کرتا جو اُس کے لیے ایمانیات کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ دین سے دوری بھی اپنی پیدا کردہ ہوا کرتی ہے۔ جو اللہ کی طرف جائے اُسے آگے بڑھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آتی۔ یہ شیطان ہے جو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ہمیں عمومی سطح پر دین کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ اُس کی کامیابی دراصل ہماری مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ہم خود ہی تساہل اور بے دِلی و بے رغبتی کے ہاتھوں اُس کا کام آسان کردیتے ہیں۔
ہر دور کا انسان اپنے رب کو پہچاننے اور اُس کی بات ماننے میں تساہل سے کام لیتا رہا ہے۔ اس کا سبب سمجھنا زیادہ دشوار نہیں۔ انسان عمومی سطح پر دنیا داری سے بلند نہیں ہو پاتا۔ یہ سوچ کا معاملہ ہے۔ سوچ کا سانچا ہی طے کرتا ہے کہ ہم کیسی زندگی بسر کریں گے۔ عام آدمی دنیا میں پائی جانے والی آسائشوں کے حصول ہی کو زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ لیتا ہے۔ وہ زندگی بھر آسائشوں کے حصول کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے۔ جب اپنی محنت یا مرضی کے مطابق سب کچھ نہیں مل پاتا تو انسان گِلے شِکوے کرتا ہے۔ اپنے آپ کو‘ اپنے جیسوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خالق اور رب سے بھی شِکوہ کرتا ہے کہ اُس نے وہ سب کچھ نہیں دیا۔ تشکر کی عادت پروان نہ چڑھانے کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ ہم یہاں جو کچھ بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے۔ اس دنیا کی کوئی بھی تکلیف ابدی ہے نہ آسائش ہے۔ سب کچھ ایک خاص مدت تک ہے مگر ہاں‘ آخرت میں جو کچھ ہے وہ ابدی ہے۔ جو کچھ عارضی ہے اُس پر ہم مرے اور مِٹے جاتے ہیں اور جو کچھ ابدی ہے‘ ہمیشہ کے لیے رہنے والا ہے اُس کے لیے تیاری کرنے کے بارے میں ہم سوچتے ہیں نہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔ جب انسان اپنے خالق اور رب کی منشاکے مطابق زندگی بسر کرنے کو اپنا بنیادی مقصد بناتا ہے تب اُس کے باطن پر یہ نکتہ منکشف ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ہمارا قیام صرف اس لیے ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں۔ صرف نعمتوں پر نہیں بلکہ مصائب پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی مصیبت کے نازل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنا اس لیے لازم ہے کہ اُس سے بڑی مصیبت آسکتی تھی مگر نہیں آئی۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ بہت سوں کو اعمال کی اچھی خاصی سزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔ ہر معاملے میں اللہ کا شکر ادا کرنے والوں کی رائے یہ ہے کہ دنیا میں مصائب کا سامنا اس امر کا اشارہ بھی ہے کہ خالق و رب نے خطاؤں سے صرفِ نظر نہیں کیا اور تادیب کا بھی اہتمام کیا۔ یعنی سزا کے لیے منتخب ہونا بھی اللہ کی نعمت ہے۔ بدنصیب وہ ہے جو گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے اور رب کی طرف سے تادیب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے آخرت تک ڈھیل دے دی گئی ہے۔ اور وہاں‘ آخرت میں‘ بچنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا۔
جب تک دم میں دم ہے‘ رب کا شکر ادا کرتے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ نعمت ہاتھ آئے یا مصیبت کا سامنا ہو‘ ہر حال میں اللہ کا شکر گزار رہنا ہی دانش مندی ہے۔ افکار و اعمال تو ایسے ہیں کہ آگ اور پتھر برسائے جانے چاہئیں۔ ایسے میں پانی کے نہ برسنے پر شِکوہ کُناں رہنے کے بجائے اللہ سے رحمت کی بھیک مانگنا ہی عقل کا سَودا ہے۔